تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     17-02-2015

کرکٹ کے دکھی اور غمزدہ شائقین کے لیے

جب رات ساڑھے دس بجے پاک بھارت میچ شروع ہوا توباہر شدید برفباری ہورہی تھی۔ دو دن پہلے سے ہی لائیو کرکٹ میچ دیکھنے کا بندوبست شروع ہوچکا تھا۔ امریکہ میں براہ راست میچ دکھانے کا ٹھیکہ ای ایس پی این کے پاس تھا اور اس کو دیکھنے کے لیے یعنی ورلڈ کپ دیکھنے کے لیے سو ڈالر کی ادائیگی کرنا پڑرہی تھی۔ عہد آفرین نے صرف ایک میچ کے لیے سو ڈالر ادا کرنے کے بجائے کسی طرح '' جادو بکس ‘‘ کا بندوبست کیا۔ جادو بکس دراصل پاکستانی ٹی وی پروگرامز دیکھنے کا سستا ترین بندوبست ہے ۔ایک بار ادائیگی کریں اور تقریباً سارے پاکستانی چینل بشمول نیوز و تفریحی چینلز مزے سے مفت دیکھیں۔ جب جادو بکس کا بندوبست ہوگیا تو کسی نے افواہ پھیلا دی کہ جادو بکس پر ورلڈ کپ نہیں دیکھا جاسکتا۔ اب نئے سرے سے بندوبستی مہم کا آغاز ہوا۔ سمارٹ ٹی وی کے ساتھ لیپ ٹاپ کو جوڑا گیا۔ عہد آفرین ،شیری اور ولید نے مختلف ویب سائٹس کھول کربالآخر ایک بہتر ویب سائٹ کا انتخاب کیا۔ اب مسئلہ آواز کا آن پڑا۔ سمارٹ ٹی وی اور لیپ ٹاپ میں آواز کا تال میل نہیں ہورہا تھا، یعنی دونوں آپس میں '' سنکرونائز‘‘ نہیں ہورہے تھے۔ اب لیپ ٹاپ کے ساتھ سپیکر جوڑے گئے۔ اس سارے بندوبست کے بعد اس سسٹم کو چیک کرنے کی غرض سے پاک بھارت میچ سے دو گھنٹے پہلے شروع ہونے والا سائوتھ افریقہ اور زمبابوے کا میچ دیکھ کر تسلی کی گئی۔ یہ بندوبست گزار ے لائق تھا۔ نیٹ کبھی کبھی پھنس جاتا تھا یعنی ہینگ ہوجاتا تھا مگر معاملہ وہی تھا کہ '' گندم نہ گربہم رسد، بھوسہ غنیمت است ‘‘۔
اس کے بعد مختصر سے لائونج کو ممکنہ حد تک رات بھر میچ دیکھنے کے لیے تیار کیاگیا۔ صوفے کے آگے میٹرس بچھایا گیا پاکستان سے میں پارا چنار کی مونگ پھلی لے کر گیا تھا۔اس کا تھیلا کھولا گیا۔ چکوال کی پہلوان ریوڑیاں ایک پلیٹ میں ڈالی گئیں۔ خلیفہ کی ختائیوں کا ڈبہ درمیان میں رکھا گیا۔ عشا کی نماز کے بعد سب نے خصوصی دعائیں مانگیں۔ کھانا جلدازجلد ختم کیا اور سب نے اپنی اپنی جگہ سنبھال لی۔
میری بیٹی کے مختصر سے اپارٹمنٹ میں بڑی رونق لگی ہوئی تھی۔ ایک دن پہلے پٹس برگ میں میری تایازاد بہن سعدیہ اس کا شوہر طارق اور بیٹے شیری اور ولید گرینڈ ریپڈز آئے ہوئے تھے۔ آنے کا بنیادی مقصد تو نئے مہمان کو دیکھنا تھا۔ یہ نیا مہمان سیفان تھا۔ گزشتہ کالم میں سیفان کا نام کمپوزنگ والے نے اپنے خصوصی صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے سفیان لکھ دیا تھا۔ سیفان کیونکہ عام فہم نام نہیں اس لیے کمپوزر بھائی جان نے اسے میری املا کی غلطی سمجھا اور درست کرکے سفیان لکھ دیا۔ سیفان سیف سے یعنی تلوار سے نکلا ہے اور بمعنی اللہ کی تلوار ہے۔ یہ ذکر درمیان میں آگیاتو میں نے مناسب سمجھا کہ درستی کردی جائے اور ساری وضاحت اس لیے لکھی ہے کہ کہیں یہ صوابدیدی اختیارات دوبارہ جوش میں نہ آجائیں۔
سعدیہ میری تایا زاد بہن ہے اور اس لحاظ سے میری بیٹی کی پھوپھی لگتی ہے مگر میرے سارے بچے اسے باجی کہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی عمر میری نسبت میرے بچوں سے زیادہ قریب ہے۔ وہ ہماری سب سے چھوٹی کزن ہے اور گزشتہ دس بارہ سال سے امریکہ میں ہے۔ گرینڈ ریپڈز آنے کا اصل مقصد تو سیفان کو دیکھنا تھا،اسی دوران پاک بھارت میچ بھی آگیا۔ سعدیہ ، طارق اور بچے جمعہ والے دن شام کو یہاں پہنچ گئے۔ اگلے روز ہفتہ اور اس سے ا گلے روز اتوار تھا۔ وہ اس لانگ ویک اینڈ پر برف باری میں چھ گھنٹے کا سفر کرکے یہاں آئے تھے۔ دو کمرے کا اپارٹمنٹ تھا اور آٹھ لوگ۔ خالص پاکستانی سٹائل میں لائونج کو '' ملٹی پرپزروم‘‘ کا درجہ عطا کیا گیا۔ دونوں کونوں میں میٹریس لگائے گئے۔ درمیان میں صوفہ اور سامنے ٹی وی تھا۔ اس ساری تمہید کا مقصد اس اہتمام کی منظر کشی کرنا تھا جو پاک بھارت میچ کے لیے کیا گیا تھا۔
میچ شروع ہونے سے تھوڑی دیر پہلے عہد آفرین نے جادو بکس پر پی ٹی وی سپورٹس لگایا تو وہاں پاک بھارت میچ براہ راست دکھایا جارہا تھا۔ عہد آفرین نے لیپ ٹاپ بند کیا، سپیکر اتارے اور ٹی وی کی آواز کھول دی۔ اس وقت ٹاس ہورہا تھا۔ ٹاس بھارت جیت گیا اور پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ میں نے اسی وقت اعلان کردیا کہ معاملہ خراب ہوچکا ہے۔ بھارت کی بیٹنگ لائن اچھی ہے۔ وکٹ بیٹنگ کے لیے فیورٹ ہے لہٰذا اب معاملہ کچھ ٹھیک نظر نہیں آرہا۔ آپ
لوگ میچ دیکھیں میں تو سونے لگا ہوں۔ ہاں ! ایک بات اور بتائوں۔ بھارت نے اگر سکور اچھا کر لیا تو ہماری ٹیم ویسے ہی حوصلہ چھوڑ دے گی۔ سب کے ہاتھ پائوں پھول جائیں گے اور اس پریشر میں وہ ایسے الٹے سیدھے ہاتھ پائوں ماریں گے کہ لٹیا ہی ڈبو دیں گے۔ صرف ایک امید ہے کہ بائولرز بھارت کی ٹیم کو دو اڑھائی سو کے لگ بھگ سکور پر آئوٹ کردیں اور شاہد آفریدی چل جائے۔ دوسری صورت میں کم از کم مجھے تو کوئی امید نہیں۔ اگر بھارت کی ٹیم دو سوا دو سو رنز پر آئوٹ ہوجائے تو مجھے اٹھا دینا میں میچ کا دوسرا حصہ دیکھ لوں گا بصورت دیگر مجھے مت اٹھانا۔ تھوڑی دیر بعد شور مچا۔ طارق کسی کو با آواز بلند برا بھلا کہہ رہا تھا۔ پتا چلا کوہلی کا کیچ ڈراپ ہوگیا ہے۔ اس کے بعد کافی سکون رہا اور میں سویا رہا۔
میری آنکھ فجر کی نماز کے الارم سے کھلی۔ مجھے اٹھتے ہی اندازہ ہوگیا کہ بھارت نے زیادہ سکور کرلیا ہوگا جو مجھے کسی نے نہیں اٹھایا۔ لائونج میں صرف عہد آفرین جاگ رہا تھا اور خاصا افسردہ تھا۔ میں نے سکور پوچھا تو پتا چلا کہ بھارت نے تین سو سکور کیا ہے اور پاکستان نے دو سو پندرہ کیے ہیں۔ آٹھ کھلاڑی آئوٹ ہوچکے ہیں۔ مصباح اور سہیل خان کھیل رہے ہیں۔ میچ جیتنے کے لیے پچاسی رنز چاہئیں۔ باقی تقریباً چھ اوور رہتے ہیں۔ یعنی فی اوور تقریباً چودہ رنز درکار ہیں جو ناممکن ہیں۔ میں نے پوچھا باقی کہاں ہیں؟ عہد کہنے لگا، طارق بھائی اور سعیدہ باجی دو گھنٹے پہلے کمرے میں جاکر سوچکے ہیں۔ شیری اور ولید ابھی تھوڑی دیر پہلے گئے ہیں۔ امی بھی ابھی سوئی ہیں۔ آپ نے ٹھیک فیصلہ کیا تھا، میں نے وضو کرکے نماز پڑھی۔ واپس آیا تو میچ ختم ہوچکا تھا۔ میں نے عہد کو دلاسہ دیا کہ کوئی بات نہیں۔ کچھ نیا نہیں ہوا۔ عرصے سے یہی ہورہا ہے آپ لوگوں کو اب عادت ہوجانی چاہیے۔ عہد نے کوئی جواب نہ دیا اور کمبل لے کر صوفے پر لیٹ گیا۔
صبح اٹھا تو سارے دکھی بھی تھے اور میری سمجھداری پر تقریباً حسد کی صورتحال کا شکار بھی تھے۔ فون اٹھایا تو مختلف پیغامات منہ چڑا رہے تھے۔
اے اللہ! ہم نے پاکستانی ٹیم کی فتح کے لیے جو دعائیں مانگی تھیں، ان تمام دعائوں کا ثواب میرے دادا ، دادی، نانا اور نانی کی روح کو منتقل کردے۔
تین چیزیں انسان کو دیکھتے ہی دیکھتے دھوکہ دے جاتی ہیں۔ پہلی مسکراتی ہوئی لڑکی ، دوسری خاموشی سے بیٹھا ہوا کتا اور تیسری پاکستانی کرکٹ ٹیم۔
جب کوئی کیچ کو گرائے گا... تم کو ایک شخص یاد آئے گا۔
لیکن سب سے دکھی پیغام میری چھوٹی بیٹی کی بیسٹ فرینڈ ط۔ح کا ہے۔ اس نے جل کر فیس بک پر اپنا سٹیٹس لگایا ہے ''فیلنگ لعنتی‘‘
رات بھر آرام سے سونے کے بعد کم از کم میرا یہ فرض تو بنتا ہے کہ دکھی لوگوں کا غم کم کرنے کی کوشش کروں۔ فی الحال تو میرے پاس ان کا غم غلط کرنے اور حوصلہ دینے کے لیے ان پیغامات کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ جونہی اور مناسب پیغامات آگئے، میں ان دکھی لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کروں گا۔ تب تک اجازت دیجیے۔ اللہ حافظ

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved