کبھی یہ شعر کہا تھا ؎
ٹانگ ٹوٹی وہاں کہ دل ٹوٹا
ہو رہی تھی بہت چٹاخ پٹخ
پہلا اندازہ تو یہی تھا کہ دل ہی ٹوٹا ہوگا کہ اسے ٹوٹنے پھوٹنے کی ویسے بھی عادت پڑی ہوئی ہے۔ نیز اپنی خواہش بھی یہی ہوتی ہے یعنی ؎
بار بار دل کی یہ حالت ہوتی رہنی چاہیے
مجھ سے اگر پوچھیں تو محبت ہوتی رہنی چاہیے
لیکن تھوڑے غور کے بعد معلوم ہوا کہ دل تو اسی طرح سلامت ہے،یہ ٹخنے کی ہڈی تھی جوتٹرخ گئی ہے اور بائیں ہاتھ کی بڑی انگلی بھی ۔خیر، ایکسرے کروایا اور شہر کے نامور سرجن ڈاکٹر عمران منظور کی خدمات حاصل کی گئیں۔ وہ پلستر بھی چڑھا رہے تھے اور میری توجہ بٹانے کے لیے گپ شپ بھی کررہے تھے۔ دیوار کے پلستر کا ذکر آیا تو میں نے کہا کہ میں نے ایک بار اپنے کالم میں ایک جوک لکھا تھا تو ڈاکٹر صاحب بولے : آپ کالم بھی لکھتے ہیں ؟ جس پر مدد گار ڈاکٹر نے انہیں بتایا کہ یہ ظفر اقبال ہیں تو ڈاکٹر صاحب نے چونک کر کہا ''آپ واقعی ظفر اقبال ہیں ؟ میری تو 33سال پہلے کی ایک آرزو
پوری ہوگئی۔ یہ 80ء کی دہائی کا ذکر ہے، جب آپ کسی مشاعرے کے سلسلے میں گجرات آئے تھے، جہاں میرے والد صاحب ایک کالج کے پرنسپل تھے۔ آپ سے مختصر ملاقات ہوئی جبکہ میں تو آپ کے کالم کا رسیا تھا۔ میں نے والد صاحب سے کہا کہ ان سے تفصیلی ملاقات کرنی چاہیے جس پر وہ بولے ،کوئی بات نہیں کسی دن اوکاڑہ چلے چلتے ہیں، لیکن کوئی سبب بن ہی نہ سکا‘‘۔ بعد میں مجھے شرمندگی اور پشیمانی ہوئی کہ اپنی شناخت نہیں کروانی چاہیے تھی کیونکہ ہزار اصرار کے باوجود ڈاکٹر صاحب نے فیس لینے سے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ آپ کا علاج کرنا میر ے لیے اعزاز کی بات ہے، بلکہ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کچھ ہاتھ سے دینے کو بھی تیار ہیں!
جوک یہ تھا کہ ایک نوجوان نے کسی کارخانے میں ملازمت کے لیے درخواست دی جسے بتایا گیا کہ ہمارے پاس تو گنجائش نہیں،ہمارے رنگ و روغن کے شعبے میں چلے جائیں ، شاید انہیں ضرورت ہو۔ نوجوان وہاں پہنچا اوردرخواست وہاں کے افسر کے سامنے رکھ دی ۔ اس افسر وقت اس کے ہاتھ میں رنگ کرنے والا برش تھا جسے اس نے اونچا ہوا میں اچھالا اور واپس آتے ہوئے برش کو دستے سے دبوچ لیا اور نوجوان سے پوچھا کہ کیا تم ایسا کرسکتے ہو؟ نوجوان بولا: کیوں نہیں، اور برش لے کر اسے اوپر اونچا اچھالا اور واپسی پر بڑی پھرتی سے اسے دستے سے کیچ کرلیا، جس پر افسر نے اس کی درخواست پر لکھ دیا '' نامنظور‘‘۔ نوجوان نے حیران ہوکر اس کی طرف دیکھا تو وہ بولا: ''دراصل ہم نے اس شعبے میں دس آدمی رکھے ہوئے ہیں جو سارا دن یہی کچھ کرتے رہتے ہیں!‘‘
پلستر مکمل ہوگیا تو میں نے ڈاکٹر صاحب کو بتایا کہ ایک خاتون کی ٹانگ ٹوٹ گئی تو وہ ڈاکٹر کے پاس گئی ،جس نے ہڈی جوڑ کر اس پر پلستر چڑھا دیا اور کہا کہ اگر آپ نے سیڑھیاں چڑھنے سے مکمل پرہیز کیا تو ہڈی ٹھیک جڑ جائے گی ۔اس پر خاتون بولی :یہ کیسے ہوسکتا ہے، میں تو فسٹ فلور پر رہتی ہوں۔ ڈاکٹر نے کہا کہ اگر آپ چاہتی ہیں کہ آپ کی ٹانگ ٹھیک ہوجائے تو یہ پرہیز کرنا ہی پڑے گا، آپ ایک مہینے کے بعد آئیں۔ خاتون جب مقررہ مدت کے بعد گئی اور ڈاکٹر نے پلستر کھولا تو ہڈی بالکل جڑ ی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر نے خوش ہوکر کہا کہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے سیڑھیاں چڑھنے سے مکمل پرہیز کیا ہے ،جس پر خاتون بولی کہ سیڑھیوں سے تو میں نے پرہیز کیا تھا لیکن پائپ کے ذریعے چڑھ چڑھ کر اور اتر اتر کر تو میری مت ہی ماری گئی تھی!
چنانچہ میں بھی سیڑھیاں وغیرہ چڑھنے بلکہ پائپ کے ذریعے چڑھنے اترنے سے بھی مکمل پرہیز کررہا ہوں۔ ڈاکٹر کی ہدایت پر عمل کرنے سے فائدہ ہی ہوتا ہے۔ منقول ہے کہ ایک صاحب کا وزن بہت بڑھ گیا تو وہ ڈاکٹر کے پاس چلے گئے۔ ڈاکٹر نے معائنہ کرنے کے بعد انہیں کہا کہ آپ نے ہر روز پیدل پانچ میل چلنا ہے اور ایک ہفتے کے بعد مجھے رپورٹ دینی ہے۔ ہفتہ گزرنے کے بعد ان صاحب نے فون پر بتایا کہ ڈاکٹر صاحب میں اپنے گھر سے 35میل دور پہنچ چکا ہوں ،اب میرے لیے کیا حکم ہے؟
تاہم، ڈاکٹر اگر مریض کو تسلی دے دے تو اسے پریشان ہرگز نہیں ہونا چاہیے جیسا کہ ایک صاحب کسی پیچیدہ آپریشن کے لیے ڈاکٹر کے پاس گئے۔ ڈاکٹر نے معائنے کے بعد کہا کہ آپریشن بہت پیچیدہ ہے ، اس پر خرچہ کافی آسکتا ہے۔ مریض نے کہا کہ خرچے کی کوئی بات نہیں۔ اس کے بعد ڈاکٹر نے کہا کہ اس آپریشن کے بعد زندہ بچنے کی امید صرف دس فیصد ہے یعنی دس مریضوں میں سے صرف ایک زندہ بچتا ہے۔ مریض یہ سن کر منہ لٹکا کر بیٹھ گیا تو ڈاکٹر بولا: '' میں انہی دنوں نومریضوں کا آپریشن کر چکا ہوں جو اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں لیکن تم تو دسویں ہو ، تمہیں پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے!‘‘
آج کا مطلع
معمول کے خلاف محبت زیادہ ہے
یا آج کل جناب کو فرصت زیادہ ہے