1970ء کے عشرے میں قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے اچانک اپنی جیب سے ایک بوتل نکالی‘ ہوا میں لہرائی اور فخریہ اعلان کیا کہ ڈیرہ غازی خان کے قریب ڈھوڈک میں تیل اور گیس کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔ ایوان تالیوں سے گونج اٹھا ۔ حکومت اپوزیشن کے مابین اعتماد کا فقدان تھا اس لیے بھٹو صاحب چند قدم چل کراپوزیشن لیڈر مفتی محمود مرحوم کی نشست پر گئے‘ بوتل کا ڈھکن کھولا اوراپوزیشن لیڈرکو سنگھاتے ہوئے کہا ''مفتی صاحب یہ اصل پٹرول ہے‘‘ مفتی صاحب نے طنزاً کہا کہ'' میں نے کب انکار کیا اور اسے آبپارہ کے کسی پٹرول پمپ سے خریدا گیا پٹرول قرار دیا‘‘ پنجاب میں دریافت ہونے والا یہ تیل اور گیس کا سب سے بڑا ذخیرہ تھا ۔روزانہ تین ہزار بیرل تیل اور پچاس ملین مکعب فٹ گیس کی پیداوار پر ملک بھر میں جشن منایا گیا اور اپوزیشن کے اس دعوے پر کسی نے کان نہ دھرا کہ یہ حکومت کا ڈرامہ ہے۔
گزشتہ ہفتے جب میاں نواز شریف اور میاںشہباز شریف نے چنیوٹ کے قریب رجوعہ میں سونے‘تانبے اور لوہے کے ذخائر کی دریافت کا اعلان ایک تقریب میں کیا تو پوری قوم نے سکھ کا سانس لیا کہ چلو سونے چاندی اورتانبے کا اتنا بڑا ذخیرہ دریافت ہونے کے بعد ہمارے دن بھی پھرنے و الے ہیں اگر حکمرانوں کی نیک نیتی اللہ کو پسند آئی اورلوہے کے متلاشیوں کو سونا مل گیا ہے تواس پر ناک بھوں چڑھانے اور ان دعووں میں کسی قسم کی مین میخ نکالنے کے بجائے سجدہ شکر ادا کرنا چاہیے ترقی و خوشحالی کی امید پیدا ہوئی ہے تو بدشگونی کا کوئی کلمہ منہ سے نکالنا مناسب نہیں ویسے بھی نیتوں کا حال اللہ جانتا ہے ہم آپ کسی کی نیت پر شک کرنے والے کون ہوتے ہیں۔
اس ملک میں سارے لوگ مگر ہماری طرح خوش گماں ہیں‘ نہ حکمرانوں کے دعووں پر آنکھیں بند کر کے ایمان لانے کے عادی۔ چھ ماہ میںبجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے وعدوں کا حشر وہ دیکھ چکے ہیں اور گڈانی‘ گوادر‘ساہیوال میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کے انجام سے واقف ہیں۔ یہ منصوبے غیر ملکی کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے لئے بنائے گئے تھے اور قوم کوئلہ کے منصوبوں سے پیدا ہونے والے ماحولیاتی و طبی مسائل کا سامنا کرنے پر بھی تیار تھی مگر پتہ یہ چلا کہ کراچی سے ساہیوال تک روزانہ‘ جی ہاں روزانہ کوئلے سے بھری تیس چالیس ٹرینیں چلانے کے لیے بوگیاں ہیں نہ ریلوے ٹریک اور نہ کوئی دوسرا متبادل طریقہ ؛چنانچہ یہ غنچے بن کھلے ہی مرجھا گئے۔
مدیران جرائد کی تقریب میں جب محترم مجیب الرحمن شامی نے رجوعہ میں سونا دریافت ہونے پرمیاں نواز شریف کو مبارکباد پیش کی اور اسے حسن نیت کا ثمر بتلایا تو ہم نے دوسرے مدیران گرامی اور سینئر صحافیوں کی طرح سراہا اور اپنے ساتھ بیٹھے سینئر صحافیوں جناب عارف نظامی‘ رحمت علی رازی‘ سہیل وڑائچ ‘ پیر سُفید شاہ‘ ضیاء شاہد ‘ رمیزہ نظامی اور ادیب جاودانی کے ساتھ مل کر تالی پیٹی مگر معترضین کی زبان بھلا کون روک سکتا ہے۔یہ اب بھی 1969ء کے ایک فضائی سروے کا حوالے دیتے ہیں جس میں یہاں لوہا‘ تانبہ اور سونا جیسی دھاتوں کی موجودگی کاانکشاف کیا گیا تھا۔ جیالوجیکل سروے آف پاکستان نے 1989ء میں اپنے سروے کی بنیاد پر یہاں پانچ بور ہولز ڈرل کئے اور بتایا کہ 459میٹر گہرائی پر لوہے کے ذخائر ہیں جس کے نیچے سلفائڈ زون ہے جہاں دیگر معدنیات موجود ہو سکتی ہیں۔
1997ء میں محکمہ معدنیات پنجاب کی اجازت سے پنجاب منرل ڈویلپمنٹ کارپوریشن نے مزید نو بور کر کے رپورٹ تیار کی اور بتایا کہ یہاںمعدنیات کے ذخائر ہیں مگر ساتھ ہی انکشاف کیا کہ زیر زمین پانی کے تین وسیع ذخائر ہیں جنہیں عبور کرنا مشکل نہیں بلکہ فی الوقت ناممکن ہے کیونکہ قریبی دریا کی وجہ سے پانی کی نکاسی ممکن ہے نہ اس کی موجودگی میں کان کنی آسان‘ مہنگی ترین ٹیکنالوجی کے ذریعے اگر اس پانی کو منجمد کر کے کان کنی کی جائے تونکلنے والے لوہے کی قیمت چاندی کی بازاری قیمت کے برابر ہو گی اور سونا بھی مارکیٹ پرائس پر دستیاب ہو گا۔ یہ بھی علم نہیں کہ یہ ذخائر کتنے وسیع ہیں۔
2007ء میں ERPL کے نام سے ایک نجی کمپنی نے تکنیکی کام کرنے کی ہامی بھری مگر یہ فراڈ ثابت ہوئی جس پر کچھ کر دکھانے کے جذبے سے سرشار وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے پنجاب منرل کمپنی کی بنیاد ڈالی جس کے پہلے چیئرمین معروف صنعتکار میاں منشا تھے مگر جلد ہی اس اجلے صنعتکار کا جی اُکتا گیا اور وہ مستعفی ہو گئے ۔اب معروف سائنس دان ڈاکٹر ثمر مند مبارک اس کمپنی کے روح وروا ںہیں اور تھر میں کوئلے کے ذخائر سے گیس برآمد کرنے کا کام چھوڑ کر رجوعہ میں سونا تلاش کر رہے ہیں شاید ایٹمی سائنس دان پانی کو منجمد کرنے پر قادر ہیں اور ہتھیلی پر سرسوں جمانے کے محاورے کو سچ ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ‘ورنہ سائنسی بنیادوں پر ڈرلنگ‘ ماڈلنگ اورسیمپلنگ کے لیے بھی کم از کم دو سال کا عرصہ درکار ہے جس کے بعد چینی کمپنی یہ تعین کر سکے گی کہ یہاں کتنا سونا‘ تانبا اور لوہا ہے اور کب ‘کس قیمت پر یہ قوم کو دستیاب ہوگا۔ ؟
اللہ کرے کہ ہمارے حکمرانوں کو نیت کا پھل ملے اور لوہا تلاش کرنے والوں کو سونا عطا فرمانے والا مالک و قادر مزید مہربان ہو۔ دو سال بعد آج کے دعوے درست ثابت ہوں اور ڈاکٹر ثمر مند مبارک کو یہ کہنے کی ضرورت پیش نہ آئے کہ حکومت نے ہمیں ضروری وسائل فراہم نہیں کیے۔ تھر کے کوئلہ سے گیس بنانے کا منصوبہ بھی ڈاکٹر صاحب کو وسائل نہ ملنے کی وجہ سے ''فلاپ ‘‘ہوا ورنہ اب تک پاکستان ایران‘ ترکمانستان اور قطر کا محتاج نہ ہوتا۔ میاں شہبازشریف یقینا ڈاکٹر صاحب کو مایوس نہیں کریں گے اور دو ارب خرچ کرنے کے بعد مزید دو ارب بھی عطا فرمائیں گے مگر موقع کی مناسبت سے ہم محترم وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کی توجہ ڈیرہ غازی خان کے قریب واقع ڈھوڈک کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں جہاں بھٹو صاحب کے دور میں تیل اور گیس دریافت ہوا تو تیل صاف کرنے کی ریفائنری قائم کی گئی جس سے ہزاروں غریبوں کو روزگار ملا‘ کنٹینروں کی قطاریں لگی رہتیں اور تیل و گیس سے حاصل ہونے والی آمدنی کا معقول حصہ مقامی تعمیر و ترقی پر خرچ کیا جاتا۔ مگر فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے دور میں تیل و گیس کے کچھ کنوئیں ایک نجی کمپنی کو لیز پر دے دئیے گئے جبکہ منتخب صدر آصف علی زرداری نے آمر کے نہلے پر دہلا لگایا اور آئل ریفائنری بند کر کے مشینری نواب شاہ کے قریب سنجھورو منتقل کرنے کا حکم دیا یوں او جی ڈی سی ایل کا یہ منافع بخش منصوبہ اپنی قدرو منزلت کھونے لگا۔
مشینری کی اکھاڑ پچھاڑ اور منتقلی پر او جی ڈی سی ایل کے چار ساڑھے چار کروڑ خرچ ہوئے۔ سنجھورو میں دو ارب خرچ کر کے بھی پلانٹ چالو نہیں ہو سکا اور مقامی تیل صاف کرنے کے لیے قریب واقع پارکو محمود کوٹ کی ریفائنری کے بجائے اٹک بھیجا جاتا ہے‘ سینکڑوں میل دور۔ باقی ماندہ مشینری کو زنگ لگ رہا ہے اور ملازمین کی چھانٹی کے ذریعے مقامی سطح پر بے روزگاروں کی فوج تیار کی جا رہی ہے۔ چتروٹہ کے ذخائر ایکسپلور کرنے کی کسی کو فکر نہیں میاں نوازشریف سے لے کر شاہد خاقان عباسی تک تیل و گیس کی کمی کا رونا سب روتے ہیں۔ دستیاب ذخائر سے فائدہ اٹھانے اور پیداوار میں اضافہ کرنے کی فکر کسی کو نہیں۔
جنوبی پنجاب کے عوام کو گلہ ہے کہ حکومت‘ عدلیہ اور میڈیا نے کبھی ڈھوڈک آئل فیلڈ کو درخوراعتنا سمجھا نہ اس کی نجکاری اور پلانٹس منتقلی پر شور مچایا۔ ان دنوں اس تاریخی قومی پروجیکٹ سے کیا سلوک ہو رہا ہے شریف برادران کو خبر ہے نہ بریکنگ نیوز کے رسیا الیکٹرانک میڈیا کو اور نہ گیس و بجلی کی لوڈشیڈنگ و مہنگائی پر شور مچانے والے کالم نگاروں کو۔ شاید کسی کو یہ احساس ہی نہیں کہ قومی پروجیکٹ کے ساتھ کیا وارداتیں ہوئیں۔ اب او جی ڈی سی ایل کی نجکاری کے چرچے ہیں اور مال مفت دل بے رحم کے ذریعے مال پانی بنانے کے منصوبے۔
پاکستانی عوام کی قسمت اگر واقعی جاگ اٹھی ہے تو دو تین سال بعد وہ دینار و درہم اور اشرفیوں میں کھیل رہے ہوں گے۔ یہاں ایئرپورٹوں پر غیر ملکی بے روزگاروں کی قطاریں لگی ہوں گی اور سونے‘ چاندی‘ تانبے‘ لوہے کی تلاش میں سرگرداں ساری دنیا کی کمپنیوں کے چیئرمین و سی ای اوز اسلام آباد‘ لاہور کے فیصلہ سازوں کے سامنے قطار اور ہاتھ باندھے اجازت نامے مانگ رہے ہوں گے مگر تب تک ڈھوڈک کی خبرلینے میں حرج نہیں جہاں تیل اور گیس کے ذخائر کے ساتھ وہ سلوک ہو رہا ہے جو داعش کے فاتحین شام‘ عراق اور دیگر ممالک کے معدنیاتی ذخائر کے ساتھ کر رہے ہیں۔ پرویز مشرف اور آصف علی زرداری کر گزرے کم از کم شریف برادران نہ کریں۔ یہ تاثر مناسب نہیں کہ ع نیا سفر ہے پرانے چراغ گل کر دو