بھارت میں مراٹھی زبان کے معروف مصنف بھال چندر نموڑے نے موقع ملتے ہی انگریزی کے خلاف بول کر بہت سوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ یہ بھی شہرت بٹورنے کا ایک اچھا حربہ ہے۔ جس طور بہت سے لوگ امریکہ کے خلاف بول کر توجہ پاتے ہیں‘ اُسی طور بھارت جیسے ممالک میں انگریزی کے خلاف بول کر توجہ کا مرکز بنا جاسکتا ہے۔ گیان پیٹھ ایوارڈ سے نوازے جانے والے نموڑے جی کی پیٹھ گیان نے اِس قدر تھپتھپائی کہ وہ انگریزی کے خلاف پھٹ پڑے۔ ٹائمز آف انڈیا سے انٹرویو میں اُنہوں نے کہا کہ ہر سطح پر تعلیم مادری زبان میں دی جانی چاہیے۔ انگریزی کو قاتل زبان قرار دیتے ہوئے اُنہوں نے بتایا کہ 150 سال میں انگریزی نے امریکہ کی 150، ایشیا و بحرالکاہل (بشمول آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ) کی 300 اور برطانیہ کی 5 زبانوں کو نگل لیا ہے‘ صرف آئرش اِس کے پنجوں سے بچ سکی ہے۔ نموڑے جی کا کہنا ہے کہ انگریزی کو وہی درجہ دیا جائے جو جُوتی کو دیا جاتا ہے۔ جب ہم کہیں جائیں تو انگریزی پہن لیں اور جب گھر واپس آئیں تو انگریزی کو دروازے پر اُتار دیں۔ نموڑے جی کو اِس بات کا بھی گِلہ ہے کہ انگریزی اپنانے کے ساتھ ساتھ ہندوستانیوں نے عریانیت بھی اپنالی ہے۔ گویا وہ انگریزی کو انتقاماً ترک کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔
یہ ساری باتیں پڑھ کر ہمیں تو ایسا لگا جیسے نموڑے جی ہمیں آئینہ دکھا رہے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک زمانے سے انگریزی کو سب کچھ سمجھ لینے کا چلن ہے۔ اب راتوں رات یہ چلن ہم کیسے ترک کریں؟ ہم اپنے من مندر میں جس انگریزی کی پُوجا کر رہے ہیں نموڑے جی اُسے دیس نکالا دینے کی تحریک دے رہے ہیں۔ ہم نموڑے جی پر واضح کردیں کہ انگریزی کو ہم نے اب تک وہی درجہ دیا ہے جو وہ چاہتے ہیں۔ ہم بھی انگریزی کو پیر کی جُوتی ہی سمجھتے ہیں۔ مگر چونکہ ہم ''نمک حرام‘‘ نہیں اِس لیے سابق آقاؤں کی زبان کو جُوتی کا درجہ دینے کے بعد بھی سَر پر رکھ کر نمک کا حق ادا کر رہے ہیں!
نموڑے جی کی تجویز پر بھارت میں لوگ کس طور عمل کرتے ہیں یہ تو ہمیں معلوم نہیں مگر اِدھر پاکستان میں ہم نے انگریزی کا خاصا حق ادا کیا ہے! نموڑے جی کہتے ہیں کہ انگریزی کو (انتقاماً) ترک کیا جائے۔ ہم نے کام تو اُن کی مرضی ہی کا کیا ہے مگر ترتیب اُلٹ دی ہے۔ انگریزی کو ہم نے انتقاماً اپنا رکھا ہے! دنیا سمجھتی ہے کہ ہم انگریزی پر جان چِھڑکتے ہیں، مرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ انگریزی ہمارے ہاتھوں اَدھ مُوئی سی ہے! بے چاری اپنی بے زبانی کو زبان بناکر پتا نہیں کب سے کہہ رہی ہے ؎
عزیز اِتنا ہی رکھو کہ جی بہل جائے
اب اِس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے!
نموڑے جی کیا جانیں کہ قیام کے بعد سے اب تک پاکستان میں انگریزی سے کس کس طرح کھیلا جاتا رہا ہے۔ دُنیا جس طرح چاہے بولے اور برتے، ہم نے تو انگریزی کو بھی اپنی مرضی کے مطابق اپنایا اور برتا ہے۔ پاکستانی ہر کام اپنی مرضی کے مطابق کرتے ہیں تو پھر بھلا انگریزی کو استثناء کیوں دیتے؟
انگریزوں کی غلامی کے دور کا رونا روتے رہنا بھی ہمارے باقاعدہ اور تسلیم شدہ مشاغل میں شامل ہے۔ ہماری سوچ کا ایک بڑا حصہ اِس نُکتے پر مرکوز رہتا ہے کہ انگریزوں سے انتقام کِس کِس طرح لیا جائے۔ جو لوگ کِسی نہ کِسی طرح برطانیہ پہنچ جاتے ہیں وہ انگریز معاشرے میں تھوڑی بہت خرابی پیدا کرکے اپنے کلیجے کو ٹھنڈک پہنچانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ جو لوگ انگریزوں تک نہ پہنچ پائیں وہ کیا کریں؟ ہم حیران ہیں کہ اِس معاملے میں اِس قدر پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ انگریز نہ سہی، انگریزی تو دسترس میں ہے!
ہمارا اور انگریزی کا معاملہ کچھ یُوں ہے کہ ع
ہم سے تو تم کو ضِد سی پڑی ہے!
یعنی لاکھ سیکھیں مگر کم بخت ''سِکھنے‘‘ میں نہیں آتی۔ ہمیشہ ایک دو آنچ کی کسر رہتے پتیلی چُولھے سے اُتار لی جاتی ہے۔
انگریز بھی اِنسان ہیں اور دوسرے اِنسانوں کی طرح وہ بھی کئی طریقوں سے مَر سکتے ہیں مگر ہمارے ہاں انگریزی کا حال اگر وہ دیکھ لیں تو (اپنے) سَر پیٹ پیٹ کر مَریں! اور اُن کا یہ انجام کیوں نہ ہو؟ ہندوستان پر اُنہوں نے تقریباً دو صدیوں تک حکومت کی مگر مسلمانوں کو انگریزی نہ سِکھا سکے! کیا سُپر پاورز کے یہی اطوار ہوا کرتے ہیں؟ بس، دیکھ لی ہم نے انگریزوں کی قابلیت! پتہ نہیں انگریز اِتنی بڑی سلطنت کِس طرح چلاتے ہوں گے! ثابت ہوا کہ بہت سے بڑے کام تُکّے میں بھی ہو جایا کرتے ہیں!
ہم نے انگریزی کے کئی ''ورژن‘‘ متعارف کرائے ہیں۔ اور تازہ ترین ''میرا ورژن‘‘ ہے! حق تو یہ ہے کہ میرا نے انگریزی کو نیچا دکھانے اور اُس کا تیا پانچا کرنے کے معاملے میں قوم کی امنگوں کا حق ادا کردیا ہے! اگر کچھ مدت تک انگریزی پر مزید ستم نہ ڈھایا جائے تو میرا کا ڈھایا ہوا ستم بھی کافی ہے!
ایک زمانے تک ہمارے ہاں انگریزی اور الجبرا سے طلباء کو فیل کرنے کا کام لیا جاتا رہا۔ پھر یہ ہوا کہ طلباء انتقامی ہتھکنڈوں پر اُتر آئے۔ ہمارے طلباء انگریزی کے پرچوں میں جو کچھ لکھتے آئے ہیں اگر وہ سب جمع کرکے dossier برطانیہ بھیجا جائے تو ہمیں یقین ہے کہ برطانوی حکومت ہر سال خطیر رقم محض اِس مد میں دے گی کہ ہم انگریزی کی جان بخش دیں!
انگریزی میں اہل وطن کا وہ حال کیا ہے کہ اب تو ہم بھی یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اگر یہ زبان ہمارے خلاف انگریزوں کی سازش تھی تو ہم نے بھرپور جواب دیا ہے! سِتم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ ہم نے انگریزی سے انتقام بھی محبت کے پردے میں لیا ہے یعنی بے چاری گِلہ شِکوہ کرنے کے قابل بھی نہیں رہی۔
مزاح پیدا کرنے کا ایک آزمودہ طریقہ یہ ہے کہ انگریزی کو اظہار کا ذریعہ بنایا جائے۔ ایک صاحب پڑھاتے تو کچھ اور تھے مگر انگریزی بولنے کا ہَوکا تھا۔ ایک دن اپنی اہلیہ کے ساتھ فلم دیکھنے گئے۔ سینما ہال میں اُنہیں اپنا ایک اسٹوڈنٹ بھی دِکھائی دیا۔ اگلے دن اُنہوں نے کلاس روم میں اُس اسٹوڈنٹ سے مخاطب ہوکر کہا۔
Yesterday, I saw you in theatre with my wife!
ایک صاحب کِسی کو بتا رہے تھے۔ ''میری بیوی کو انٹ شنٹ چیزیں خریدنے کا شوق ہے۔ جب دیکھو، نئے فیشن کے لباس خریدنے کی دُھن اُس کے سر پر سوار رہتی ہے۔ جب دیکھو، فرمائش کرتی رہتی ہے کہ حیدری مارکیٹ لے جاؤ، پاپوش مارکیٹ لے جاؤ۔ مگر میں تو کبھی اپنی بیوی کو ''مارکیٹنگ‘‘ کے لیے نہیں لے جاتا!‘‘
انگریزی کے بعض الفاظ کی صوتی مماثلت قیامت ڈھاتی ہے۔ مثلاً
مجھ کو رو رو کے بتایا ایک جگری یار نے
میری اُردو میڈیم بیوی کو انگلش کھا گئی
مانگ بیٹھا ''سُوپ‘‘ تو صابن مجھے پکڑا دیا
''بیڈ ٹی‘‘ مانگی تو گندی چائے لے کر آگئی!
کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں کہ انگریزی کا دم غنیمت ہے کہ اِس کی بدولت ہم کبھی کبھی تھوڑے بہت شرمسار تو ہو لیتے ہیں ورنہ اب کسی اور معاملے میں اِتنا جگرا نہیں رہا کہ ہمیں آئینہ دکھا سکے، شرمندہ کرسکے۔