موبائل کی گھنٹی بجی‘ کھولا تو آواز آئی:
''یٰسین صاحب ہیں؟‘‘ میں نے کہا‘ نہیں بھائی یہ ان کا نمبر نہیں ہے۔ پھر کہا:
''کون صاحب بول رہے ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا‘ آپ کس سے بات کرنا چاہتے ہیں‘ تو بولے:
''میرے پاس یہ نمبر فیڈڈ ہے لیکن نام موجود نہیں‘ اگر آپ اپنا اسمِ گرامی بتا دیں تو میری الجھن دور ہو سکتی ہے‘‘۔
میں نے اپنا اسمِ گرامی بتایا تو اچھل پڑے:
''اوئے‘ کیسی خوش قسمتی اور حسن اتفاق ہے کہ اچانک آپ سے شرفِ ہم کلامی حاصل ہو گیا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ میں چند سال پہلے جی او آر میں اپنی کتاب کا فلیپ لکھوانے کے لیے حاضر ہوا تھا۔ (حالانکہ مجھے بالکل یاد نہیں تھا) گرمیوں کا موسم تھا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ یہ سیالکوٹ سے محبوب ظفر تھے۔
پھر گھنٹی بجی تو یہ راولپنڈی سے مسٹر عبداللہ ایڈووکیٹ تھے۔ حال چال پوچھنے کے بعد یہ اطلاع بھی دی کہ آپ ہمارے لیے شعر و ادب کا سرمایہ ہیں (جس پر میں نے فوراً یقین کر لیا) خدا آپ کا سایہ ہمارے سروں پر ہمیشہ قائم رکھے...
اس سے مجھے کچھ اختلاف تھا کیونکہ سردیوں میں سائے میں قلفی جمانے ہی کے لیے بیٹھا جاتا ہے۔ چنانچہ یہ دعا اس طرح ہونی چاہیے کہ خدا گرمیوں میں آپ کا سایہ اور سردیوں میں آپ کی دھوپ قائم رکھے۔ اس دوران اپنا یہ مطلع یاد آیا ؎
کیا کیا گلاب کھِلتے ہیں اندر کی دھوپ میں
آ دیکھ مل کے مجھ کو دسمبر کی دھوپ میں
اس کے بعد سہ ماہی ''زرنگار‘‘ فیصل آباد کے شاعر ایڈیٹر ضیا حسن ضیا تھے۔ ان کا یہ شعر مجھے اکثر ہانٹ کرتا ہے ؎
جو تجھے پیش کرنا چاہتا تھا
پھول وہ ہاتھ پر کھِلا ہی نہیں
بتا رہے تھے کہ گزشتہ ایک سال سے بزنس کے سلسلے میں کراچی میں تھا۔ اب وہاں کے حالات دیکھ کر واپس آ گیا ہوں اور پرچہ ترتیب دے رہا ہوں۔ تازہ کلام بھیجئے‘ وغیرہ وغیرہ۔
سرگودھا سے پروفیسر خالق تنویر کا بھی فون آیا۔ اس کے بعد فیصل آباد سے شاعر نصرت صدیقی کا فون تھا۔ خود بیمار تھے۔ ان کا یہ خوبصورت شعر یاد آ رہا ہے ؎
زخم بھی لگاتے ہو‘ پھول بھی کھلاتے ہو
کتنے کام لیتے ہو ایک مسکرانے سے
اوکاڑہ سے شاعر مسعود احمد بتا رہے تھے کہ اب تو اپنے شہر کی خبر بھی ہمیں آپ کے کالم ہی سے ملتی ہے۔ اپنا یہ تازہ شعر بھی سنایا ؎
یہ پیڑ گھنے جیسے فصیلوں کی طرح ہیں
ہم نے بھی گملوں میں اگائی ہے محبت
کشور ناہید کو پہلے دن ہی بتا دیا تھا لیکن اس نے پلٹ کر خبر ہی نہیں لی۔ اس پر کسی کے اشعار یاد آ رہے تھے ؎
کہا مجنوں سے یہ لیلیٰ کی ماں نے
کہ بیٹا تو کر لے ایم اے اگر پاس
تو فوراً دوں بیاہ لیلیٰ کو تجھ سے
بلا دِقّت میں بن جائوں تری ساس
کہا مجنوں نے یہ اچھی سنائی
مجھے سمجھا ہے کوئی ہرچرن داس
بڑی بی آپ کو کیا ہو گیا ہے
ہرن پر لادی جاتی ہے کہیں گھاس
نہیں یہ کام میرے کرنے والا
کجا عاشق‘ کجا کالج کی بکواس
یہی ٹھہری جو شرطِ وصلِ لیلیٰ
تو استعفیٰ مرا باحسرت و یاس
چنانچہ کشور کو یہ شعر ایس ایم ایس کرنے ہی والا تھا کہ اچانک اس کا فون آ گیا اور استعفیٰ بیچ میں ہی رہ گیا۔ بہرحال فون کالز کے بیانات کا یہ سلسلہ آج سے موقوف ہے کہ ایک ہی طرح کی باتیں ہوتی ہیں اور جا بے جا تعریف۔ اکثر کالر یہ بتانا نہیں بھولتے کہ یہ اخبار آپ کے کالم ہی کے لیے لگوا رکھا ہے؛ جبکہ میں نے یہ اخبار نذیر ناجی اور رئوف کلاسرا کا کالم پڑھنے کے لیے لگوایا ہوا ہے۔ البتہ برادران اسلام ہارون الرشید‘ محمد اظہار الحق اور خالد مسعود خان کا کالم اگر پڑھ نہ پائوں تو سونگھ کر ہی سرشار ہو جاتا ہوں۔
آج کا مطلع
پھرا کرو اب روٹھے
تم روٹھے‘ ہم چھوٹے