میں نے تو اپنی چوٹ کا کسی کو نہیں بتایا تھا کہ احباب پریشان ہوں گے لیکن عزیزم افضال احمد (سنگ میل پبلی کیشنز) کو معلوم تھا جن کی زبانی انتظار حسین کو معلوم ہوا تو فون کیا کہ اب کیا حال ہے‘ میں نے کہا حال اچھا نہیں ہے‘ رہی سہی کسر آپ کے کالم نے نکال دی۔ بولے مجھے کیا پتا تھا کہ جس دن میرا کالم چھپنا تھا اسی دن تمہیں چوٹ آ جانی تھی۔ اوپر سے میرے کسی ستم ظریف مداح نے ہسپتال میں میرے پلستر زدہ پائوں سمیت تصویر اتار کر فیس بک پر لگا دی۔ یوں بھانڈا تو پھوٹ ہی چکا تھا؛ چنانچہ میں نے سوچا کہ جب ناچنے ہی لگ گئی تو گھونگھٹ کیسا‘ اپنے کالم میں بھی لکھ دیا جسے پڑھ کر پہلے پروفیسر فتح محمد ملک کا فون آیا‘ تشویش کا اظہار کر رہے تھے۔ میں نے ان کے صاحبزادے طارق کے بارے میں پوچھا تو بتایا کہ فلاں ملک میں ہے‘ اپنی پسند کی جاب اسے مل گئی ہے اور خوش ہے۔
کراچی سے آصف فرخی کا فون آیا کہ اسی ہفتے لاہور میں ایک ادبی اجتماع ہو رہا ہے‘ میرا ارادہ ہے کہ اس کا ایک سیشن ''لاتنقید‘‘ کے لیے مختص کر دیا جائے جس میں ڈاکٹر تحسین فراقی‘ ڈاکٹر ناصر عباس نیر اور ڈاکٹر ضیاء الحسن و دیگران کو کتاب پر بات کرنے کو کہا جائے۔ میں نے کہا کہ میری تو یہ حالت ہے‘ میں تو شامل نہیں ہو سکوں گا بلکہ میرے بغیر کر لیں تو زیادہ مزہ رہے گا کہ لوگوں کو زیادہ کھل کر بات کرنے کا موقع ملے گا‘ لیکن کہنے لگے کہ آپ کے بغیر مزہ نہیں آئے گا‘ پھر کہا کہ ایسا ہی ہنگامہ ہم اسلام آباد میں ماہ اپریل میں کر لیں گے‘ آپ تب تک ٹھیک ہو جائیں!
اس کے بعد ڈاکٹر ناصر عباس نیر‘ ڈاکٹر ابرار احمد‘ عباس تابش کا فون آ گیا بلکہ ڈاکٹر ابرار تو خود بھی چلے آئے اور کافی دیر تک بیٹھے رہے۔ اس کے علاوہ سجاد بلوچ‘ اظہر عباس اور فیصل آباد سے شوکت علی قمر کا فون اور پھر چل سو چل۔
اسی دوران ایک لطیفہ یہ رہا کہ ماہنامہ ''بیاض‘‘ میں باقیؔ احمد پوری کی ایک غزل شائع ہوئی جو مجھے اچھی لگی اور اس کے کچھ شعر میں نے اپنے کالم میں لگا دیے جبکہ اس کا یہ شعر ؎
قفس میں قید کرو یا ہمارے پر کاٹو
تمہارے جال میں آئے ہوئے پرندے ہیں
ایک ٹی وی پروگرام میں بھی سنا دیا۔ اس کے بعد کل ایس ایم ایس پر محبی صابر ظفر کی ایک غزل کے پانچ سات شعر نظر پڑے جہاں یہ بھی لکھا تھا کہ یہ غزل موصوف کی کتاب ''زنداں میں زندگی امر ہے‘‘ مطبوعہ 2003ء میں شامل ہے۔ دونوں غزلوں کی زمین کم و بیش ایک ہی تھی یعنی باقی کی غزل میں ردیف 'پرندے ہیں‘ تو صابر ظفر کی غزل کی ردیف 'پرندے تھے‘ ہے۔ دونوں میرے دوست اور سینئر شمار ہوتے ہیں۔ پتا نہیں کس نے کس کا کھینچا مارا‘ واللہ اعلم باالصواب۔ کسی ہم عصر کی زمین میں غزل کہنا کوئی معیوب بات نہیں‘ لیکن ایک تو یہ بات غزل کے ساتھ درج کر دینی چاہیے اور دوسری لازمی بات یہ ہے کہ آپ اس شاعر سے زمین چھین لیں یعنی آپ کی غزل اس سے بہتر ہو۔ اور‘ اگر ایس ایم ایس والا اندراج درست ہے تو بظاہر یہی لگتا ہے کہ صابر ظفر نے غزل پہلے کہی اور باقیؔ نے بعد میں۔ لیکن اصل گھپلا یہ ہوا کہ دونوں غزلوں کا ایک ایک مصرعہ آپس میں ٹکرا گیا ہے۔ مثلاً صابر ظفر کی غزل کا مصرعہ ہے ع
ہم آسماں سے گرائے ہوئے پرندے تھے
تو باقی کی غزل کا ایک مصرعہ ہے ع
کہ ہم فلک سے گرائے ہوئے پرندے ہیں
اسے توارد تو نہیں کہا جا سکتا کیونکہ زمین اس قدر بولتی ہوئی ہے کہ توارد کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ البتہ باقیؔ کی غزل کا ایک جواز ضرور موجود ہے کہ ان کی غزل صابر ظفر کی غزل سے بہتر ہے۔ میں نے بھی ایک بار باقیؔ صاحب کی ایک زمین میں غزل کہی تھی جس کی زمین تھی ''میرے بھائی‘‘۔ میں نے رسالے میں وہ غزل چھپنے کے لیے بھیجی تو ساتھ ہی نوٹ بھی لکھ دیا کہ یہ باقیؔ احمد پوری کی زمین میں ہے۔ ایڈیٹر نے غزل تو چھاپ دی لیکن نوٹ گول کر گئے۔ چنانچہ مجھے باقیؔ صاحب کو زبانی بتانا پڑا۔ بعض اوقات نام کی بھی گڑ بڑ ہوجاتی ہے۔ چند سال پہلے لاہور میں منیر نیازی کی پذیرائی میں ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں ایک مقرر نے کہا کہ جیسے ظفر اقبال نے کہہ رکھا ہے کہ ؎
ہمارا عشق ظفرؔ رہ گیا دھرے کا دھرا
کرایہ دار اچانک مکان چھوڑ گیا
میری باری آئی تو میں نے سب سے پہلے یہ وضاحت کردی کہ یہ شعر میرا نہیں بلکہ صابر ظفرؔ کا ہے۔ بہرحال‘ جو کچھ بھی ہو‘ مذکورہ بالا دو مصرعوں کے آپس میں ٹکرانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ شوکت علی قمر بتا رہے تھے کہ میں نے اپنا پنجابی مجموعہ آپ کو بھیجا تھا‘ ملا‘ یا نہیں۔ میرے انکار پر کہا کہ میں نے اخبار کی معرفت بھیجا تھا تو میں نے کہا کہ اخبار والوں کے پاس گھروں میں ڈاک پہنچانے کا کوئی انتظام نہیں ہے جبکہ میں تو ایک عرصے سے اخبار کے دفتر گیا ہی نہیں؛ چنانچہ انہیں گھر کا پتہ بتایا کہ وہاں بھیجیں۔
آج کا مقطع
یہ شاعری اچھی بُری جیسی بھی ہے‘ ظفرؔ
سچ پوچھیے تو آپ کی شہرت زیادہ ہے