تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     15-02-2015

بہار کے امکاں

گزشتہ چند روز میں برصغیر پرچھائے جمود کی چادرمیں تیزرفتاری سے ہلچل پیدا ہوئی اور اس کے اندر سے جو حقائق جھلکے‘ وہ پورے خطے کے لئے اطمینان اور امیدوں سے بھرپور ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے اعلیٰ حکام کے درمیان رابطے تو اب روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں‘ لیکن بھارت کے نئے وزیراعظم نریندرمودی کے اقتدار سنبھالتے ہی ‘ جو مذاکرات جاری تھے‘ انہیں بھی بند کر دیا گیا۔ جو اچھی امیدیں وزیراعظم پاکستان کے بھارتی دورے سے پیدا ہوئی تھیں‘ اس وقت اچانک ماند پڑ گئیں‘ جب بھارتی حکومت نے یکطرفہ طور پر خارجہ سیکرٹریوں کی طے شدہ ملاقات کا پروگرام منسوخ کر دیا۔ بھارتی وزیروں نے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لئے‘ ایسی ایسی کڑی شرائط پیش کرنا شروع کر دیں ‘ جن کا واضح مطلب یہ تھا کہ دوطرفہ رابطے اب جلد شروع نہیں ہو سکیں گے‘ لیکن تہہ کے نیچے جو سرگرمیاں جاری تھیں‘ وہ ہماری نظروں کے سامنے نہیں آئیں۔ حقیقت میں خطے کے سارے قابل ذکر ملکوں اور سپرپاورز کے درمیان‘سمجھوتوں کے منصوبے تیار ہو رہے تھے۔ آپ کو یاد ہو گا ‘ کافی عرصہ پہلے پاکستان اور ترکمانستان کے مابین ‘ گیس پائپ لائن کا ایک منصوبہ خبروں میں آیا تھا‘ لیکن اس وقت افغانستان کے حالات غیریقینی تھے اور حامد کرزئی کے ہوتے ہوئے‘ پاکستان کے ساتھ تعاون کا کوئی معاہدہ عملی شکل اختیار نہیں کر سکتا تھا؛ تاہم راڈاروں کے نیچے گہری نظر رکھنے والوں کو تیزرفتار نقل و حرکت دکھائی دے رہی تھی‘ جس کی خبریں گزشتہ چند روز میں ''تاپی‘‘ کے عنوان سے سامنے آئیں۔ یہ ترکیب چار ملکوں کے ناموں سے لئے گئے پہلے حروف پر مشتمل ہے۔ یہ چاروں ملک ہیں‘ ترکمانستان‘ افغانستان‘ پاکستان اور حیرت میں مزید اضافے کے لئے‘ انڈیا۔ کافی دنوں سے اس گیس پائپ لائن کا ذکر دوبارہ سننے میں نہیں آیا تھا‘ جبکہ قطر کے ساتھ معاہدوں کی خبریں نمایاں ہوتی گئیں اور دوطرفہ مذاکرات کے دور بھی جاری رہے۔ اس دوران وزیراعظم کے ایک گمشدہ پرانے ساتھی‘ سیف الرحمن اچانک منظرعام پر آئے اور پتہ چلا کہ گیس کی ڈیلز میں وہ اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان کی درمیان داری کی وجہ‘ اس وقت سمجھ میں آئی‘ جب پتہ چلا کہ جس گیس کے سودے دنیا کے 18ملکوں میں 6 اور 7ڈالر کے درمیان ہو رہے ہیں‘ اسی مقدار کی گیس پاکستان کو 12ڈالرمیں بیچی جائے گی۔ یہ خبر جب پاکستانی میڈیا میں آئی‘ تو چند ہی روز کے بعد‘ ایک چھوٹی سی خبر منظر عام پر آ گئی کہ پاکستان‘ قطر کے علاوہ دیگر کئی دوسرے ملکوں سے بھی گیس کے سودے کر رہا ہے۔ شایدیہ دگنی قیمت پر گیس کی خریداری کے سکینڈل پر پردہ ڈالنے کی کوشش تھی یا آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے یہ خبر چھپوائی گئی۔
اگر ''تاپی‘‘ کا منصوبہ زیرعمل آتا ہے‘ تو اس میں چار سے بھی زیادہ ملک ملوث ہو جاتے ہیں اور اتنی بڑی ڈیل میں دھاندلی چھپانا مشکل ہو جائے گا۔ اصل منصوبہ یہ ہے کہ آگے چل کر چین بھی اس منصوبے کا حصہ بن جائے گا۔ چند ہی روز پہلے بھارتی وزیر‘ دھرمیندر پردھان پاکستان آئے۔ انہوں نے بیان دیا تھا کہ پاک بھارت تعلقات میں خوشگوار تبدیلی آ رہی ہے۔ مزیدپتہ چلا کہ امریکہ بھی‘ اس عظیم منصوبے میں حصے دار ہے۔ امریکہ کی ملٹی نیشنل تیل کمپنیاں‘ اس میگا پروجیکٹ میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ امریکہ اور جاپان بھی‘ اس پروجیکٹ میں حصے دار بننا چاہتے ہیں۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے پریذیڈنٹ کچھ دن پہلے دہلی آ کر بھارتی وزیراعظم سے ملاقات کر چکے ہیں۔یہ استحکام امن کی ایک نئی ٹریڈ گیم ہے‘ جس میں تیزرفتاری سے پیش قدمی ہو رہی ہے۔ اب اگر آپ اس گریٹ گیم کی نشانیاں دیکھنا چاہیں‘ تو آپ کو یاد آئے گا کہ ''تاپی‘‘ کے توانائی کے وزرا‘ اسلام آباد آئے تھے اور وزیراعظم نوازشریف کی صدارت میں ایک اہم اجلاس ہوا تھا۔ ان کے بعد چین کے وزیرخارجہ‘ پاکستان تشریف لائے اور اسی دوران امریکی صدر بارک اوباما نے‘ وزیراعظم پاکستان نوازشریف کو خصوصی ٹیلی فون کیا اور نصف گھنٹے تک ان سے بات چیت کرتے رہے۔ اگلے ہی دن بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا فون آ گیا۔ بظاہر تو انہوں نے وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ‘ کرکٹ کے ورلڈ کپ کے حوالے سے بات کی‘ لیکن اصل بات وہ ہے‘ جس میں نوازشریف نے بھارت کے خارجہ سیکرٹری کے منسوخ شدہ دورے کی بات چھیڑی۔ مودی صاحب نے فوراً ہی جواب دیا کہ وہ انہیں پاکستان بھیج رہے ہیں۔ اس کا واضح مطلب‘ معطل شدہ مذاکرات کی بحالی ہے۔ تھوڑی سی توجہ دینے پر کسی بڑی تبدیلی کی جھلکیاں ابھرنے لگتی ہیں‘ جو اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک بہت بڑا منصوبہ تشکیل پا رہا ہے۔
امریکہ نے تیل میں خودکفیل ہونے کے بعد‘ روس کو خاموشی سے جھٹکا دینے کی کوشش کی۔ یہ اسی کوشش کا نتیجہ ہے کہ شرق اوسط کا تیل‘ دیکھتے ہی دیکھتے قریباً ایک تہائی قیمت پر آ گیا۔ سعودی عرب کے پاس‘ تیل کے ذخیرے اتنے ہیں کہ تیل کی قیمت کئی ماہ تک بھی اسی سطح پر رہی‘ تو اس کی مالی حالت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اسی طرح چھوٹے عرب ملک بھی آمدنی میں کمی کا دھچکا برداشت کر لیں گے۔ عراقی تیل کی برآمدات وہاں کے موجودہ حالات کی روشنی میں جاری رکھنا مشکل ہو گا۔ تیل کی ارزانی کا سب سے بڑا نقصان روس اور ایران کو ہو رہا ہے۔ ان دونوں ملکوں کے امریکہ سے تعلقات خوشگوار نہیں۔ یقینی طور پر امریکہ تیل کی ارزانی کا ہتھیار‘ روس اور ایران کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ میں نہیں جانتا قطر کے ساتھ ہونے والے سودوں کا کیا بنے گا؟ لیکن ''تاپی‘‘ کی ڈیل ہو گئی‘ تویہ منصوبہ کئی ملکوں کی ضروریات پوری کرے
گا اور خطے کی سٹریٹجک صورتحال کا نقشہ بھی بدل جائے گا۔ میں تو یہ بھی کہوں گا کہ مقبوضہ کشمیر کی سیاسی صورتحال بھی‘ اسی بڑے منصوبے کے اثرات میں سے ایک ہے۔ ان دنوں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ چین کے معاملات طے ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے فوجی ترجمان نے گزشتہ روز‘ بھارت کو سرحدی خلاف ورزیوں پر جو وارننگ دی‘ یقینی طور پر اس سے بھی عالمی طاقتوں کے کان کھڑے ہوئے ہوں گے۔ میں چند ہی روز پہلے‘ ایک کالم میں یہ خبر دے چکا ہوں کہ پاکستان کا ایٹمی اسلحہ اب روایتی نہیں رہ گیا۔ پاکستان نے ایٹمی ہتھیاروں کو اتنا موثر اور مختصر کر دیا ہے کہ اب انہیں گرانے کے لئے بڑے بڑے طیاروں کی ضرورت نہیں رہ گئی۔ فضائی جنگ شروع کئے بغیر بھی ایٹمی اسلحہ استعمال ہو سکے گا۔ یہ وہ صورتحال ہے‘ جس کا حقیقت میں بدلنا‘ ساری دنیا کے لئے تشویشناک ہے۔ میں نے نریندر مودی کے ٹیلی فون سے پہلے ہی‘ ایک کالم میں عرض کیا تھا کہ اب ان دونوں ملکوں کو امن مذاکرات کی طرف آنا ہی پڑے گا۔ مذاکرات میں تعطل خطرناک ہو گا۔ میرا اندازہ درست نکلا۔ پاکستان اور بھارت میں جو مذاکرات اب شروع ہونے جا رہے ہیں‘ یہ نئی سٹریٹجک صورتحال کا نتیجہ ہیں اور اب دونوں ملکوں کی سلامتی اور بقا اسی میں ہے کہ نہ صرف امن مذاکرات کو مستقل ادارے کی شکل دے کر جاری رکھا جائے بلکہ تنازعات کو منجمد یا حل کرکے‘ باہمی تعلقات کو معمول پر لایا جائے۔ مقبوضہ کشمیر سے خبریں آ رہی ہیں کہ وہاں انتخابات میں کامیاب ہونے والی دونوں بڑی جماعتیں پی ڈی پی اور بی جے پی مخلوط حکومت بنانے کے قریب آ چکی ہیں اور دہلی میں بی جے پی کو جھٹکا لگنے کے بعد‘ وہ اب وزارت اعلیٰ کے مطالبے سے دستبردار ہو گئی ہے۔ سب سے زیادہ نشستیں رکھنے والی جماعت کی طرف سے مفتی سعید وزیراعلیٰ ہوں گے اور دوسری بڑی جماعت کی حیثیت میں بی جے پی کا رہنما ڈپٹی چیف منسٹر بنے گا۔ پاکستان اور بھارت کی معیشتوں کو ترقی اور استحکام دینے کے لئے ہمیں امن کے طویل وقفے کی ضرورت ہے۔ فی الحال ممکنہ حل یہی دکھائی دیتا ہے کہ باہمی تنازعات کو دس پندرہ برسوں کے لئے منجمد کر کے‘ موجودہ صورتحال کو برقرار رکھتے ہوئے‘ اس میں بہتری کے طریقے اختیار کئے جائیں۔ پاکستان اور بھارت کے مذاکرات آگے بڑھے‘ تو چین اور بھارت کے تعلقات میں بھی گہرائی آ جائے گی۔ اگر ان ملکوں کے تعلقات کو‘ آپس کے اقتصادی تعاون سے مربوط کر دیا جائے‘ تو خطے کے سارے ملکوں میں ترقی وخوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہو جائے گا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی ‘ امن کی طاقتوں کو تقویت ملے گی۔ ہم سب دہشت گردی کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ بھارت‘ چین‘ افغانستان‘ پاکستان اور وسطی ایشیا کے ممالک ‘ سب کے معاشروں میں‘ انتہاپسندی اور دہشت گردی کی جڑیں پھیل رہی ہیں۔ ہم سب اپنے وسائل یکجا کر لیں‘ تو دہشت گردوں کا جلد خاتمہ ممکن ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved