ہمارے ٹی وی چینلز پروہ منظربار بار دکھا کر‘ اس کا مضحکہ اڑایا گیا‘ جس میں بھارتی کھلاڑی بھاگتے ہوئے ‘ڈیڑھ فٹ اونچے سٹول پر چڑھ کے گیند کرا رہے تھے۔ پُرجوش پاکستانیوں نے یہ منظردیکھ کر بہت لطف اٹھایا اور شاید سوچا کہ بھارتیوں پر عرفان کا خوف طاری ہے اور وہ اس سے بچنے کی پریکٹس کر رہے ہیں۔ اصل میں وہ بچنے کی پریکٹس نہیں کر رہے تھے۔ عرفان کی پٹائی کے لئے تیاری کر رہے تھے۔ اس پریکٹس کا انہوں نے جو فائدہ اٹھایا‘ وہ 15فروری کو ساری دنیا نے دیکھ لیا۔ بھارتی بلے باز‘یہ پریکٹس کر رہے تھے کہ عرفان کی گیند کتنی اونچائی سے آکر ٹپّہ کھانے کے بعد‘ کتنا بائونس کرتی ہے؟ بھارتی کھلاڑیوں نے اس پریکٹس کا خوب فائدہ اٹھایا، خصوصاً ویرات کوہلی نے۔عام تیز بولر کی گیند‘ بائونس کر کے کمر تک آتی ہے اور بلے باز اسی اونچائی سے بیٹ لا کر‘ اسے کھیلتا ہے۔ اب یہ میچ دوبارہ کہیں چلے‘ تو غور سے دیکھئے گا کہ دوسرے تیز بولرز کو ویرات نے بلا کتنی اونچائی تک لے جا کر کھیلا اور عرفان کو کتنی اونچائی سے؟ صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ‘ عرفان کی گیند پر‘ اپنا بلا کندھے کی اونچائی تک لے جا کر‘ گیند کے اوپر سے اسے دبا کر‘شاٹس بنا رہا تھا۔ ایسے ہر شاٹ پر اس نے رنز بنائے اور کئی چوکے بھی لگائے۔سٹول پر چڑھ کر بولنگ کی پریکٹس کا ہم لوگوں نے مذاق اڑایا‘ اگلے روز ہمارا اپنا مذاق اڑ گیا۔ بھارتی‘ عرفان کو کھیلنے کا ایسا طریقہ ایجاد کر کے آئے تھے کہ وہ میچ والے دن ایک بھی وکٹ نہ لے سکا۔ جن ٹیموں کو اپنا کھیل پیشہ ورانہ انداز میں کھیلنا ہوتا ہے‘ ان کے کھلاڑی اپنی ساری توجہ صرف ''کام‘‘ پر مرکوز رکھتے ہیں۔
جس شام ہمارے کھلاڑی پانچ چھ کی ٹولی بنا کر‘ شہر کی گلیوں میں گھومتے پکڑے گئے اور 300آسٹریلوی ڈالرز کا جرمانہ بھر کے آئے‘ اس وقت بھارتی کھلاڑی‘ سٹول پر چڑھ کر گیندپھینک رہے تھے تاکہ بیٹسمین‘ عرفان کی گیندوں کا توڑ تیار کر سکیں۔ وہ ایسا کرنے میں کامیاب رہے اور ہمارے کھلاڑی دورے کے اصل مقصد‘ یعنی تفریح سے لطف اندوز ہونے میں کامیاب رہے۔جس نے جو چاہا‘ وہ کر لیا۔وہ جیتنے کی تیاری کر کے آئے تھے‘ جیت گئے۔ یہ ہلہ گلہ کرنے گئے تھے‘ ہلہ گلہ کرنے میں کامیاب رہے۔ معاشرتی علوم کا ایک سوچا سمجھا اصول ہے کہ جب کوئی معاشرہ زوال پذیر ہوتا ہے‘ تو زوال پذیری کا یہ عمل جزوی نہیں ہوتا۔ یعنی آپ کرکٹ کی ٹیم اچھی بنا لیں اور فٹ بال میں بچوں سے ہار جائیں۔ جیسا کہ گزشتہ طویل عرصے سے ہو رہا ہے۔ مکمل زوال کا عمل وہ ہوتا ہے‘ جس میں ہر چیز زوال پذیر ہو۔ ہم یہ معیار حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ ہماری پارلیمنٹ اور شہر کے کسی چوک میں ہونے والی توتکار کا‘ موازنہ کر کے دیکھ لیں۔ دونوں ایک جیسے دکھائی دیں گے۔ پٹواری اور تھانے کے محرر سے کام لینے کے لئے‘ آپ کو ایک ہی طرح سے جیب میں پیسے رکھ کر جانا ہو گا۔ ایک ہی طرح سے بات کرنا ہو گی اور ایک ہی طرح سے سودا طے کر کے‘ کام ہو جائے گا۔ جس معاشرے میں سینٹ کے ٹکٹ بکتے ہوں اور ووٹ فروخت کرنے والے عوام کے منتخب نمائندے ہوں‘ وہاں کرپشن کیسے ختم ہو سکتی ہے؟ اور جو نمائندے جعلی ڈگریاں لے کر منتخب اداروں میں جاتے ہوں‘ وہ رشوت خور اہلکاروں کے مددگار نہیں ہوں گے ‘ تو کیا ایمانداروں کی سرپرستی کریں گے؟ مہذب معاشروں میں ہسپتال‘ پولیس سٹیشن اور پٹوارخانے کا ماحول ایک جیسا ملے گا۔ یہاں بھی یہ ماحول ایک ہی جیسا ہے،جو سلوک آپ سے تھانے میں ہو گا‘ وہی سلوک ہسپتال میں بھی ہو گا اور وہی پٹوارخانے میں بھی۔ مثالیں دینے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم بھی‘ ہمارے ہی طورطریقوں کے مطابق منتخب کی جاتی ہے۔ دوسرے ملکوں میں دو سال پہلے میگاایونٹ کی تیاری شروع کر دی جاتی ہے، جبکہ ہماری ٹیم آخری دنوں تک تشکیل پا رہی ہوتی ہے اور اکثر تو یوں بھی ہوتا ہے بلکہ ہوا ہے کہ ایک کھلاڑی کو بیرونی دورے پر ساتھ لے گئے اور وہاں جا کر ایک دو پریکٹس میچوں کے بعد‘ اسے ان فٹ قرار دے کر واپس بھیج دیا اور اس کی جگہ نیا کھلاڑی ہنگامی انتظامات کے تحت ویزا
لے کر‘تیزی کے ساتھ بیرون ملک پہنچایا گیا اور میچ کے دن وہ گرائونڈ میں ہونے کے بجائے‘ کھلاڑیوں کی گیلری میں بیٹھا تالیاں بجا تا نظر آیا۔ ہم نے ورلڈ کپ کے پہلے میچ میں یہی کچھ کیا ہے۔ یہی نہیں اور بھی بہت کچھ کیا ہے۔ ایک کھلاڑی کو، جسے چند روز پہلے ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا تھا، آخری وقت پر اسے بطور اوپننگ بیٹسمین آسٹریلیابلایا گیا۔ کھیل کے دن تیسری چوتھی پوزیشن پر کھیلنے والے سینئر کھلاڑی کو‘ طویل کیریئر کے آخری دنوں میں‘ اوپننگ کے لئے بھیج دیا گیا اور جسے اوپننگ کے لئے بطور خاص آسٹریلیا کا سفر کرایا گیا‘ وہ کھیل ہی نہیں پایا۔ یاسر بہت اچھا کھلاڑی ہے، لیکن ابھی اسے شارجہ اور دبئی کے سوا‘ کسی دوسرے ملک میں کھیلنے کا تجربہ ہی نہیں۔ ہم نے اسے پہلے ہی غیرملکی دورے پر ورلڈکپ میں جھونک دیا۔ وہ دنیا کے اعلیٰ ترین معیار کی کرکٹ کھیلنا کب سیکھتا؟ کہاں سیکھتا؟ اور کتنے میچ کھیلنے کے بعد سیکھتا؟ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ اسے اٹھا کر آسٹریلیا لے گئے اور کہا جا بچہ ورلڈ کپ کھیل۔ ہم اپنی کرکٹ کے ساتھ یہ سلوک کر رہے تھے کہ مبشر لقمان نے تبصرہ کرتے ہوئے یہ بتا کر اپنے ناظرین کو حیران کر دیا کہ کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رہنے والے‘ ایک اینکرنے اپنی ٹیم کے حق میں دعا کی ہے۔ دعا واقعی قبول ہو گئی‘ ہم ہار گئے۔ ہماری ٹیم میں جانے والے 25افراد‘ 18کھلاڑی اور 7 منتظمین نہیں‘ 25پنکچر ہیں۔ پہلے ہی باقاعدہ میچ میں کئی پنکچر اتار کے‘ نئے پنکچر لگانا پڑے۔ ورلڈکپ کا سارا سفر اسی طرح ہو گا۔ ایک میچ میں 3پنکچر اتار کے نئے لگیں گے‘ تو اگلے میچ میں 6پنکچر اتار کے نئے لگانا پڑیں گے۔ باقی ٹیمیں پریکٹس کریں گی۔ گیم کھیلیں گی۔ ہر نئے میچ پر‘ مخالف ٹیم کے کھلاڑیوں کی تکنیک اور مزاج کے بارے میں معلومات حاصل کریں گی۔ کھیل کی حکمت عملی بنائیں گی۔ گرائونڈ میں اپنے اپنے لئے ڈیوٹیوں کا انتخاب کریں گی اور ہم پرانے پنکچر اتار کے‘ نئے پنکچر لگا رہے ہوں گے۔ مجھے اس پر ذرا پریشانی نہیں۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ زہریلے دودھ سے‘ صحت افزا مکھن نہیں نکالا جا سکتا۔ انار کے اندر سے مکئی کے دانے نہیں نکلتے۔ لاہور اور کراچی میں ٹریفک کی پابندی نہیں ہو سکتی اور جس معاشرے میں یہ سب کچھ نہیں ہو سکتا‘ وہاں ایک ایسی کرکٹ ٹیم کیسے بنائی جا سکتی ہے‘ جو عالمی سطح کی پروفیشنل ٹیموں کا مقابلہ کر سکے؟ ہم تو بھارت جیسے انتہائی اہم پڑوسی اور امریکہ جیسی عالمی سپرپاور کے ساتھ مذاکرات کے لئے‘ وزیرخارجہ بھی نہیں رکھتے۔ کبھی مشیر سے کام چلا لیتے ہیں اور کبھی فوج کے سپہ سالار کو اس کام کے لئے بھیج دیتے ہیں۔ کرکٹ ٹیم کا انتخاب بھی اسی طرح ہوا ہو گا۔ کوئی لڑکا ٹینس کھیلنے کی درخواست لے کرکھیلوں کے وزیرکے پاس گیا ہو گا‘ تواس نے اسے کرکٹ میں بھیج دیا۔ کسی نوجوان نے ہاکی کھیلنے کی درخواست دی ہو گی اور متعلقہ محکمے کے اعلیٰ افسر نے اسے کبڈی ٹیم میں بھارت بھیج دیا ہو گا۔ ابھی معاملہ یہاں تک نہیں پہنچا۔ اگر سب کچھ یوں ہی ہوتا رہا‘ تو پھر یوں بھی ہو گا۔ صحافی کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بنے گا۔ میڈیکل کا ڈاکٹر ‘ پانی اور بجلی کی وزارت چلائے گا۔ غیرمنقولہ جائیدادوں کا بیوپاری‘ ٹرینیں چلائے گا۔ پولیس افسر‘ میڈیا کو ریگولیٹ کرے گا اور بینکر ملک کا وزیردفاع بنا دیا جائے گا۔ ہمارے کرکٹ بورڈ نے مختلف سفارشیوں کو اکٹھا کر کے‘ مصباح الحق سے کہا کہ ''یہ ہے تمہاری کرکٹ ٹیم۔ ورلڈ کپ جیت کر لے آئو!‘‘ میں نے سنا ہے‘ پاکستانی ٹیم کے کھلاڑیوں کو دورے کے دوران‘ میڈیا سے ملنے کی اجازت نہیں۔جب کارستانیاں ایسی ہوں‘ تو احتیاط ہی اچھی ہوتی ہے۔ آسٹریلیا کے کسی اخبار کا سپورٹس رپورٹر‘ پاکستانی کرکٹر سے انٹرویولینے میں کامیاب ہو گیا اور اپنا تعارف کراتے ہوئے ہمارے کھلاڑی نے یہ کہہ دیا کہ ''سر! میں تو انشورنس کے لئے آیا تھا۔ معین سر نے‘ مجھے گرائونڈ میں دھکیل کر کہا کہ کرکٹ کھیلو! کیا کرتا؟ کھیلنے آ گیا۔ اب تو اچھی خاصی پریکٹس ہو گئی ہے۔‘‘ جہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہو‘ وہاں کوئی ڈھنگ کا کام نہیں کیا جا سکتا۔ جو بھی کریں گے‘ ٹھینگا ہی باجے گا۔ سیاستدانوں سے ملک چھین کرچلانے والوں نے‘ اسے سکیورٹی سٹیٹ قرار دیا تھا۔ جب وہ آئے تھے‘ تو اسلحہ صرف قبائلی علاقوں میں عام تھا۔ قتل‘ کبھی کبھار ہونے والا جرم تھا۔ امن و امان کے لئے خصوصی ادارے اور پلٹنیں نہیں بنائی گئی تھیں۔ جب سے سکیورٹی سٹیٹ والے آنے لگے‘ سکیورٹی ختم ہو گئی۔ آئندہ لوگ کہا کریں گے‘ جب سے کرکٹ کا انتظام پنکچر لگانے والوں کے سپرد ہوا‘ کرکٹ ختم ہو گئی۔
نوٹ:ابھی ابھی سوشل میڈیا سے ایک خصوصی رپورٹ وصول ہوئی ہے جس کے مطابق بحریہ ٹائون کے چیئرمین ملک ریاض حسین نے بھارتی ٹیم کو شکست کھانے سے بچا کر کامیابی پر مجبور کرنے کا شاندار کارنامہ انجام دینے کے لیے بحریہ ٹائون لاہور، اسلام آباد اور کراچی کے قبرستانوں میں مزارات کی خصوصی جگہ مفت دینے کا اعلان کیا ہے اور یہ بھی کہ قبروں کی تعمیر کے اخراجات بھی بحریہ ٹائون خود ادا کرے گا۔ سلیکٹرز کا ایک علیحدہ مقبرہ بنا کر ان کی قبریں ایک ہی چھت کے نیچے بنائی جائیں گی جہاں داخلہ مفت ہو گا۔