کل آپو کی رسم نکاح تھی جو نہایت سادگی سے انعقاد پذیر ہوئی کیونکہ دو دن پہلے میرے پھوپھی زاد اور بہنوئی میاں آصف طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے تھے۔ واضح رہے کہ میری پوتی عائشہ کو بہت کم لوگ ہی عائشہ کے نام سے پکارتے ہیں کیونکہ وہ چھوٹے بڑے سب کی آپو ہے یعنی جگت آپو ۔ دولہا والے اوکاڑہ سے آئے تھے‘ گویا اوکاڑہ کے ساتھ ایک اور تعلق استوار ہوا۔ منیب الحق یہاں بھی اس کے کلاس فیلو تھے اور دونوں دو دو سال مزید تعلیم کے لیے لندن میں بھی گزار آئے ہیں۔ آپ ہمارے دوست چوہدری اکرام الحق ایڈووکیٹ کے صاحبزادے ہیں جو پریکٹس بھی کرتے تھے اور بزنس بھی۔ پہلے بلدیہ اوکاڑہ کے چیئرمین منتخب ہوئے اور پھر شہر ہی سے رُکن اسمبلی بھی بنے۔ اوکاڑہ کا اوور ہیڈ پل ان سے یادگار ہے۔ چند سال پہلے انتقال ہوا۔ ان کے والد بزرگوار چوہدری عبدالحق بھی ایک کاروباری اور سیاسی شخصیت تھے جو میرے والد صاحب کے ساتھ یکے بعد دیگرے بلدیہ اوکاڑہ کے منتخب وائس چیئرمین رہے۔ مُنیب ماس کمیونیکیشن کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد لاء بھی کر رہے ہیں اور سیاست میں آنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔
آج ہی محبی جمیل یوسف‘ جو اسلام آباد سے لاہور آئے ہوئے تھے‘ میری بیمار پرسی کو آ گئے جن کے ہمراہ آغا صفدر علی بھی تھے‘ جو شاعر بھی ہیں اور ڈنمارک میں تدریسی خدمات سرانجام دینے کے بعد اب ریٹائر ہو چکے ہیں۔ جمیل یوسف ایک عمدہ شاعر تو ہیں ہی‘ شاعری پر بھی گہری اور خصوصی نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے نیشنل بُک فائونڈیشن کے لیے مصحفی کا ایک انتخاب مرتب کیا ہے‘ جو ہمارے دوست اور چیئرمین جناب انعام الحق جاوید کے زیر انصرام ہے‘ بہت جلد شائع ہو گا۔ خود انعام الحق جاوید ایک فلک شگاف قسم کے مزاحیہ شاعر ہیں جنہیں آپ خوب اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ان کے شائع کردہ غزل کیلنڈر کا ذکر ہم پہلے کرچکے ہیں۔ آپ استاد شاعر انجم رومانی کے داماد ہیں اور استاد کا کلیات بھی شائع کر چکے ہیں۔
جن دن مجھے چوٹ آئی اسی دن کشور ناہید بھی ڈاکٹر ابرار احمد کے ہمراہ میرے ہاں آنے والی تھیں جو لاہور آئی ہوئی تھیں اور اصغر ندیم سید کے گھر ناشتہ کرنے کے بعد کچھ دیر ڈاکٹر ابرار کے ہاں رکنا تھا لیکن میں نے انہیں آنے سے منع کر دیا کیونکہ میں تو اپنے ایکسریز وغیرہ کے چکر میں تھا ۔ بعدازاں اقتدار جاوید اور حسین مجروح بھی بیمار پرسی کے لیے آئے۔ جیسا کہ پہلے کہیں بتا چکا ہوں میں فارم ہائوس سے تین چار دن کے لیے شہر آ جاتا ہوں تاکہ جو دوست وہاں نہیں جا سکتے ان کے لیے آسانی رہے۔ آفتاب ویسے بھی اپنے شو وغیرہ کے سلسلے میں چار پانچ روز وہاں سے غیر حاضر ہوتا ہے بلکہ اب تو اس نے چینل 92کے لیے ''حماقتیں‘‘ کے نام سے ایک علیحدہ شو بھی شروع کر دیا ہے۔ تاہم‘ اب سوء اتفاق سے ماڈل ٹائون ہی میں بسیرا ہے کہ پلستر کھلنے میں ابھی تین چار ہفتے لگیں گے۔
سجاد بلوچ ایک ابھرتے ہوئے اور ہونہار غزل گو ہیں جنہیں کچھ عرصہ پہلے آپ سے روشناس کرا چکا ہوں۔پہلا مجموعہ ''ہجرت ہجر‘‘ ڈیڑھ سال پہلے چھپ چکا ہے۔ تعلق واہ کینٹ سے ہے۔ اب میری فرمائش پر اس نے اپنا تازہ کلام بھجوایا ہے۔ مضامین تو سبھی پرانے ہوتے ہیں‘ پرانے مضمون کو نیا کر دینا ہی اصل شاعری ہے اور سجاد بلوچ یہ کام خوب جانتا ہے۔ مجھے اس کا یہ شعر نہیں بھولتا جس میں انسان کی ازلی ناکامی کو کس خوبصورتی سے شعر بند کیا گیا ہے ؎
اک دیے سے کوشش کی دوسرا جلانے کی
اور اس عمل میں پھر وہ بھی بجھ گیا مجھ سے
اب اس کے یہ اشعار دیکھیے:
دریدہ ایسے ہوئے عمر بھر سلے نہیں ہم
یہ کیا ہوا کہ تجھے مل کے بھی ملے نہیں ہم
گلاب تھے کسی صحرا مزاج موسم کے
تمہارے خواب کے اطراف میں کھلے نہیں ہم
یہ کیا ہوا تجھے‘ تو تو پہاڑ جیسا تھا
ہمیں بھی دیکھ جڑوں سے ذرا ہلے نہیں ہم
شب فراق کا دل اور بھی جلاتا ہوا
میں تیرے خواب سے جاگا ہوں مسکراتا ہوا
ہجرت خانہ بدوشاں بھی کوئی ہجرت ہے
ہم کہ ویرانے میں آئے کسی ویرانے سے
ہوا ئو‘آئو ‘ اڑائو مری بھی خاک ابھی
اڑا اڑا کے یہ گردو غبار‘ تھک گیا میں
چھوڑیے دلاسے اب ‘کٹ ہی جائے گا رستہ
آپ راستے میں ہیں‘مجھ کو راستہ دیجے
حجرۂ جاں میں جو خاموش ہیں اِک مدت سے
یہ دیئے آپ کی اِک چاپ سے جل سکتے ہیں
تمام عمر رہِ انتظار پر خوش ہیں
زمین زاد ہیں‘ گردو غبار پر خوش ہیں
جہاں بھی چاہیں گے خود کو غبار کر لیں گے
شکستہ پا تو اسی اختیار پر خوش ہیں
آج کا مطلع
لفظ پتوں کی طرح اڑنے لگے چاروں طرف
کیا ہوا چلتی رہی آج مرے چاروں طرف