تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     20-02-2015

حکومتی توجہ کا طالب ایک سنگین مسئلہ

چوری اور ڈکیتی ہمارے ہاں روز کا معمول بن چکا ہے لیکن اب ماشاء اللہ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ خود حکومتی نمائندے تک اس سے محفوظ نہیں ہیں۔ یہ وقوعہ قومی اخبارات میں رپورٹ ہو چکا ہے کہ مورخہ 8 فروری شام سات بجے سانگلہ ہل میں چھ سات نقاب پوش آئے اور حکومتی ایم پی اے مسز حمید اختر کے ڈیرے سے‘ ملازموں کو یرغمال بنا کر ٹریکٹر‘ ٹرالی اور لاکھوں روپے کا اسلحہ لوٹ کر فرار ہو گئے۔ نقاب پوشوں نے ملازم خواتین کو مارا پیٹا؛ چنانچہ ایک ملزم کو ایک ملازمہ نے پہچان لیا اور ایک ملزم کے ڈرائیونگ لائسنس کی نقل بھی موقعہ سے برآمد ہو گئی۔ تھانہ سانگلہ صدر میں اس وقوعہ کی ایف آئی آر درج ہو چکی ہے لیکن ملزم چونکہ پولیس کے پروردہ ایک قبضہ گروپ سے تعلق رکھتے ہیں اور مقامی پولیس اہلکار مبینہ طور پر اس کے پے رول پر ہیں‘ اس لیے ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی۔ یہ لوگ اپنے اعزہ کے ہمراہ سانگلہ میں آباد کار کی حیثیت سے مقیم ہیں جو وہاں کے ایک قبضہ گروپ کو گوارا نہیں ہے۔ حتیٰ کہ وقوعہ سے قبل طرح طرح کی دھمکیاں بھی موصول ہوتی رہیں۔ ایک ایسا وزیراعلیٰ جو اپنی صحت کی قیمت پر دن رات کام میں مصروف رہتا ہو اور جس کی انتظامی
اہلیت کی ہر جگہ تعریف کی جاتی ہو‘ اس کے لیے اس طرح کے واقعات صحیح معنوں میں باعثِ تشویش ہونے چاہئیں جبکہ عام تاثر یہ بھی ہے کہ ارکان اسمبلی تک کو وزیراعلیٰ چھوڑ‘ سیکرٹری ٹو وزیراعلیٰ تک بھی رسائی حاصل نہیں ہے جس کے سامنے وہ اپنا دکھڑا بیان کر سکیں۔ غالباً ایسے ہی حالات سے مجبور ہو کر گورنر پنجاب نے استعفیٰ بھی دیا۔ 
اگرچہ ہمیں حکومت کے ناقدین میں شمار کیا جاتا ہے لیکن ہم دونوں میاں صاحبان کی ذاتی خوبیوں کے ہمیشہ سے معترف رہے ہیں جبکہ تنقید بھی اس لیے کی جاتی ہے کہ وہ اپنے معاملات کو سدھارنے کا کوئی جتن کریں حالانکہ کسی بھی حکمران کی تعریف کرنا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ اس تحریر کا مقصد بھی وزیراعلیٰ کی توجہ اس طرف منعطف کرانا ہے کہ اگر ایک حکومتی ایم پی اے کی جان و مال بھی محفوظ نہیں ہے اور اس کی کہیں شنوائی نہیں تو موجودہ حکومت کو خدا نے جو موقعہ دیا ہے اس کی قدر کرے اور یہ ثابت کرے کہ وہ واقعی اس کی مستحق بھی تھی۔
واضح رہے کہ مدعیہ کے میاں حمید اختر مرکزی حکومت میں جائنٹ سیکرٹری تھے لیکن وزیراعظم بینظیر بھٹو سے اختلاف کی بنا پر اتنی بڑی افسری سے استعفیٰ دے کر گھر چلے آئے۔ اور اگر صورتِ حال یہی رہی اور ان ستم رسیدگان کی شنوائی اور حق رسی نہ ہوئی تو ان باحمیت لوگوں کے لیے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دینا کوئی بڑی بات نہ ہوگا‘ جو صرف اور صرف حکومت کی بدنامی میں اضافہ کرے گا۔ پولیس کی حالت عمومی طور پر بھی قابلِ رحم ہے کہ یہ مکمل طور پر سیاست زدہ ہو چکی ہے۔ ہر پولیس اہلکار کے سر پر کسی نہ کسی رکن اسمبلی یا وزیر کا دستِ شفقت ضرور ہوتا ہے جو اس سے اپنی مرضی کے جائز و ناجائز کام کرواتا ہے ا ور اس کی بے جا حمایت کے لیے بھی مستعد رہتا ہے‘ جس سے یہ اہلکار بالکل ہی بے لگام ہو کر رہ گئے ہیں۔ وزیراعلیٰ کی طرف سے کئی بار پولیس میں اصلاح کا دعویٰ کیا گیا۔ اس ضمن میں ان کی تنخواہوں میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیا جاتا رہا ہے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ پولیس کا پرنالہ وہیں پر ہے جہاں پہلے تھا‘ حتیٰ کہ اس نے خود کئی ڈاکو پال رکھے ہیں جن سے یہ اپنا حصہ وصول کرتی ہے اور اس طرح عام آدمی چھوڑ‘ خاص لوگوں کی زندگی بھی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے۔ حکومت‘ جو دہشت گردی کا قلع قمع کرنے میں مصروف ہے‘ کو اس پولیس گردی کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے کیونکہ پولیس کی ہر ناجوازی کی ذمے دار حکومت ہی ٹھہرے گی۔ 
چونکہ اس کیس میں مظلوم خود حکومتی پارٹی کی ایک رکن اسمبلی ہے‘ اس لیے وزیراعلیٰ سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اسے اپنے لیے ایک ٹیسٹ کیس سمجھ کر اس سلسلے میں انصاف رسانی کی کوئی تدبیر کریں گے کہ بصورت دیگر یہ تاثر آہستہ آہستہ زائل ہوتا چلا جائے گا کہ ہر عام و خاص کے جان و مال کی ذمہ دار حکومت اور صرف حکومت ہے اور حکومت کو ایسے کاموں اور کوتاہیوں سے احتراز کرنا چاہیے جو اس کی بدنامی کا باعث بن سکتے ہیں کیونکہ اس سب کے باوجود پنجاب حکومت کی کارکردگی دوسرے صوبوں سے بہتر گردانی جاتی ہے اور حکومت کو نہ صرف اس تاثر کو قائم رکھنے بلکہ اس میں مزید بہتری لانے کی بھی کوشش کرنی چاہیے ورنہ ہم لوگوں کو تو ایک بہانہ ہی درکار ہوتا ہے کہ کب کوئی حکومتی کوتاہی یا غلط کاری نظر آئے اور کب ہم اس کا جلوس نکالنا شروع کردیں۔ 
چنانچہ حکومت کو چاہیے کہ اس انتہائی سنجیدہ اور نازک معاملے کو اپنے ہاتھ میں لے‘ اس کی مناسب ترین سطح پر انکوائری کرائے‘ ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچائے اور فریق ثانی کی حق رسی کر کے اپنا امیج درست رکھنے کی کوشش کرے ع شاید کہ ترے دل میں اُتر جائے مری بات۔ 
آج کا مطلع 
اس کو آنکھوں میں گھر بنا دیا ہے 
اور‘ بار دگر بنا دیا ہے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved