تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     17-02-2015

اور اب پانی کی لوڈشیڈنگ

واپڈا ہائوس لاہور میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے پانی و بجلی کے وفاقی وزیر کے علا وہ وزیر اعظم کی کچن کیبنٹ کے رکن خواجہ محمد آصف نے خبردار کیا کہ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کے بعد ملک کو جلد ہی پانی کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ انہوں نے چیئر مین واپڈا ظفر صاحب سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اگر واپڈا ملک کو بجلی نہیں دے سکا تو کم از کم پانی کا ہی کچھ نہ کچھ بندو بست کر دے۔ اس وقت تو ظفر صاحب میزبان کے طور پر مہمان کے احترام میں چپ رہے لیکن اس سیمینار کے اگلے دن انہوں نے وفاقی وزیر پانی اور بجلی کو یاد دلاتے ہوئے کہا: حضور والا بجلی تو واپڈا سے کب کی چھین لی گئی ہے‘ رہا پانی کا مسئلہ تو اس کی کون سی کمی ہے ،وہ تو آپ سمیت ہمارے جیسے سب لوگوں کے گھروں میں کثرت سے ہر وقت بہتا ہے۔
ہر دوسرے تیسرے سال ملک میں آنے والے سیلاب سے درجنوں پاکستانیوں کی جانیں ضائع ہورہی ہیں، ہزاروں گھر، جانور اور دوسری قیمتی املاک سیلابی ریلوں میں بہہ جاتی ہیں۔ ماہرین کے ایک اندازے کے مطا بق چند سالوں کے وقفے سے آنے والے سیلاب کی تباہ کاریوں سے دس سے تیس بلین ڈالر کا قومی نقصان ہونے کے علا وہ 36 ملین ایکڑ فٹ قیمتی پانی بحیرۂ عرب کی نذر ہو جانے سے پاکستان کو72بلین ڈالر کے نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گزشتہ سال آنے والے سیلاب میں ہمارے ضائع ہونے والے پانی کی مقدار میں گرچہ کچھ کمی واقع ہوئی لیکن2010-11ء میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے ملک کا پچاس ملین ایکڑ فٹ پانی ضائع ہوا۔ واپڈا خود اعتراف کر رہا ہے کہ وہ تو کب کا عمر زیا دہ ہوجانے کی وجہ سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کھو چکا ہے لیکن وہ یہ تو کر سکتا ہے کہ ہر سال اس وقت جب پاکستان کو پانی کی کمی کا سامنا ہوتا ہے‘ ہماری زراعت اور انڈس ڈیلٹا کیلئے پانی ذخیرہ کرنے کا کچھ بندوبست کرلے۔ ہو سکتا ہے کہ واپڈا میں بیٹھے ہوئے چوٹی کے تجربہ کار پانی کے ماہرین حیران ہو کر پوچھنا شروع کر دیں کہ ان سے کس پانی کی بات کی جا رہی ہے؟ تو ان کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ جناب والا! ہماری مراد اس پانی سے ہے جو سیلاب آنے کی صورت میںڈیموں میںجمع کیا جا سکتا ہے اور جو پانی کی کمی کے عرصہ کے دوران ڈیلٹا کی ماحولیاتی بہتری کیلئے استعمال میں لایا جا سکتا ہے کیونکہ یہ تو بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ ڈیمز ماحولیاتی حسن کے کام آتے ہیں، نہ کہ اس کی فرسودگی کیلئے۔ وہ لوگ جو کالا باغ ڈیم کی مخالفت کر رہے ہیں‘ اگر ان میں حقیقت جاننے کی ذرہ برا بر بھی حس موجود ہے تو وہ اس یونیورسل فارمولے کی سچائی پر یقین کر لیں۔ کاش کہ ہم یہ سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو اب بھی ہوش میں لے آئیں کہ ہمیں وہ بجلی چاہئے جو ہماری صنعت ،زراعت ، تجارت اور گھریلو ضروریات کیلئے سستی ہو تاکہ ہماری مصنوعات اور زراعت سے حاصل ہونے والی اجناس سستے داموں عوام کو دستیاب ہوں‘ کیونکہ وہ بجلی‘ جو ہم تھرمل پاور کے ذریعے حاصل کر رہے ہیں‘ اس پر ہمارے ملک کو‘ جو پہلے ہی قرضوں کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے‘ پندرہ سے پچیس بلین ڈالر خرچ کرنے پڑرہے ہیں اور یہ وہ معاشی دہشت گردانہ حملہ ہے جو ہمارے اندر ہی موجود دشمن کے ایجنٹ کبھی کالا باغ ڈیم تو کبھی بھاشا ڈیم کے خلاف شور مچاتے ہوئے صوبوں کے حقوق کی آڑ میں ہم پر کیے جا رہے ہیں۔
مسلم لیگ نواز کی حکومت اگر اس ملک کے عوام سے واقعی مخلص ہوتی تو میٹرو روٹس پر کھربوں روپیہ خرچ کرنے کے بجائے اس ملک کے عوام کو سستی توانائی مہیا کرتی اور قوم کو پانی کے متوقع بحران سے بچانے کی کوشش کرتی‘ پوٹھوہار کی سر زمین میں واقع سوان ڈیم کی تعمیر کرتی‘ جس کے بارے میں دنیا بھر کے آبی ماہرین یہی کہہ رہے ہیں اگر پاکستان یہ ڈیم تعمیر کر لیتا تو ہر سال سیلاب کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہنے کے علا وہ اس کی زراعت اور صنعت بھی توانائی بحران سے محفوظ رہتی۔ اگر ہمیں اپنی آزادی کا خیال رکھنا ہے اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمار ا یہ ملک خوشحال ہو‘ اس کے عوام کو سکون ملے اور ہم سب کو دس سے چودہ
گھنٹوں کی بد ترین لوڈ شیڈنگ سے نجات مل جائے تو اس کے لیے سب سے بہتر، بہت بڑا اور انتہائی سستا آپشن سوان ڈیم ہے۔ اس ڈیم کی تعمیر کی جانب وہی حکومت اپنا قد م بڑھائے گی جو واقعی اپنے عوام اور اس ملک کی مخلص اور بہتری کی خواہش مند ہوگی۔ اگر سوان ڈیم تعمیر کر لیا جائے تو بغیر کسی شک کے کہا جا سکتا ہے کہ اس میں 2010ء میں پاکستان میں تباہی پھیلانے والے سیلابی پانی سے بھی زیا دہ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ آبی ماہرین کچھ کرنے کی بجائے لمبی لمبی میٹنگوں اور سیمیناروں میں حکومت کے خصوصی ایوارڈ سے نوازے ہوئے لوگوں کو بلا کر صاف پانی تو پیتے ہیں اور گپیں لگاتے ہیں لیکن ضروری منصوبوں کی خامیاں دور کرنے میں کئی کئی سال ضائع کر دیتے ہیں۔ میں ان سب کو چیلنج کرتے ہوئے لکھ رہا ہوں کہ اگر سوان ڈیم تعمیر کر لیا جائے تو اس سے جنوبی پنجاب اور سندھ ،کسی بھی قسم کے سیلاب سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اور مکمل طور پر محفوظ ہو جائیں گے اور تربیلا ڈیم میں سوان ڈیم کی وجہ سے پانی کا ذخیرہ ہوجانے سے خیبر پختونخوا کو سیلاب کی تباہ کاریوں کا کبھی سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
واپڈا کے58 ویں یوم تاسیس پر اس کے چیئرمین نے جو کچھ کہا‘ اس میں ترقی کا کوئی ایک عنصر بھی نہیں ہے‘ کیونکہ ہماری قسمتوں کو سدھارنے کی آڑ میں قسمتوں سے کھیلنے والوں کو اب تک یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ اگر سوان ڈیم بنا لیا جائے تو کالا باغ اور دیامیر بھاشا ڈیم سے بھی سات گنا زیا دہ پانی ہمیں اپنے ملک کے چپے چپے میں پھیلی ہوئی بنجر اور خشک زمینوں کو سیراب کرنے کیلئے دستیاب ہو گا۔ سوان ڈیم سے کالا باغ اور دیامیر بھاشا ڈیم سے دو گنا زیادہ بجلی بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہ بھی اندازہ کر لیں کہ یہ بجلی ہمیں کس قدر سستی دستیاب ہو گی۔ اس کے بعد ہمیںآئی پی پیز کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی‘ جو ہر دو ماہ بعد '' گردشی قرضے‘‘ ہماری گردنوں کے گرد لپیٹ دیتے ہیں۔اندازہ کیجئے کہ اس سے تیل اور گیس کی کس قدر بچت ہو گی جبکہ ہم بجلی حاصل کرنے کیلئے ان مہنگے ترین ذرائع پر اربوں کھربوں خرچ کرتے ہیں ،اس کے باوجود آدھے سے زیا دہ ملک کو گیس کی لوڈ شیڈنگ کی نذر کر دیتے ہیں۔
سوان ڈیم کی تعمیر پر ایک محتاظ اندازے کے مطا بق سات بلین ڈالر سے بھی کم خرچ آنے کا امکان ہے۔ یہ ڈیم اکیسویں صدی میں پاکستان کی گاڑی کو تیز اور محفوظ طریقے سے چلانے والاوہ انجن ثابت ہو سکتا ہے‘ جو ملک کو ایک سال میں90 بلین ڈالر کی معاشی صلاحیت سے مالا مال کر دے گا۔ دنیا بھر کے معاشی ماہرین کے خیال میں اگر پاکستان سوان ڈیم کے منصوبے پر1998ء میں عمل درآمد شروع کر دیتا‘ جب اس کی نشاندہی کی گئی تھی‘ تو آج ہمارا ملک کسی بھی قسم کے اندرونی اور بیرونی قرضوں کی محتاجی کے علا وہ چھوٹی بڑی طاقتوں کی سیا سی اور معاشی غلامی سے بھی کلی طور پر محفوظ ہوچکا ہوتا۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ سوان ڈیم کی تعمیر پر آنے والا خرچ دیامیر بھاشا ڈیم سے نصف ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved