تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     20-02-2015

جہالت یا ضعیف الاعتقادی

کئی عشرے قبل اقبالؒ نے مسلمان کی کیا خوب تشخیص کی تھی ؎
شہری ہو دیہاتی ہو‘ مسلمان ہے سادہ
مانندِ بُتاں پُجتے ہیں کعبے کے برہمن
اور پنجاب کے مسلمانوں کے بارے میں کہا ؎
مذہب میں بہت تازہ پسند اس کی طبیعت 
کر لے کہیں منزل تو گزرتا ہے بہت جلد
تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا
ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد
تاویل کا پھندا کوئی صیاّد لگا دے
یہ شاخ نشیمن سے اُترتا ہے بہت جلد
مظفر گڑھ کا بے اولاد اکرم جنوبی پنجاب سے تعلق رکھتا ہے اورخیر سے مسلمان بھی۔ ضعیف الاعتقاد‘ ان پڑھ اور اولاد کی خواہش سے مغلوب جس نے لے پالک بچّی کو زندہ درگور کیا اور زمانہ جاہلیت کی یاد تازہ کر دی۔ مگر ضعیف الاعتقادی محض ان پڑھوں کا شیوہ ہے نہ اولاد کی خواہش سے مغلوب دیہاتیوں کا خاصہ ۔ جعلی پیر و عامل صرف مظفر گڑھ ‘ ڈیرہ غازی خان ایسے پسماندہ علاقوں میں نہیں پائے جاتے۔ اسلام آباد‘ لاہور‘ کراچی اور دیگر ترقی یافتہ شہروں میں بھی یہ کاروبار عروج پر ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک شعبدہ باز بلکہ نوسر باز اور اس کے حلقۂ عقیدت میں اندرون و بیرون ملک اعلیٰ تعلیمی اداروں کے فیض یافتہ جاگیردار‘ سرمایہ دار‘ سیاستدان‘ حکمران‘ جرنیل اور دانشور ۔
عام طور پر کم علمی اور جہالت کو ضعیف الاعتقادی کی وجہ اور غربت و تنگ دستی کو پیر پرستی کا سبب قرار دیا جاتا ہے مگر ہم نے ان گناہگار آنکھوں سے اچھے خاصے پڑھے لکھے‘ دولت مند اور بظاہر روشن خیال جدت پسند افراد کو اس مرض میں مبتلا پایا ہے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان‘ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم‘ محترمہ بے نظیر بھٹو‘ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری میں سے کسی ایک کو کم علم قرار دیا جا سکتا ہے نہ مصائب و آلام کا شکار مگر ان کی پیر پرستی سے ایک زمانہ واقف ہے۔ پیر دھنکا سے چھڑیاں کھانے راسخ العقیدہ اور عبادت گزار میاں نواز شریف بھی ذوق و شوق سے مانسہرہ جاتے تھے اور فارن کوالیفائیڈ محترمہ بے نظیر بھٹو بھی۔ وزارت عظمیٰ کا منصب حاصل کرنے کے بعد یہ مزید کیا مانگتے رہے‘ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے‘ یہ خود یا پیر صاحب جس نے بزرگی و پارسائی کا کبھی دعویٰ کیا نہ کشف و کرامات کا ڈھنڈورا پیٹا۔ البتہ اپنے ہاں آنے والوں کو پیٹنے میں تکلف نہیں برتتے تھے۔
لاہور میں ایک بابا جی میٹرک اور ایف اے کا امتحان دینے والوں کو قبل از وقت کامیابی یا ناکامی کی نوید سناتے اور چلّہ کاٹنے کے عوض معقول نذرانہ وصول کرتے۔ ایک بار ان کے اپنے صاحبزادے نے میٹرک کا امتحان دیا اور شاہ بابا کی طرف سے مژدۂ کامرانی سننے کے باوجود فیل ہو گیا مگر خوش اعتقاد مریدوں نے اسے بھی حضرت کی کرامت سے تعبیر کیا ۔ ضرورت مندوں کی تعداد کم ہوئی نہ عقیدت مندوں نے منفی تاثر لیا۔ لوگ بھی آہستہ آہستہ صاحبزادے کی ناکامی کو بھول کر اپنے بچوں کی کامیابی کی دعائیں کرانے میں مگن ہو گئے۔
بلا شبہ برصغیر میں اسلام کی روشنی بزرگان دین کی شبانہ روز ریاضت اور کریمانہ اخلاق سے پھیلی مگر ان بزرگوں نے بندروں‘ سانپوں‘ گائیوں‘ درختوں کے پجاریوں کے علاوہ انہی سے حاجت روائی کے عادی بت پرستوں کو دائرہ اسلام میں داخل کیا اور انہیں باور کرایا کہ ؎
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
حضرت سید علی ہجویریؒ، حضرت معین الدین چشتیؒ، حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ ‘ حضرت خواجہ غلام فریدؒ ‘ حضرت پیر مہر علی شاہ ؒمیں سے کسی نے اولاد کے خواہش مندوں کو کبھی اپنی لے پالک بچی زندہ درگور کرنے کی تلقین کی‘ نہ رزق میں کشادگی کے لیے اُلّو پکڑ کر لانے کو کہا اور نہ امتحان میں کامیابی یا بیماری میں شفا کی خاطر دعاوچلّہ کشی کا لاکھوں روپے نذرانہ مانگا۔
حتیٰ کہ کشف وکرامات کے بارے میں بھی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء ؒ کی رائے یہ تھی ''شیخ سعد الدین حمویہ ایک مرد بزرگ تھے۔ ایک دن والی ٔ شہر اُن کی خانقاہ میں حاضر ہوا ۔ آپ نے والی ٔ شہر کی خاطر تواضع کے لیے سیب منگوائے۔ والی شہر کے دل میں خیال آیا کہ اگر شیخ واقعی صاحب کشف و کرامات ہیں تو طشتری میں دھرابڑا سیب مجھے عنایت کریں۔ شیخ نے ہاتھ بڑھایا‘ سیب اٹھایا اور والی شہر کی طرف منہ کر کے بتایا کہ ایک بار میں نے بازی گر کا تماشا دیکھا تھا جس کے گدھے کی آنکھوں پر پٹی بندھی تھی مگر وہ بازی گر کے کہنے پر اُس شخص کے پاس بآسانی پہنچ جاتا جس کی انگلی میں انگوٹھی تھی۔ شیخ حمویہ نے واقعہ بیان کرنے کے بعد کہا کہ اگر کوئی شخص اپنی کشف و کرامات کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے‘ وہ اپنے آپ کو اس بازیگر کے گدھے کے درجے پر رکھتا ہے۔ یہ کہہ کر شیخ نے سیب والی شہر کے سامنے رکھ دیا کہ کھائو‘‘۔ حضرت شیخ نصیر الدین چراغ دہلوی کا مشہور قول ہے ''غم ایمان باید خورد‘ درپے کرامت نباید رود‘‘
ہمارے ہاں مگر جہالت‘ ضعیف الاعتقادی اور اسلامی تعلیمات کے علاوہ قوانین فطرت سے لاعلمی کے سبب ان پڑھ پیروں‘ جاہل عاملوں اور پڑھے لکھے شعبدہ بازوں کا سکّہ چلتا ہے۔قانون بنانے اور نافذ کرنے والے خود ان کے اندھے معتقد اور محتاج ہیں اس لیے یہ کاروبار فروغ پذیر ہے۔ ان میں سے بیشتر کے اڈے جرائم کی آماجگاہ ہیں جہاں لوگوں کی صرف جیبیں نہیں کٹتیں ‘ عزتیں بھی لٹتی ہیں اور عقیدت مندوں کو اپنے بچوں بچیوں کو زندہ درگور کرنے‘ دوسروں کے بچوں کو جہالت کی بھینٹ چڑھانے اور مردوں کی بے حرمتی کرنے کے احکامات بھی جاری کئے جاتے ہیں۔
کسی کو احساس ہی نہیں کہ جعلی پیر اور عامل معاشرے کا ناسور بن چکے ہیں۔ یہ اچھے بھلے ہنستے بستے گھروں کو اجاڑتے ‘ ہمسایوں اور رشتہ داروں میں ناچاقی پیدا کرتے اور بہو بیٹیوں کی عزتوں سے کھیلتے ہیں۔ روزانہ اس طرح کے واقعات منظر عام پر آتے ہیں۔ وارداتیے پکڑے جاتے ہیں مگر پھر اچانک چھوٹ کر کسی دوسری جگہ ڈیرہ جما لیتے ہیں ۔قبرستانوں میں قائم ملنگوں کے اڈے جرائم پیشہ افراد کی پناہ گاہیں ہیں۔اور بیٹا ہو گا یا بیٹی؟ بے اولادوں کو اولاد کی خوشخبری اور بے روزگاروں کو کروڑوں میں کھیلنے کا لالچ دینے والے دشمن عقیدہ و ایمان کہ یہ دین کا تقاضا ہے نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اسوۂ حسنہ اور نہ بزرگان دین کی تعلیمات کا خلاصہ۔
مظفر گڑھ کا اکرم اکیلا نہیں جس نے ایک جعلی پیر کی ہدایت پر سنگین جرم کا ارتکاب کیا یہ صرف جہالت ہے نہ اولاد کی خواہش سے مغلوب شخص کا مجنونانہ فعل‘ یہ ضعیف الاعتقادی کا کرشمہ ہے اور اس سے فائدہ اٹھانے والے پیروں‘ عاملوں اور شعبدہ بازوں سے مسلسل چشم پوشی کا نتیجہ۔ خدا کا شکر ہے معصوم کی جان بچ گئی مگر گلی گلی محلے محلے موجود ان جعلی پیروں اور عاملوں کا سدباب کون کرے گا جو گھریلو جھگڑوں‘ خاندانی رقابتوں‘ اولاد کی مجنونانہ خواہش اور خواتین کی ناآسودگی کا علاج اس سنگدلانہ انداز میں سوچتے اور دور جاہلیت کی یادیں تازہ کر دیتے ہیں۔ روحانی بزرگوں اور عوام کو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے روشناس کرانے والے پیروں فقیروں کا دم غنیمت ہے۔ یہ روحانی پیاس بجھاتے ہیں اور لوگوں کو اپنے خالق حقیقی سے قرب کی راہ دکھاتے ہیں مگر شعبدہ باز اور نذرانہ ساز؟ الامان والحفیظ۔
جس پیر نے ایک معصوم بچی کو دو روز تک زمین میں زندہ دفن رکھنے کا مشورہ دیا وہ ذہنی مریض اور پرلے درجے کا سنگدل ہے کہ اُسے معصوم بچی کی زندگی سے زیادہ اپنے نذرانے کی فکر تھی اور اپنی جاہلانہ سوچ پر اعتماد ۔ یہ اکرم سے پہلے کتنے لوگوں کو اس طرح کے سنگین جرم کی ترغیب دے چکا ہے؟ کتنی معصوم بچیاں زندہ درگور ہو چکی ہیں؟ اور کتنے جاہل پیراس طرح کے عملیات پر یقین رکھتے ہیں؟ حکومت اور ریاستی اداروں کو کھوج ضرور لگانا چاہیے۔ یہ ظالم کسی نرمی کے مستحق نہیں ۔ مگر یہ کام کون کرے گا؟ جو خود اس طرح کے شعبدہ بازوں‘ نجومیوں‘ جوتشیوں اور عاملوں کی تلاش میں رہتے ہیں وہ کیسے کر سکتے ہیں۔ یہی ہمارا المیہ ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved