تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     20-02-2015

داعش یا پُرامن افغانستان

علامہ اقبالؒ نے اپنے ایک شعر میں افغانستان کے بارے میں کہا تھا '' ایشیاء آب و گل کا پیکر ہے اور اس پیکر میں افغان ملت کی حیثیت دل کی مانند ہے۔۔۔۔افغانستان میں اضطراب پورے ایشاء کو مضطرب کرے گا۔ اگر یہاں امن ہو گا تو پورے خطے میں امن ہو گا‘‘۔ اب یہ فیصلہ افغانستان کی نئی حکومت کے چیف ایگزیکٹو عبد اﷲ عبد اﷲ پر منحصر ہے کہ وہ القاعدہ کے اسامہ بن لادن کی طرز پر افغانستان کو بھارت کے کہنے پر داعش کا اکھاڑہ بنانا چاہتے ہیں یا اپنے صدر اشرف غنی کی خواہش کے مطا بق دنیا کے نقشے پر پُر امن اور ترقی یافتہ افغانستان کی تصویر دیکھنا چاہتے ہیں؟۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی نے اپنے گیارہ سالہ دور حکومت میں بھر پور کوشش کی تھی کہ پاکستان اور چین جیسے ہمسایوں کو افغانستان میں بٹھائے ہوئے اپنے دوستوں کی شکار گاہ بنایا جائے اور اسی طرح ا فغانستان کو بہت سے ممالک کے مفادات کا اکھاڑہ بنا کر رکھ دیا جائے۔ کرزئی نے بھارت کو پاکستان کے اندر دہشت گردی کا طوفان برپا کرنے کے جو مواقع فراہم کئے ان سے پاکستان کو لگنے والے زخموں کی شدت ابھی تک برقرار ہے۔ نئے صدر اشرف غنی کو بھی سردار دائود کی طرح روس اور بھارت کے حامی افسروں کا سامنا ہے لہٰذا اُن کیلئے ضروری ہو گا کہ وہ تاریخ پر نظر رکھیں۔ جیسے دائود کی حکومت میں خلق کے ایڈیٹر میر اکبر خیبر کو پراسرار طریقے سے قتل کروانے کے بعد روسی اور بھارتی ایجنٹ میدان میں نکل آئے تھے ،ہو سکتا ہے
کہ اشرف غنی کے ارادوں کو کمزور کرنے کے لیے افغانستان میں کوئی نیا کھیل برپا کر دیا جائے۔ اگر سردار دائود کی حکومت کچھ دیر اور رہ جاتی تو کمیونسٹ ،جو سردار دائود کے بعد پاکستان کے سب سے بڑے دشمن تھے ،اپنے ناپاک ارادوں سے افغانستان کو آگ کے گولے میں تبدیل کرنے میں ناکام ہو جاتے۔جب یہ مضمون لکھنا شروع کیا تھا توا س وقت تک سابق صدر جنرل مشرف کے گارڈین کو دیے گئے انٹرویو کی تفصیلات ابھی میڈیا پر نہیں آئی تھیں۔ صدر اشرف غنی احمد زئی کی اب تک کی کوششوں اور اقدامات کی منا سبت سے اپنے مضمون کا عنوان '' نیا افغانستان‘‘ منتخب کیا تھا۔ صرف جنرل مشرف ہی نہیں ،ہر وہ شخص جو جنوبی ایشیا میں ترقی اور امن کا خواہاں ہے وہ یہی سمجھتا ہے کہ اشرف غنی خطے میں امن کی آخری ا مید ہیں اور یہ امید اب کسی بھی صورت میں ٹوٹنی نہیں چاہئے۔ اشرف غنی کو بھارت کے افغانستان میں بنے ہوئے گہرے رابطوں کی وجہ سے بہت سی رکاوٹوں اور سازشوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ،اس کے با وجود وہ اپنے مشن پر ڈٹے ہوئے ہیں اور اگر انہیں حامد کرزئی کے گیارہ سالوں کا نصف عرصہ بھی قدرے سکون کے ساتھ حکومت کرنے کا موقع مل جائے تو وہ افغانستان کی ترقی اور خوشحالی
کی ایسی بنیادیں رکھ جائیں گے کہ آنے والی نسلیں سکون اور چین سے رہ سکیں گی۔وہ افغانستان جو بارود اور آگ کے ڈھیر میں بدل چکا ہے پھر سے دنیا کیلئے ثقافتی اور تجارتی سرگرمیوں کا باب دکھائی دے گا۔ اگر یہ کہا جائے تو قطعی غلط نہیں ہو گا کہ ایک ہی وقت وقوع پذیر ہونے والے دو عمل نئے افغانستان کی بنیاد رکھنے میں ممد و معاون ثابت ہوں گے جن میں سے ایک پہلی دفعہ 2014ء کے افغانستان میں پر امن اور شفاف انتخابات اور دوسرا امریکہ کی جانب سے چین کو افغانستان میں ایک دوست اور امن کے معمار کی حیثیت سے قدم رکھنے کے مواقع فراہم کرنا۔ 
آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دورہ امریکہ و برطانیہ کے اثرات و نتائج وقت کے ساتھ ساتھ ظاہر ہوتے رہیں گے، لیکن ایک بہت بڑی کامیابی جو سامنے نظر آنے لگی ہے وہ ان دونوں بڑی طاقتوں کی جانب سے پاکستان کو افغانستان کی ترقی اور استحکام کا محور تسلیم کرنا ہے ۔برسوں بعد امریکہ کی جانب سے اس سچائی اورزمینی حقیقت کو تسلیم کیا جانا سب کو حیرت زدہ بھی کر رہا ہے۔ آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر کا دورہ کابل اور صدر اشرف غنی سے ملاقات کے دوران دہشت گردی کے خلاف مشترکہ جنگ اور جدو جہد کیلئے باہمی معلومات کے تبادلے پر اتفاق اہم پیش رفت ہے۔ اسلام آباد اور کابل میں طرفین کی اہم ترین شخصیات کی آمد‘ کراس بارڈر دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے مفید رہے گی۔ دونوں ملکوں کا ملا فضل اﷲ کو اپنا مشترکہ دشمن قرار دینا اس بات کی علامت ہے کہ کابل اور اسلام آباد اب ایک دوسرے کی علاقائی سالمیت اور سرحدوں کا پورے خلوص کے ساتھ احترام کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔
افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبد اﷲ عبد ا ﷲ کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ ان کا جھکائو بھارت کی طرف ہے۔ وہ اور ان کے بعض دوسرے ساتھی،جن میں افغان افواج کے کچھ افسران اور خفیہ ایجنسیوں کے لوگ شامل ہیں ، بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھانا ضروری سمجھتے ہیں لیکن موجودہ حالات میں یہ بھارت نواز حلقے پاکستان مخالف پالیسی اختیار کرتے ہوئے اس حقیقت کو نظرانداز کر جاتے ہیں کہ اگر انہوں نے اس وقت جنرل راحیل شریف اور صدر اشرف غنی کا ساتھ نہ دیا یا ان کے امن کے راستے میں روڑے اٹکانے کی کوششیں کی تو اس کا سب سے زیا دہ نقصان خود انہیں ہو گا۔وہ یاد رکھیں کہ بھارت کو کچھ نہیں ہو گا لیکن بھارت کا ساتھ دینے اور اس کی تخریبی کارروائیوں میں اس کی مدد کرنے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ افغانستان میں القاعدہ اور طالبان کا اثر و رسوخ بڑھے گا جس کی انتہا داعش کی صورت میں ان کے سامنے آئے گی۔ بھارت نواز افغان حلقے جان لیں کہ ملا فضل اﷲ داعش کا ہی دوسرا نام ہے۔ اگر داعش ملا فضل اللہ کی انگلی پکڑ کر افغانستان میں داخل ہو گئی تو بھارت نوازوں کو اس کمبل سے کوئی نہیں چھڑا سکے گا۔ افغانستان میں وہ خونریزی ہوگی کہ لوگ ماضی کو بھول جائیں گے۔ اگر افغانستان کے تمام مکاتب فکر سنجیدگی اور دوراندیشی سے کام لیں تو انہیں ماننا پڑے گا کہ صدر اشرف غنی ہی افغانستان میں بسنے والی تمام لسانی و نسلی طبقوں کے نجات دہندہ ہیں، ورنہ داعش کے لیے افغانستان میں راہ ہموار کرنے والے ،عراق کے بعد افغانستان کو اپنی پناہ گاہ بنانے کا تہیہ کر چکے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ بھارتی قیا دت داعش کو افغانستان میں لانے کیلئے اس کے رستوں کو صاف کر رہی ہے تو غلط نہیں ہوگا۔اس لئے اب وقت آ چکا ہے کہ دونوں ممالک کی سکیورٹی فورسز باہمی تعاون کے ساتھ سرحد کے دونوں طرف دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو بلاتاخیر تباہ کردیں‘ اگر دیر کی گئی تو دہشت گردوں کے ٹھکانے داعش کی چھائونیاں بن جائیں گی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved