تحریر : ڈاکٹر اکرام الحق تاریخ اشاعت     20-02-2015

انصاف کہاں ہے؟

بطور وزیر ِ اعظم تیسری مدت کے لیے عہدہ سنبھالنے پر میاں نواز شریف یکے بعد دیگرے مختلف بحرانوں، جیسا کہ لوڈ شیڈنگ، معاشی انحطاط، دہشت گردی، امن و امان کی ناقص صورت ِحال، دھرنے، سیاسی تصادم، ٹارگٹ کلنگ، انصاف کی عدم فراہمی وغیرہ کی زد میں دکھائی دیتے ہیں۔ فوجی عدالتوںکے قیام سے بھی سول حکومت کی کمزوری کا تاثر ابھراکیونکہ یہ ایک کھلا اعتراف تھا کہ ہمارا قانونی نظام کارکردگی دکھانے میں ناکام ہو چکا ہے۔ سول سروس اور پولیس کی کارکردگی کی بھی یہی صورتِ حال ہے۔ آزادی کے سات عشروں کے بعد بھی شہریوں کو بنیادی انسانی حقوق حاصل نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دولت کا بھوکا اشرافیہ طبقہ قانون کی بے دھڑک پامالی کرتے ہوئے ملک اور اس کے وسائل کو اپنی جاگیر سمجھتا ہے۔ نظام کے زمین بوس ہونے کی بدترین مثال 17 جون 2014ء کا ماڈل ٹائون کا سانحہ تھا‘ جب پولیس نے شہریوں پر فائر کھول دیا۔ ایک درجن سے زائد شہریوں کی ہلاکت سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ کہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانا تو درکنار، پولیس نے کیس بھی درج کرنے سے انکار کردیا۔ کیس کی ایف آئی آر کہیں 28 اگست کو جا کر کاٹی گئی اور وہ بھی آرمی چیف کی ہدایت پر۔
دراصل پاکستان کا اصل مسئلہ یہی ہے کہ جو بھی اقتدار میں آجا ئے ، وہ خود کو مطلق العنان سمجھنے لگتا ہے۔ حکمران طبقہ نہ شہریوں کے انسانی حقوق کی پاسداری کرتا ہے اور نہ ہی اُسے اپنے احتساب کا ڈر ہوتا ہے۔ انصاف سے محرومی پاکستان کی ایک سفاک حقیقت ہے۔ اس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ مارچ 2009ء میں عدلیہ کی بحالی کے لیے چلنے والی تحریک اور اس سے بیدار ہونے والا نئے پاکستان کا جذبہ بہت مختصر ثابت ہوا۔ اس کے بعد قائم ہونے والی دونوں حکومتوں نے عدلیہ کے بہت سے احکامات سے کھلے عام روگردانی کی روایت قائم کی ۔ اس ضمن میں کراچی لااینڈ آرڈر ، مسنگ پرسنز، تیل اورچینی کی قیمتیں، رینٹل پاور پروجیکٹ کیسز وغیرہ کی مثالیں قابل ِ ذکر ہیں۔ بہت جلد حکمران طبقوں نے عوام کو احساس دلانا شروع کردیا کہ اُنہیں عدلیہ کے احکامات کی زیادہ پروا کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ حکمران ہیں جبکہ عدلیہ ان کے ماتحت ایک ادارہ ہے۔ 
جہاں تک پاکستان کے عام افراد کا تعلق ہے تو ان کی قسمت خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے۔ اُنہیں اپنے گلے سڑے عدالتی نظام میں کوئی اصلاح یا بہتری دکھائی نہیں دی حالانکہ عدلیہ کی بحالی اور جمہوری دور اور پُرامن انتقال ِ اقتدار سے بہت سی امیدیں وابستہ کی گئی تھیں۔ اُنہیں گمان گزرا تھا کہ ان کے حقوق کے تحفظ کے دن آچکے ہیں۔ اب وہ بھی آزادی کے ثمرات سے بہرہ مند ہوں گے وغیرہ۔ موجودہ دور میں سب سے پہلے عدلیہ پر تنقید کرتے ہوئے آصف زرداری نے اپنے خلاف ''قلم‘‘ کی سازش کا نعرہ لگایا۔ اعلیٰ عدالت پر الزام لگایا گیا کہ وہ ''من پسنداحتساب‘‘ کررہی ہے۔ پھر اصغر خان کیس کے حوالے سے بھی کہا گیا کہ عدالت طاقتور حلقوںسے کوئی باز پرس نہیں کرپارہی۔ اس کے علاوہ قانون کی سربلند ی کے بڑے بڑے دعووں کے باوجود سابق چیف جسٹس کے بیٹے کے کیس میں انصاف کے تقاضوں کی دھجیاں بکھرتی دکھائی دیں۔ اس پر ملک کے نامور وکلا اور سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کی طرف سے شدید تنقید بھی کی گئی۔ 
پاکستان میںچاہے جمہوریت ہو یا فوجی حکومت، دولت مند اور طاقت ور طبقہ حکومت میں شریک ہوکر پوری کوشش کرتا ہے کہ پاکستان کے عام شہریوں تک اختیارات کی منتقلی نہ ہونے پائے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد مقامی حکومتیں قائم کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی، چنانچہ گراس روٹ لیول پر عوام کے لیے تعلیم، صحت ، ہائوسنگ ، صفائی اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے مسائل اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ جہاں تک وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا تعلق ہے تو اُن کی دلچسپی کا محور میگا پروجیکٹس ہیں۔ عدلیہ آج بھی اپنے بہت سے احکامات کی تعمیل کرانے سے قاصر دکھائی دیتی ہے۔ چنانچہ طاقت سے محروم طبقے مایوسی کا شکار ہیں۔ وہ موجودہ دور کو بھی ماضی کا تسلسل ہی دیکھتے ہیں۔ گزشتہ اٹھارہ ماہ کے دوران موجودہ حکومت نے ثابت کردیا ہے کہ پاکستان میں ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کے لیے ارباب ِ سیاست اور دولت مند طبقے کے ساتھ روابط ضروری ہیں۔ مارچ 2009ء کی تحریک کے موقع پر قوم بہت پُرجوش تھی کہ اب ملک میں قانون کی حکمرانی کادور شروع ہوا چاہتا ہے اور یہ کہ سب لوگ، امیر غریب، قانون کے نگاہ میں برابر ہوں گے۔ اُنہیں توقع تھی کہ نمائندہ جمہوریت ان کے مسائل حل کرے گی لیکن اس کی بجائے اُنہیں ریاست کے مختلف عناصر کے درمیان تصادم اور محاذآرائی کی کیفیت دکھائی دی۔ 
کچھ عرصہ پہلے تک جمہوریت‘ ملک کے سب سے بڑے مسئلے‘ دہشت گردی‘ سے بھی لاتعلق اور کنفیوژن کا شکار تھی، لیکن آرمی پبلک سکول پشاور کے سانحے نے سب کو لرزا کررکھ دیا۔ سیاست دان بھی وقتی طور پر خواب ِ غفلت سے باہر آتے دکھائی دیے ۔ ایسا لگا جیسے سب مل کر دہشت گردی کے عفریت کے خلاف لڑنے کے لیے کمر بستہ ہیں لیکن یہ کیفیت دیر پا ثابت نہ ہوئی۔ قہر یہ کہ پشاور سکول جیسا المناک واقعہ بھی ان کے درمیان اتحاد پیداکرنے اور اُنہیں آمادۂ عمل کرنے میں ناکام رہا۔ مذہبی طبقے نے شروع میں تو دہشت گردوں کیخلاف اقدامات کی حمایت کی لیکن حسب ِعادت فوراً ہی اپنے الفاظ سے پھر گئے۔ قومی اتفاق ِرائے کے لیے کی جانے والی گھنٹوں پرمحیط کانفرنس کو ناکام بنانے اور کنفیوژن پھیلانے کی مہم کا آغاز کردیا گیا۔ 
اس طرح یہ انتہائی اہم مسئلہ بھی سیاست کی بھینٹ چڑھنے کے خدشے سے دوچار ہوجاتا اگر عسکری ادارے اس میں اپنی غیر متزلزل یک سوئی کا عملی اظہار نہ کرتے۔ 
وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور سیاسی جماعتیں‘ آرٹیکل 8اور 28میں درج بنیادی انسانی حقوق کی یقین دہانی کرانے کی بجائے اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کی سیاست کا محور مال سمیٹنے اور حریفوں پر کیچڑ اچھالنے کے سوا اورکچھ نہیں۔ وہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے عوام کو جھوٹے سچے خواب دکھاتے ہیں لیکن عوا م کو ان خوابوں کی تعبیر دکھائی نہیں دیتی۔ اگر حکمران آرٹیکل 140A کے تحت عوام کو حقوق دیں تو عوام میں ٹیکس ادا کرنے کا کلچر فروغ پائے گا۔ اس کے نتیجے میں حکمرانی اور ریاست کے فعالیت بہتر ہوتی جائے گی؛ تاہم یہ اُس وقت ممکن ہے جب حکمران اس سلسلے میں قدم اٹھاتے دکھائی دیں۔ 
پاکستان میں کنفیوژن کے پھیلائو میں سب ادارے شریک رہے ہیں۔ اس وقت عسکری اداروں کو جن عفریتوں سے لڑناپڑ رہا ہے، زیادہ عرصہ نہیں گزرا ، انہیں ''اثاثے‘‘ سمجھا جاتا تھا۔ مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے بھی قومی مقاصد کو مبہم التباسات کی نذر کرکے دھندلا دیا ہے۔ مذہب کی غلط تشریح کی وجہ سے ہم ایک ابنارمل ملک بنتے چلے گئے۔ آج ہم ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑے ہیںجہاں عسکری ادارے تو واضح پوزیشن لے چکے ہیں لیکن سیاسی طبقے نے عوام کی سوچ تبدیل کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا ہے۔ انہیں ایسا کرنے کے لیے مزید کتنے سانحات کے زخم درکار ہیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved