تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     16-02-2015

کب ٹھہرے گا درد اے دل، کب رات بسر ہوگی ؟

انسانی ریاضت کا بڑا حصہ برباد ہو جاتاہے ۔ اپنی نہیں، دوسروں کی خامیوں پر ہم سوچتے رہتے ہیں ۔ میڈیا کاحال بھی وہی ہے ، جو سرکارکا ۔
کب ٹھہرے گا درد اے دل، کب رات بسر ہو گی؟
کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز کے اجلاس میں میڈیا پر اٹھائے گئے ، وزیرِ اعظم کے بعض اعتراض روا بھی تھے ۔ غیر مصدقہ خبریں او رذاتی رنج کا اظہار۔ اخبار نویسوں کو غور کرنا چاہیے۔ یہ کوئی جواز نہیں کہ دوسرے ناقص اور غیر ذمہ دار ہیں ۔
تاہم یہ خیال پریشان کرتا رہا کہ کیا کسی ایک شعبے کی اصلاح ممکن ہے ، جب کہ دوسروں میں بگاڑ کارفرما رہے ۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ زوال ہمہ جہتی ہوا کرتا ہے اور ارتقا بھی ۔ قومیں جاگ اٹھتی ہیں تو اصلاح کا عزم کر لیتی ہیں ۔ مایوسی کا شکار ہوں تو مصالحت ۔ اغماض برتتی ہیں اور نشیب کا سفر جاری رہتاہے ۔ رفعتوں کا پیمان مشکل ہوتاہے ۔ ڈھلوان پر لڑھکنے کے لیے بس خود کو حالات کے حوالے کرنا ہوتاہے ۔
وزیرِ اعظم نے ارشاد کیا کہ وہ آزادیٔ اظہار کے مخالف نہیں بلکہ اس پر شاد ہیں ۔ سادہ ساسوال یہ ہے کہ پہلی اور دوسری بار جب وہ وزیرِ اعظم تھے تو واحد ٹی وی چینل پر اپوزیشن کی خبریں نشر کرنے پر پابندی کیوں تھی؟مورخ یہ لکھے گا کہ پاکستان کے آزاد ٹی وی چینل ایک فوجی آمر کی عنایت ہیں ۔کیا اس خیال سے کسی کا دل نہیں دکھتا؟ پھر یہ کہ سرکار کے حامی اخبا رنویسوں پہ عنایات کیوںہیں ؟ پرکشش ملازمتیں انہی کو دی جاتی ہیں ۔ تخلیقی صلاحیت کیا سرکار کے سائے میں پروان چڑھتی ہے ؟ سی پی این ای کے
صدر نے ان دو اخبار نویسوں کا اعزازیہ پانچ لاکھ سے بڑھا کر دس لاکھ کرنے کا مطالبہ کیا،23 مارچ کو جنہیں تمغۂ حسنِ کارکردگی دیا جائے گا۔ اس ناچیز پر دونوں کی عنایات ہیں ۔ ایک کی تو بے حد۔ اس کے باوجود، اللہ جانتاہے کہ خاکسار کو ہرگز کوئی اعتراض نہیں ۔ کم از کم ڈھنگ کی عبارت تو وہ لکھ سکتے ہیں وگرنہ یہ ''اعزاز‘‘ ایسے ایسوں کو ملا کہ لوگ سر پکڑ کر بیٹھ گئے ۔ سرکار سے سوال البتہ یہ ہے کہ کیا پیشہ ورانہ اہلیت اور کردار کی بنیاد پر ان کی تحسین کا فیصلہ کیا گیا یا اس لیے کہ وہ حکومت کے حامی ہیں ؟ کیا ذاتی تعلق کے طفیل یہ مطالبہ نہیں کیاگیا؟ یہ ایک موزوں پلیٹ فارم بہرحال نہ تھا۔
دھرنے کو کس لیے موضوع بنایا گیا؟ کیا یہ ایک سیاسی مذاکرہ تھا؟ دھرنے کی ہم نے بھی مخالفت کی تھی ۔ علّامہ طاہر القادری کو ایک پوری تقریر فقط اس کے ایک نکتے کی وضاحت میں کرنا پڑی۔ ایسے ایک سٹیج سے یک طرفہ سیاسی موقف کا کیا جواز ، سیاست سے براہِ راست جس کا تعلق ہی نہیں ۔
خود کو میں سمجھانے کی کوشش کرتا رہا کہ دنیا ہمیشہ ایسی ہی تھی ۔ جنیدِ بغدادؒ نے کہا تھا: ازل سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ بستیوں میں کچھ حاجت مند ہو اکرتے ہیں ۔ کچھ انعام یا سزا کے طور پر مقرر کئے گئے حاجت روا۔ بعد ازاں ملال گہرا ہوتا گیا ۔ آزاد اخبار نویسوں کی طرف سے سرکار کودفتر کے لیے ایک قطعۂ زمین کی التجا کیاموزوں اقدام تھا؟ ماسوا یہ کہ موزوں الفاظ منتخب نہ کیے گئے ۔ کہا گیا کہ حکومتِ پاکستان عنایت کرے توشکریے کے ساتھ قبول کر لی جائے گی ۔ سرکار کی شکر گزاری اور آزاد صحافت؟ میاں صاحب کو مذاق اڑانے کا موقع ملا اور خوب انہوں نے فائدہ اٹھایا۔ کیا یہ دلیل موزوں نہ ہوتی کہ وفاقی کردار رکھنے والے ا س ادارے کا مرکزی حکومت سے رابطہ یوں زیادہ سہل ہوگا۔ خیر یہ تو حسنِ بیان کی بات ہے...اورع
''فصاحت‘‘ نام تھا جس کا‘ گئی تیمور کے گھر سے
سیاست کا حوالہ دینا ہی تھا تو بڑے تناظر میں بات کی ہوتی ۔ دستور توڑنے والوں کی انہوں نے مذمت کی اور بجا طور پہ مگر اس پہلو کو نظر انداز کر دیا کہ سول اقتدار کی قوت عوامی تائید اورمضبوط سول اداروں میں ہوتی ہے ۔ ہر چیز پہ بات ہوتی ہے مگر اس پر نہیں کہ جب تک سول ادارے مضبوط نہ ہوں، عوامی بہبودکی سرکاری کاوش بھی غارت ہو جاتی ہے ۔ پولیس اگر با صلاحیت اور انصاف پسند نہیں، اس میں چنائو ، تقرر اور ترقی اگر کسی نظام کے تحت نہ ہو ۔ عدالتیں اگر انصاف فراہم نہ کر یں ۔پھر یہ کہ حکومت کو پروا ہی نہ ہو ۔ صرف مجبور ملازم ہی ٹیکس ادا کریں اور دسیوں لاکھ ایسے ہوں ،دھڑلے سے جو سرکار اور عوام کا حق ڈکار جاتے ہوں ۔ سول سروس اگر حکمرانوں کی باندی ہو ۔بے کسوں کی داد رسی کرنے والا اگر کوئی نہ ہو تو ملک کو استحکام اور قرار نصیب کیسے ہو گا؟ پورا ایک برس بیت گیا ، کاشتکار عذاب میں ہیں ۔ چاول بونے والے لٹ گئے ۔ کپاس ایک تہائی کم قیمت پر بکی ۔گنے کا کاشتکار چیخ رہا ہے اور سننے والا کوئی نہیں ۔ آلو اگانے والوں کے گھر برباد ہوتے نظر آتے ہیں ۔ کوئی سنتا ہی نہیں ۔
امیر المومنین ہارون الرشید نے یہ کہا: دل بے قرار بہت ہے۔ ملکہ زبیدہ نے جواب دیا: خزانہ لبالب اور خدا کی مخلوق ایک ایک لقمے کو ترستی رہے تو قلب کو کشادگی کیسے عطا ہو گی؟
وزیرِ اعظم نے فرمایا: اخبار نویسوں میں ایسے ہیں ، دستور پامال کرنے والے کے جو گیت گاتے رہے۔ لطیفہ یہ ہے کہ ایسے لوگ خود وزیرِ اعظم کی پناہ میں ہیں ۔ راحیلہ مگسی کا تعلق کس خاندان سے ہے ۔ کیا پاکستان کا سابق چیف مار شل لا ایڈمنسٹریٹر ان کے محلّات میں ایک کے بعد دوسری ضیافت نہ اڑاتا رہا۔ کیا منتخب وزیرِ اعظم بھی اس خاندان پر اتنے ہی مہربان نہیں ؟ محترمہ بے نظیر بھٹو کو ایک قیمتی مکان انہی لوگوں نے اسلام آباد میں عطیہ کیا تھا۔ہر قہرمان پہ وہ مہربان اور ہر لاچار کے درپے ۔
2008ء کا الیکشن سر پہ تھا۔ چوہدری نثار علی خان کو ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرنا تھا۔ شہر میں گاڑی داخل ہوئی تو بے ہنگم ٹریفک میں پھنس گئی۔ دیر تک پھنسی رہی ۔ عرض کیا: ملک کے ہر شہر اور قصبے کو رنگ روڈ میسر ہے مگر اسلام آباد اور راولپنڈی کو نہیں ۔ پختون خوا اور کشمیر جانے والی سب گاڑیاں ، سارے ٹرک اور ٹریلر ، جڑواں شہروں سے گزرتے ہیں ۔ ہر سال کم از کم ایک ارب کا نقصان ۔ سات برس بیت چکے ۔ راولپنڈی کے ایک شہری نے و زیرِ اعظم کو متوجہ کیا مگر جواب دینے کی زحمت آپ نے گوارا نہ فرمائی ۔
ایک دوسرا سوال یہ تھا : بہاولپور کو صوبہ بنانے کا وعدہ آپ کے منشور کا حصہ ہے ۔ پنجاب اسمبلی ایک متفقہ قرار داد بھی اس سلسلے میں منظور کر چکی ۔ اب آپ اقدام کیوں نہیں کرتے؟ جواب میں خاموشی اور مکمل خاموشی !کیا ایک منتخب عوامی حکمران کو یہ زیبا ہے ؟
وزیرِ اعظم نے اپیل کی :دو برس تک میڈیا دہشت گردوں کے خلاف بھرپور تعاون کرے ۔ بالکل بجا، بالکل برحق۔ افسوس کہ بعض اخبار نویسوں نے غلط توجیہ کی اور نکتہ چینی فرماتے رہے ۔ کیااس میں کوئی شبہ ہے کہ ہر المناک حادثے کے بعد بعض کالم نویس ، تجزیہ نگار اور ٹی وی میزبان مایوسی کے سیاہ علم لہرا تے ہیں ۔ اس حال میں کہ حکومت اب یکسو ہے اور عساکر نے بے مثال قربانی دی ، وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ امید زندگی ہے اور قنوطیت موت ۔
زیاں بہت ہے ، خدا کی زمین پر زیاں بہت ۔ انسانی ریاضت کا بڑا حصہ برباد ہو جاتاہے ۔ اپنی نہیں ، دوسروں کی خامیوںپر ہم سوچتے رہتے ہیں ۔ میڈیا کاحال بھی وہی ہے ، جو سرکارکا ۔
کب ٹھہرے گا درد اے دل، کب رات بسر ہوگی؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved