ویلنٹائن ڈے کو ہمارے ہاں کافی لوگ مغربی ثقافتی یلغار کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اس برس14فروری کو ہم نے دیکھا کہ اس دن کو یوم حیا کے طور پر منانے کی بات ہوئی۔ کسی نے کہا کہ اس کا نام حجاب ڈے رکھ دیا جائے۔ پنجاب اسمبلی کے باہر مذہبی تعلیمی اداروں کی طالبات نے ویلنٹائن ڈے منائے جانے کے خلاف مظاہرہ کیا جبکہ اسلامی جمعیت طلبا نے شہر کے مختلف گول چکروں پر '' حیا کیمپس‘‘ لگاکر اس بات کااعلان کیا کہ ویلنٹائن ڈے ہمارا تہوار نہیں ہے اور ہمیں اگر اس دن کو منانا ہی ہے تو یوم حیا کے طور پرمنانا چاہیے۔
دوسری طرف ہم نے یہ بھی دیکھا کہ نوجوانوں نے خاص طور پر 14فروری کو یوم محبت کے طور پر بھرپور انداز میں منایا۔ بیکریوں اور ریستورانوں وغیرہ میں ویلنٹائن ڈے کی دھوم رہی اور پھول بیچنے والوں کی بھی چاندی ہوتی رہی۔ دل کی شکل کے سرخ غبارے جگہ جگہ نظر آئے۔
دو تین عشرے پہلے صورتحال یہ تھی کہ کسی کو خبر بھی نہیں ہوتی تھی اور 14فروری آتا تھا اور گزر جاتا تھا۔ جو لوگ انگریزی رسالے وغیرہ پڑھتے تھے ان کے علم میں آتا تھا کہ مغربی دنیا میں ویلنٹائن ڈے منایا گیا ہے، لیکن اب ٹیکنالوجی کی ترقی نے پوری دنیا کے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب کردیا ہے تو یہ چیزیں ہمارے ہاں بھی پہنچ چکی ہیں۔
ہمارے ہاں ان چیزوں کے پھیلنے کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے قبل ازیں اپنے معاشرے میں ایسی اقدار کے فروغ کے لیے زور ہی نہیں دیا جس کی مدد سے ہم مغربی دنیا کے کلچر کی یلغار کا مقابلہ کرسکتے۔
ذرا اندازہ لگائیے کہ ویلنٹائن ڈے ہمارے ہاں منائے جانے اور پھر اس کے ردعمل میں یوم حیا منائے جانے سے پہلے ہمارے ہاں کبھی کوئی ایسی سرگرمی ریکارڈ پر نہیں ہے جس کے بارے میں کہا جائے ،وہ قوم کو حیا کی طرف راغب کرنے کے لیے کی جاتی تھی۔ میں مذہبی سطح کی بات نہیں کررہا، ثقافتی سطح کی بات کررہا ہوں۔
اگر ہمارے ہاں ثقافتی سطح پر پہلے سے یوم حیا منائے جانے کی روایت ہوتی تو اور بات تھی۔ اب تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ نوجوانوں کو ویلنٹائن ڈے منانے سے روکنے کے لیے یوم حیا کی بات کی جارہی ہے اور ایسے یوم حیا کی بات کی جارہی ہے جس میں لڑکی اور لڑکے کے درمیان پھر بھی ایک دیوار حائل رہتی ہے۔ ہمارا مذہب شادی کی غرض سے لڑکے اور لڑکی کو ایک دوسرے کو دیکھنے کی اجازت دیتا ہے جس کے بعد بھائی ، بہنوں یا بزرگوں کی وساطت سے رشتہ بھیج کر بات طے کی جاسکتی ہے۔
اگر ہمارے ہاں کوئی ایسا دن منائے جانے کی روایت ہوتی جس کے دوران شہروں کے باغات میں یا بڑے بڑے ہالز میں اس دن کی تقریبات کے دوران لڑکے لڑکیوں کو اور لڑکیاں لڑکوں کو محض دیکھ سکتے اور پھر اپنے والدین یا بہن بھائیوں کے ہمراہ اپنے اپنے گھروں میں جاکر اپنے اہل خانہ کو اپنی پسند بتا سکتے تو ہم بڑی آسانی سے مغربی دنیا کی ویلنٹائن ڈے کی روایت کو اپنے ہاں آنے سے روک سکتے تھے۔
مختلف گھرانوں کو اپنے بچوں کے رشتے کروانے کے لیے جتنی تکلیفیں اٹھانا پڑتی ہیں ایسی روایت سے ان تکالیف میں کمی ہوسکتی تھی اور رشتہ کرانے والے دفاتر کے ظلم و ستم سے بھی کافی حد تک بچا جاسکتا تھا۔
چونکہ ہم نے اپنے ہاں کسی قسم کی جدید سوچ کو داخل نہیں ہونے دیا اور محض لکیر کے فقیر بنے رہے تو پھر ہمارا انجام یہی ہوسکتا ہے کہ ہمارے نوجوان بغاوت پر اتر آئیں اور مغربی تہذیب کی جھولی میں جاگریں ۔
نتیجہ کیا ہوگا ؟یہ کہ ہم اپنی ثقافت کی حفاظت میں مکمل طور پر ناکام ہوجائیں گے اور ہمارے نوجوان غیر ملکی ثقافت اپناتے ہوئے اپنی مذہبی اقدار سے بھی دور چلے جائیں گے۔ ویسے اس وقت بھی وہ کافی دور جاچکے ہیں۔ثقافتی یلغار کا مقابلہ مذہبی تبلیغ سے ممکن نہیں ہے۔ ذرا دیکھیے کہ ہماری حکومتوں کی غفلت کی وجہ سے کس طرح ہمارے ہاں بھارتی فلموں ، بھارتی موسیقی اور وہاں کے ڈراموں نے زور پکڑا ہے۔ ہمارے بچوں کی زبان پر ہندی کے کئی الفاظ آگئے ہیں۔ ز،کو، ج بولنے لگے ہیں۔ ہندی میں لفظ خلاصہ تفصیل کے معنوں میں بولا جاتا ہے، جبکہ اردو میں تلخیص کے معنوں میں۔ ہمارے میڈیا پر یہ بھی سننے میں آنے لگا ہے '' ذرا اس کا خلاصہ کیجیے‘‘۔ پھر یہ کہنا کہ '' آپ یہ کرتے ہو۔ آپ جاتے ہو۔ آپ آتے ہو۔ یہ سب ہندی ہے۔ اردو میں آپ کے ساتھ 'ہو‘ نہیں 'ہیں ‘بولا جاتا ہے۔ آپ یہ کرتے ہیں۔ آپ جاتے ہیں۔ آپ آتے ہیں وغیرہ۔ پھر انگریزی لفظ Issueکو ہندی میں مدّا کہا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی بعض لوگ مدّا بولنے لگے ہیں۔ زبان کے علاوہ شادیوں پر ہونے والے رسم و رواج بھی ہم بھارت سے درآمد کرنے لگے ہیں۔ پھر وہاں کے تہواروں کا بھی اثر یہاں ہونے لگا ہے۔ مغرب کے تہواروں کے تو ہم ویسے ہی دلدادہ ہوچکے ہیں۔ Halloweenتک تو منائی جانے لگی ہے۔ کیا اس ثقافتی یلغار کے سامنے ہم بے بس دکھائی نہیں دیتے ؟مغربی ثقافت بھی ہمارے ہاں رنگ جما رہی ہے اور بھارتی ثقافت بھی۔ ہماری اپنی ثقافت کہاں ہے؟ مغربی اور بھارتی دونوں ثقافتوں میں بے حیائی کا عنصر پایا جاتا ہے۔ ہماری مسلمان ثقافت میں بے حیائی نہیں ہوسکتی لیکن باقی ایسی باتیں تو ہوسکتی تھیں جو مذہبی اقدار سے متصادم نہیں ہیں۔
جس طرح میں نے کہا ہے کہ کوئی ایسا دن مقرر کرکے جس میں تقریبات کے دوران لڑکے لڑکیاں محض رشتے کرنے کی خاطر ایک دوسرے کو دیکھ سکتے اور پھر اہل خاندان کے ذریعے رشتے طے کر وا سکتے، اسی طرح ہم شادیوں میں بھی لڑکیوں کو الگ اور لڑکوں کو الگ شور شرابے کی اجازت دے کر اپنی مذہبی اقدار کے اندر رہتے ہوئے ثقافتی روایات قائم کرسکتے تھے۔
مگر ہمارے ہاں تو ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ اب مغرب کی اور بھارت کی ثقافت ہمارے ہاں ناچ رہی ہے اور ہم ماتم کناں ہیں۔ ادھر باہر کی دنیا میں ہماری یعنی مسلمانوں کی جو حالت ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ وہاں مسلمان اگر تو اپنی پہچان چھوڑ دیں تو ٹھیک وگرنہ ان کو انتہائی منفی طرز عمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ابھی پچھلے ہفتے امریکی ریاست ٹیکساس میں ایک امریکی مسلمان مسجد کے امام نے ایک تہوار پر اسلامی طریقے سے دعا کرادی تو لوگوں نے ہنگامہ کردیا کہ ایک امریکی تہوار پر مسلمانوں کی دعا کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ دو ہفتے پہلے امریکی ریاست نارتھ کیرولینا کی ڈیوک یونیورسٹی نے اذان نشر کرنے کا اپنا پروگرام تشدد کے خطرے کے سبب ختم کردیا۔ امریکی ریاست Louisianaکے گورنر کا کہنا ہے کہ امریکہ میں مسلمان اگر اپنی ثقافت اور اقدار لے کر آتے ہیں تو یہ ان کے نزدیک Immigrationنہیں ہے بلکہ Invasionہے۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے کالم نگار Peter Manseauنے البتہ امریکی لوگوں کے اس رویے کو یہ کہتے ہوئے ناپسند کیا ہے کہ مسلمان تو امریکہ میں ریاست ہائے متحدہ کے قیام سے بھی پہلے آگئے تھے اور کالم نگار کے بقول اس وقت بھی ان کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ انہوں نے سولہویں صدی کے تاریخی حوالوں اور غلام بنائے گئے سیاہ فام مسلمانوں کی یاد داشتوں کا ذکر کرکے امریکیوں کو یاد دلایا ہے کہ غلام بناکر لائے جانے والے افریقیوں میں بیس فیصد مسلمان تھے۔لیکن ایسی آوازوں پر کون کان دھرتا ہے۔ 11ستمبر کے واقعے کے بعد سے تو امریکی عوام مسلمانوں کی طرف خاص ہی توجہ دے رہے ہیں اور دوسری طرف ہمارے نوجوان ان سب باتوں سے بے نیاز مغربی اور بھارتی ثقافت میں اپنے آپ کو رنگتے جارہے ہیں۔
لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں اس ضمن میں کوئی طویل المیعاد پالیسی بنانا چاہیے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب یہی طے نہیں ہے کہ ہماری ثقافت کیا ہے تو پھر پالیسی کیسے بن پائے گی۔