اگرکوئی بیوروکریٹ نہیں تو اس پر آشکار ہے کہ پاکستان کی سول سروس یہاں کے حالات میں غیر متعلق ہوچکی ہے۔ واقعات پر اس کا کنٹرول، ردعمل کی صلاحیت اور حکومتی پالیسیاں نافذ کرنے کی اس کی صلاحیت اتنی کمزور پڑچکی ہے کہ اس میں بنیادی اصلاحات کے بغیر آگے بڑھنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ یوں تواس کے زوال کے اسباب کے ذیل میں بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے لیکن بنیادی وجہ معاشرے میں آنے والی تبدیلیوں کونہ سمجھ پاناہے۔ آزاد میڈیا، انٹرنیٹ ، نجی تجارت وصنعت کے فروغ اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے تجربات نے پاکستانی معاشرے اورریاست کے باہمی تعلق کو مکمل طور پر بدل کررکھ دیا ہے۔ عام آدمی ان بدلے ہوئے حالات میں ناممکن کا لفظ سننے کے لیے تیار نہیں، وہ ریاستی مشینری سے اس عمرانی معاہدے کو پورا کرنے کا مطالبہ کررہا ہے جو اس سے پاکستان بناتے ہوئے کیاگیا تھا اور1973ء کے دستور میں اسے باقاعدہ تحریری شکل دے دی گئی۔ اس معاہدے کے تحت عام آدمی کو عزت ملنی تھی، اسے روزگار کے مساوی مواقع میسر آنے تھے، اس کا معیار زندگی بہتر ہونا تھا اور ریاست کو فلاحی بننا تھا۔ جب یہ معاہدہ ہماری ریاستی مشینری کے ہاتھ لگا تو اس پر عمل درآمد کے بعد جو صورت بنی وہ یہ تھی کہ عزت صرف پیسے والے کا حق ہے، روزگار صرف انگریزی جاننے والے کو ملے گا، بہتر معیار زندگی کے حصول میں ایمانداری ایک رکاوٹ ہے اور ریاست صرف طبقۂ اشرافیہ کے مفادات کے تحفظ کا سرانجام دے گی۔ خوش کن خوابوں کی یہ بھیانک تعبیر سامنے آئی تو پاکستان بنانے والوں کی تیسری نسل بغاوت پر اتر آئی۔ معاشرے میں ایسا ہیجان پیدا ہوگیا کہ ریاست کا ہر ادارہ اس کے مقابلے میں دم دبا کر راہ ِ فرار اختیار
کرگیا۔ صرف سیاستدان ہیں جو اس طوفان کے مقابلے میں نہ صرف کھڑے ہیں بلکہ اس کا رخ تعمیر ی سرگرمیوں کی طرف موڑنے کی کوششوں میں بھی لگے ہیں۔ مصیبت یہ ہے کہ اوپرکی سطح پر سیاستدانوں کی اس محنت کے نتائج نیچے تک پہنچانے کا نظام دم توڑ چکا ہے۔ اسلام آباد، لاہور، کراچی ، کوئٹہ اور پشاور میں ہونے والے عوام دوست فیصلے جب بیوروکریسی کے ہاتھ چڑھتے ہیں تو ان کی شکل ہی تبدیل ہوجاتی ہے۔ اوپر سے تیل کی قیمت کم کرنے کا فیصلہ ہوتا ہے تو نیچے کی سطح پر تیل کا بحران جنم لے لیتا ہے، اوپر والے دہشت گردی کے خلاف قانون بناتے ہیں تو نیچے والے رشوت یا خوف کی وجہ سے اس پر عمل درآمد سے گریزاں رہتے ہیں۔ اوپر بھاری وسائل تعلیم اور صحت کے لیے مختص کیے جاتے ہیں اور نیچے یہ سب کچھ بد انتظامی و بدعنوانی کی نذرہوجاتا ہے۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ پاکستان مسلم لیگ (ن )اور تحریک انصاف دونوں اپنے اپنے صوبوں میں گڈ گورننس کے لیے سرتوڑکوششیں کررہی ہیں لیکن ان کوششوں کے ثمرات ہیں کہ نیچے تک آکر ہی نہیں دے رہے۔ شاید اسی لیے وزیر اعظم نے بیوروکریسی میں اصلاحات کا فیصلہ کیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ اس حوالے سے کام کرنے والی کمیٹی کے کام کا جائزہ وہ ہر ماہ خود لیں گے۔ بہت خوب، لیکن سوال یہ ہے کہ اصلاحات کیا ہوںگی؟ سرکاری ملازموں کو مزید طاقتور بنانا مقصود ہے یا اسے استعماری سوچ سے نکال کر خدمت کی طرف لگانا ہے؟ ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ملک کو آگے
بڑھانے کے لیے لوگوں کو قابو میں رکھنے والی نو آبادیاتی سول سروس کی بجائے لوگوں کی خدمت کرنے والی سول سروس کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم کا خلوص اپنی جگہ لیکن جب وہ کہتے ہیں کہ بیوروکریسی کو بین الاقوامی معیار پرلانے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں تو شک گزرتا ہے کہ ان کے اردگرد ایسے لوگ موجود ہیں جو انہیں راہ ِ راست تک نہیں پہنچنے دیںگے۔ اب انہیںکون سمجھائے کہ ہمیں بین الاقوامی معیار نہیں اپنی قومی ترجیحات کو مد نظر رکھنا ہے۔ اصلاحات کے نام پرکوئی نیاگندگھولنا ہے تو جو چاہیں فرما لیں اورکرلیںلیکن عوام تک بہتر حکومت کے ثمرات پہنچانے ہیں تو اس کے لیے تین تجاویزعرض ہیں۔
پہلے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ تنہا بیوروکریسی کے ذریعے عام آدمی کی زندگی بہتر بنانے کا تصورگزشتہ تین سو سال سے متروک ہوچکا ہے۔ دنیا بھر میں نچلی ترین سطح پر بھی کوئی معاملہ صرف سول سروس کے سپرد نہیں کیا جاتا بلکہ بلدیاتی اداروں کے ذریعے اس سے کام لیا جاتا ہے۔ بلدیاتی ادارے افسروںکی کارکردگی کتنی بڑھا دیتے ہیں اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ سندھ جیسے صوبے میں جب ضلعی نظام وجودمیں آیا تو وہاں ہر قسم کی نااہلی کے باوجود ترقیاتی رقوم کا استعمال تیس فیصد سے بڑھ کر نوے فیصد تک چلاگیا۔ وہ صوبہ جہاں گورننس اپنی بد ترین صورت میں نظر آتی ہے اس نظام کے پہلے سال میں ہی عوام کی توقعات پوری کرنے کی راہ پر چل پڑا۔ اس لیے ہمارے وزیر اعظم کی سربراہی میں کام کرنے والی کمیٹی واقعی بیوروکریسی کوکام کی طرف مائل کرنا چاہتی ہے تو بلدیاتی اداروںکا قیام اس کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ سول سروس کو عوامی نمائندوں کے سامنے جوابدہ کیے بغیراصلاح کی ہرصلاح ادھوری اور نقصان دہ ہوگی، فائدہ مند ہرگز نہیں۔
دوسرے یہ کہ ہمارے ملک میں سرکاری افسروں کی بھرتی کے لیے ہونے والا مقابلے کا امتحان محض انگریزی زبان کا امتحان بن کر رہ گیا ہے۔ یہ ہماری توہین نہیں تو اورکیا ہے کہ اس نظام کے تحت ایک ایسا شخص بھی اعلیٰ افسر بن سکتا ہے جسے اردو یا دیگر علاقائی زبانوںکا ایک لفظ بھی نہ آتا ہو۔کالے انگریزوں اورانگریزی نے ہماری سول سروس کو یوں جکڑ رکھا ہے کہ اس میں داخلے کے خواہشمند نوجوان اس میں آنے سے پہلے ہی پاکستانی امنگوں اور عوامی ترجیحات سے بیگانہ ہوچکے ہوتے ہیں۔ انگریزی نے اس امتحان کو اتنا غلیظ بنا دیا ہے کہ یورپ یا امریکہ کی نامعلوم یونیورسٹی سے آنے والا نالائق تو اسے پاس کرلیتا ہے لیکن ہمارے دینی مدارس کے لائق ترین نوجوان صرف انگریزی کی پخ کی وجہ سے فیل کردیے جاتے ہیں۔ اپنی سول سروس کو اپنا بنانے کے لیے ہمیں ان امتحانات کو اردو (یا علاقائی زبانوں) میںکرنا ہوگا اور ان لوگوں پر پابندی لگانا ہوگی جو بیرون ملک سے مشکوک تعلیمی اسناد کی بنیاد پر اس اہم ترین سروس میں داخل ہوجاتے ہیں۔ جب صرف پاکستان کے تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل نوجوان اردومیں لیے گئے امتحانات میں کامیاب ہوکر سول سروس میں آئیں گے توازخود اس سروس کا نوآبادیاتی مزاج تبدیل ہوجائے گا اور یہ لوگ عوام کوقابو رکھنے کی بجائے ان کی خدمت کرکے دل جیتنے پر توجہ دیںگے۔
تیسرے یہ کہ مقابلے کے ایک ہی امتحان میں کامیاب ہونے والے امیدواروںکو ان کے حاصل کردہ نمبروں کی بنیاد پر محکموں کی ایلوکیشن کا طریق کار بھی تبدیل ہونا چاہیے۔ یہ عجیب منطق ہے کہ 780 نمبر لینے والا ڈی ایم جی میں چلا جائے، 779 والا فارن سروس میں جائے ، 788 والا پولیس میں ہو، 787 والا انکم ٹیکس میں اور 786 والا ریلوے میں۔ غیر ملکی زبان میں لیے گئے ایک مشکوک امتحانی نظام سے گزارکر ایک آدھ نمبرکے فرق سے کسی کو بہترین اورکسی کو بدترین بنا دیناکہاں کا انصاف ہے؟ اس غیر منطقی تقسیم کو ختم کرنے کے لیے ہمیں ''ایک محکمہ ایک امتحان‘‘ کی طرف جانا ہوگا۔ یعنی ڈی ایم جی میں جانے کے خواہشمندوں کے لیے الگ امتحان ہو اور محکمہ ڈاک میں جانے والے تھوڑے فرق کے ساتھ الگ امتحان دیں۔ اس کے علاوہ ڈی ایم جی کو صرف ضلعی انتظامیہ تک ہی محدود رکھا جائے نہ کہ سفارت کاری سے لے کر ڈپٹی کمشنری تک سب کچھ ان پر حلال ہو۔ اعلیٰ ترین عہدوں یعنی وفاقی سیکرٹری وغیر ہ کی سطح پر تقرر کرتے ہوئے متعلقہ شعبے میں مہارت کو ہی ترجیح ملنی چاہیے نہ کہ ادھر ادھر سے افسر پکڑ کا ان حساس اسامیوں پر لگا ئے جائیں۔