تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     18-02-2015

جوئے کا دھندا

اسلام میں حلال کمائی کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ قرآن مجید کے متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو پاکیزہ کھانا کھانے کا حکم دیا اور حرام کھانے سے روکا ہے۔ مسلم شریف کی ایک حدیث پاک میں ایک ایسے شخص کا ذکر کیا گیا ہے جو لمبے سفر کے بعد پراگندہ حالت میں، ہاتھ پھیلا کر رب رب کہہ کر پکارتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس کا کھانا پینا اور پہننا حرام ہے اس کی پکار (یعنی دعا) کیسے قبول ہو؟مسلمانوں کو حرام کی جملہ اقسام سے بچنا چاہیے اور حلال کمانے کی سر توڑ کوششیں کرنی چاہئیں تاکہ جائز طریقے سے اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی رحمت بھی حاصل ہو سکے۔ ہمارے معاشرے میں حرام کمائی کے مواقع بکثرت موجود ہیں جن میں سرفہرست سود کا لین دین ہے۔ جس کو قرآن مجید میں واضح طور پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اعلان جنگ قرار دیا گیا ہے۔
سود کی حرمت تقریباً تمام مسلمانوں پر واضح ہے لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت کسی نہ کسی اعتبار سے سودی لین دین میں ملوث ہے سودی لین دین کے علاوہ حرام کمائی کی ایک اور قسم جس میں لوگوں کی بڑی تعداد ملوث ہے جوا ہے۔ جوئے اور شراب کے بارے میں قرآن مجید کی تعلیمات بالکل واضح ہیں لیکن بہت بڑی تعداد میں مسلمان ان جرائم اور گناہوں کی سنگینی سے غافل ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں شراب نوشی اور جوئے کا چلن عام تھا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بتدریج ان دونوں برائیوں کو حرام قرار دیا۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 219میں اعلان فرمایا کہ لوگ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں تو آپ کہہ دیجیے ان میں بڑے نقصانات اور کچھ فائدے بھی ہیں۔ اور ان کے نقصانات ان کے فوائد سے بہت بڑے ہیں۔ اس آیت کے نزول کے بعد اللہ تعالیٰ نے سورہ مائدہ کی آیت نمبر 90میں شراب اور جوئے کی کلی حرمت کا اعلان کر دیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ''اے ایمان والو! بے شک شراب، جوا ، پانسہ اور بت گری ناپاک شیطانی کام ہیں۔ان سے بچ جاؤ تاکہ تم کامیاب ہو سکو۔ـ‘‘
اس سے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے شراب اور جوئے کی حرمت کے سبب کوبھی واضح کر دیا کہ شیطان‘ شراب اور جوئے کے ذریعے اہل ایمان کو ایک دوسرے کی دشمنی پر آمادہ کرتا اور ان کو ذکر الٰہی سے دور کرتا ہے۔ جوئے اور شراب کے نقصانات کا مشاہدہ کرنا کچھ مشکل نہیں، جوا کھیلنے کے دوران انسان نماز اور ذکر الٰہی سے غافل ہو جاتا ہے اور جواجیتنے والے کے خلاف جوا ہارنے والے کے دل میں جو نفرت اورکراہت پیدا ہوتی ہے وہ بھی کسی ذی شعور سے ڈھکی چھپی نہیں۔
کاروبار کے ذریعے کمائی کرنے والا شخص کسی نہ کسی چیز کو فروخت کررہا ہوتا ہے ۔ جبکہ ملازمت کے ذریعے کمانے والا شخص اپنی خدمات اور وقت کا معاوضہ وصول کر رہا ہوتا ہے۔ اس کے بالمقابل جوا جیتنے والا شخص کسی بھی چیز کی فروخت اور کسی بھی خدمت کو سرا نجام دئیے بغیر جوا ہارنے والے کے مال پر ہاتھ صاف کرتا ہے۔ اس وجہ سے قدرتی طور پر ہارنے والے کے دل میں گھٹن اور جیتنے والے کے خلاف کراہت پیدا ہو جاتی ہے ۔امریکہ کی ریاست نیواڈا کا شہر لاس ویگاس دنیا میں بھر میں جوئے کے دھندے کے لحاظ سے بدنام ہے ۔دنیا بھر سے جوا کھیلنے کے شائقین لاس ویگاس میں جوا کھیلنے جاتے ہیں ۔ تجربہ کار جواری راتوںـ رات امیر جبکہ اناڑی چند گھنٹوں میں جمع پونجی لٹا بیٹھتے ہیں۔
وطن عزیز میں بھی ایک عرصے سے جوئے کا دھندا عروج پر ہے۔ اکثر لوگ نوجوانی ہی میں بعض کھیل کھیلنے کے دوران اس بری لت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ سنوکر بظاہر تو ایک کھیل ہے جس میں کھلاڑی سٹک کی مدد سے گیندوں کو سنوکر ٹیبل پر بنے ہوئے چھ سوراخوں میں ڈالتے ہیں لیکن فی زمانہ سنوکر کلب جوا خانوں کا کردار ادا کر رہے ہیں اور اس کھیل پر چندسو روپوں سے لے کر کئی ہزار روپے تک کی شرط باندھی جاتی ہے ۔ کھیل ہارنے والا جیتنے والے کو طے شدہ رقم ادا کرتا ہے۔ اس کھیل میں جوئے کی ادنیٰ ترین صورت یہ ہے کہ ہارنے والا کھلاڑی کھیل کا کرایہ ادا کرتا ہے جبکہ جیتنے والا کھلاڑی مفت کھیل کھیلتا ہے۔ سنوکر پر لگائے جانے والے جوئے کے علاوہ لڈو ، کیرم بورڈ اور تاش کے پتوں پر بھی عام جوا کھیلا جاتا ہے ۔ کھلاڑی شرط باندھ کر یہ کھیلیں کھیلتے ہیں۔ ہارنے والا ہارنے کے ساتھ ساتھ طے شدہ رقم بھی کھو بیٹھتا ہے۔
پاکستان میں ایک عرصہ قبل گھڑدوڑ پر جوا لگا کرتا تھا۔ جواری من پسند گھوڑوں پر شرطیں لگایا کرتے۔ جوئے میں کئی مرتبہ شرط باندھنے والوں کی رقوم میں بھی واضح فرق ہوتا ہے اور یہ فرق دو گنا سے لے کر دس گنا اور کئی مرتبہ اس سے بھی زیادہ ہوتا ہے ۔ لاہور کا ریس کورس گراؤنڈ اس وقت سیر و سیاحت کے لیے استعمال ہونے والے پارکوں میں سے ایک خوبصورت اور نمایاں ترین پارک ہے۔ ایک دور میں اس گراؤنڈ میں رائیڈنگ سکول اور پولو گراؤنڈ کے ساتھ ساتھ گھڑدوڑ کے ٹریک بنے ہوئے تھے اور گھڑ دوڑ پر بڑھ چڑھ کر جوا لگا کرتا تھا میں نے اپنے زمانہ طالب علمی میں اس طرح کے واقعات بھی پڑھے اورسنے کہ بعض جواری جوئے میں نقدی ہارنے کے بعد بتدریج اپنی سواری ، کوٹھی اور یہاں تک کہ جیون ساتھی بھی ہار گئے۔
پاکستان کے سکولوں ، کالجوں اورتعلیمی اداروں میں فن فیئرز اور مینا بازاروںکا عرصہ سے انعقاد کیا جاتا ہے۔ ان مینابازاروں اور میلوں میں جہاں اور بہت سی قباحتیں پائی جاتی ہیں۔ وہیں پر یہاں لکی سیون کا جوا بھی اپنے پورے عروج پر ہوتا ہے۔ ایک لکڑی کے تختے پر لڈو کے دو دانے پھینکنے سے قبل کھلاڑی اندازہ لگاتا ہے کہ دونوں دانوں پر موجود نمبروں کا مجموعہ سات ، سات سے کم یاسات سے زیادہ نکلے گا۔ اگر کھلاڑی کا اندازہ درست ہو تو کھیل کے کرائے کے لیے مقررہ رقم سے دوگنی رقم کھلاڑی کو مل جاتی ہے جبکہ اندازہ غلط ہونے کی صورت میں اس کی رقم کو ضبط کرلیا جاتا ہے ۔ مختلف کھیلوں پر لگائے جانے والے جوئے کی وجہ سے جہاں لوگوں کو مالی نقصان ہوتا ہے وہیں پر ان کے درمیان دشمنی اور نفرت کو بھی فروغ ملتا ہے ۔ ان کھیلوں کے ساتھ ساتھ ایک عرصے سے کرکٹ کے کھیل پر بھی جوا اپنے پورے عروج پر ہے۔ پوری میچ سیریز اور ایک ٹیم پر لگائے جانے والے جوئے کے ساتھ ساتھ اس وقت حالت یہ ہو چکی ہے کہ ہر بیٹسمین اور باؤلر کی کارکردگی پر جوا لگا یا جاتا ہے؛ بسا اوقات ہر ہر گیند اور ہر ہر وکٹ پر بھی۔ اس جوئے کے دھندے میں جہاں پیشہ ور جواریوں کی شمولیت کی اطلاعات ملتی رہتی ہیں‘ وہیں پر ماضی میں کئی نامور کھلاڑیوں پر بھی جوئے میں شمولیت کے الزام لگ چکے ہیں۔ قطع نظراس بات کہ یہ الزامات کس حد تک سچے یا جھوٹے تھے ان الزامات کی وجہ سے کھیل کا اصل مقصد فوت ہو جاتا ہے ۔
کھیلوں کے دو بڑے مقاصد ہیں‘ ایک تفریح طبع اور دوسرا جسمانی یا نفسیاتی ورزش۔ ان کے حصول کے بغیرکوئی بھی کھیل بیکار ہے۔ جوئے کے الزامات اور اس کے عمل دخل کی وجہ سے کھیل کئی مرتبہ ڈرامے کی شکل اختیار کر جاتا ہے اورناظرین اور شائقین بے یقینی اور بدگمانی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان وجوہ کی بنیاد پر جوئے کی موجودگی میں کھیل جسمانی یا نفسیاتی ورزش سے کہیں بڑھ کر جوئے کے دھندے کو چلانے اور جوا خانوں کی رونق کو دوبالا کرنے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved