کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے!!
سانحوں اور حادثوں کا ناختم ہونے والا سلسلہ ہے! بے گناہ لوگ دہشت گردی کی آگ کا ایندھن بنتے چلے جاتے ہیں۔ اپنی زندگی کے شب و روز میں مصروف‘ زندگی کی گاڑی کھینچتے ہوئے‘ خوابوں اور خواہشوں سے گندھے ہوئے لوگ‘ بے خبر ہوتے ہیں کہ جانے کب کس موڑ پر کوئی درندہ صفت خودکش بمبار اُن کے وجود کو چیتھڑوں میں بدل دے گا۔ کب کوئی قاتل لمحہ ان سے زندگی کے سارے حقوق چھین لے گا۔ کب کسی موڑ پر زندگی کی شام ہو جائے گی! کب کس چوراہے پر ناگہانی موت انہیں آن دبوچے گی اور کب سانس کی ڈور ٹوٹ جائے گی۔ اُن کے وجود کے جھلسے ہوئے‘ ادھڑے ہوئے اور بکھرے ہوئے خدوخال کو پہچاننے میں ان کے اپنے بھی مشکل محسوس کریں گے۔
ابھی ایک حادثے کی سوگواریت کم نہیں ہوتی کہ دوسرا حادثہ رونما ہو جاتا ہے۔ عجیب لہو لہو فضا ہے مرے وطن کی... عجیب ماتم بھرا ماحول ہے۔ ہم لکھنے والے تو ہر سانحے کا پُرسا دینے کے لیے یہی کھوکھلے لفظوں کو حرفوں کی دکان میں سجانے لے آتے ہیں مگر جن گھروں پہ ناگہانی موت اترتی ہے‘ وہی اس دکھ کی شدت کو محسوس کر سکتے ہیں۔ ابھی 16 دسمبر کی قاتل یادیں دل پر بوجھ تھیں کہ اس کے بعد کتنے ہی اور حادثے ہو گئے۔ یہ خبر بھی
آئی کہ پشاور کے آرمی پبلک سکول میں اس آڈیٹوریم کو‘ جہاں طالب علموں کو بے رحمی سے قتل کیا گیا تھا‘ ماہر نفسیات کے مشوروں کے مطابق‘ مسمار کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ یہ آڈیٹوریم اب ایک مقتل کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے؛ چنانچہ اس کے گرد حفاظتی حصار لگا کر اسے سکول کی باقی عمارت سے الگ کردیا گیا۔ اب یہاں پر کھیل کا میدان بنے گا۔ عمارت تو یقینا مسمار ہو جائے گی لیکن دکھ‘ رنج اور تکلیف کے جو قلعے اس سانحے نے تعمیر کر دیئے ہیں‘ انہیں کون مسمار کر سکے گا۔
16 دسمبر کے بعد حکومت کی جانب سے دہشت گردی کو آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے لیے بلند بانگ دعوے بھی کیے گئے۔ کل جماعتی کانفرنسیں بلائی گئیں اور انٹیلی جنس کے نیٹ ورک کو فعال بنانے کے عزم کا اظہار بھی کیا گیا۔ ایسا لگتا تھا کہ اتنے ڈھیروں عزائم‘ ارادوں اور وعدوں سے دہشت گردی کے واقعات میں کچھ کمی ہوگی۔ مگر بدقسمتی سے ایسا ہوتا نظر نہیں آیا۔ حال ہی میں یکے بعد دیگرے کئی سانحے رونما ہوئے۔ شکارپور کی امام بارگاہ میں 60 افراد خودکش بم دھماکے میں جان سے گزر گئے۔ پھر پشاور کے پوش علاقے کی مسجد میں خدا کے حضور جھکے ہوئے
نمازیوں کو خودکش بمبار نے نشانہ بنایا اور منگل 17 فروری کو لاہور کی فضا خودکش حملے سے سوگوار ہو گئی۔ حملہ آور نے پولیس لائنز کی ہائی سکیورٹی کے باعث باہر ہی خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ پولیس لائنز کے قریب کے سکول میں پڑھنے والے بچوں کے والدین خوف اور وحشت میں اپنے بچوں کی سلامتی کی دعائیں کرتے ہوئے سکولوں کی طرف بھاگے۔ خوف اور سہم کے آکٹوپس نے ہر دل کو جکڑ رکھا ہے۔ یہاں تک کہ گھروں کی محفوظ چاردیواری کے اندر بیٹھے لوگ بھی دہشت گردی کے آسیب کی زد میں ہیں۔ منیر نیازی کا ایک شعر جو شاید آج سے بیس برس قبل پڑھتے تو سمجھ نہ آتا مگر آج اپنی پوری تلخ سچائی اور معنویت کے ساتھ ہم پر آشکار ہوتا ہے ؎
اک تیز رعد جیسی صدا ہر مکان میں
لوگوں کو ان کے گھر میں ڈرا دینا چاہیے
نہ جانے منیر نیازی نے یہ شعر‘ خیال کی کس رو کے تحت کہا تھا مگر آج بدقسمتی سے اس دہشت زدہ عہد میں‘ لوگ گھروں کے اندر بند کواڑوں بھی سہمے ہوئے بیٹھے ہیں۔ دہشت گرد اس میں کامیاب ہو چکے ہیں کہ معاشرے کا امن‘ سکون تباہ کر کے یہاں کے بسنے والوں کو مسلسل خوف اور عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا رکھا جائے۔
جہاں زندگی کے شجر پر خوف کی آکاس بیل چڑھی ہو‘ وہاں بہار کی آمد کا پتہ نہیں چلتا۔ پہلے کبھی فروری کے آتے ہی بسنت‘ پالا اڑنت کی آوازیں آتیں‘ بہار کی آمد کا جشن منایا جاتا۔ سرد موسم میں دبکے ہوئے لوگ‘ بہار کے آتے ہی‘ سیرو تفریح کے لیے گھروں سے نکل پڑتے۔ مختلف طرح کے صنعتی میلے‘ فن فیئر‘ نمائشوں کا اہتمام ہوتا... ہر شخص خاندان کے لیے تفریح حاصل کر کے خوشی محسوس کرتا۔ مگر آج خوف‘ سہم‘ بے یقینی اور عدم تحفظ کی فضا نے سماج کی اس خوب صورت روایت کو ختم کردیا ہے۔ اب جہاں چار لوگ جمع ہو جائیں وہاں سکیورٹی خدشات پیدا ہو جاتے ہیں اور تو اور جو سکول ہائی سکیورٹی رسک پر ہیں‘ وہاں اسمبلی جیسی خوب صورت روایت بھی ختم ہو گئی ہے۔ اب تو پلے گروپ کا ساڑھے تین سال کا بچہ بھی جب سکول جاتا ہے تو اس کے بیگ کو جس میں ایک لنچ باکس اور ڈائری کے سوا کچھ نہیں ہوتا‘ میٹل ڈی ٹیکٹر سے چیک کیا جاتا ہے۔ ہوم ٹائم پر ان کی مائوں کو ''سکیورٹی رسک‘‘ کی وجہ سے سکول کے اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں ملتی۔
تو ننھے بچے یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ یہ سوچ کر دل ڈرتا ہے کہ یہ ننھے بچے کس طرح کے پاکستان میں بڑے ہو رہے ہیں۔ ٹی وی پر سانحات کی خبریں جب بڑے دیکھتے ہیں تو بچے بھی لامحالہ‘ آگ اور بارود کے یہ مناظر دیکھتے ہیں اور پھر سوال کرتے ہیں۔ مگر بڑوں کے پاس ان کے معصوم سوالوں کا کوئی جواب نہیں۔
نہ جانے کون سا سانحہ ہوا تھا۔ خوف‘ بے یقینی اور عدم تحفظ کی ایسی ہی فضا تھی جب میں نے یہ شعر کہے تھے۔ آج پھر‘ وہی احساس ہے‘ وہی چند اشعار پھر یاد آ رہے ہیں‘ اسی پر کالم کا اختتام کرتی ہوں ؎
تیر سارے کڑی کمان میں تھے
ہم کہ اک شہرِ بے امان میں تھے
آگ بھڑکی تو جل نہ جائیں کہیں
خواب ایسے بھی شہرِ جان میں تھے
زرد چہروں پہ کھوکھلی آنکھیں
جیسے بجھتے دیئے مکان میں تھے!