عمران خان نے بالکل ٹھیک کہا کہ ''ہمیں تو کوئی ڈکٹیٹر بھی کام کا نہیں ملا۔‘‘ یہ وہ بات ہے‘ جو میں گزشتہ 50برسوں کے دوران کئی بار لکھ چکا ہوں۔عام طور سے یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ جو حکومتیں کچھ کر کے دکھانا چاہتی ہیں‘ وہ جمہوری آزادیوں کی عیاشیوں کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔ کسی نہ کسی سطح پر سختی سے کام لینا پڑتا ہے۔ جمہوریت میں اگر کرپشن نہ ہو‘ تو بلاشبہ یہ ایک آئیڈیل طرزحکومت ہے۔ لیکن جب جمہوریت کے نام پر ایوان اقتدار میں تاجر اور لٹیرے آ کر بیٹھ جائیں‘ تو پھر کیا ہوتا ہے؟ بتانے کی ضرورت نہیں۔ سب کچھ آپ کے سامنے ہے۔ اب تو حالت یہ ہے کہ اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کی دوٹکے کی حیثیت نہیں۔ حکمران جب چاہتے ہیں‘ پارلیمنٹ سے اپنے حق میں تقریریں بھی کروا لیتے ہیں اور ووٹ بھی لے لیتے ہیں اور جب احتجاجی جلوس اور دھرنے ختم ہو جائیں‘ تو پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کی حالت پھر سے دریوزہ گروں جیسی ہو جاتی ہے۔ منتخب اراکین قانون سازی میں حصہ ہی نہیںلیتے بلکہ اس کا انہیں موقع ہی نہیں دیا جاتا۔ آرڈیننس آتے ہیں۔ حکمرانوں کا جب جی چاہتا ہے‘ پارلیمنٹ سے اس کی منظوری لے لیتے ہیں۔ کہیں جوابدہی نہیں ہوتی۔ کہیں کچھ سوال نہیں کیا جاتا اور نہ ہی عوام کے نام نہاد نمائندے‘ عوام کا کوئی مسئلہ ایوان میں پیش کرتے ہیں۔ صرف ایک شیخ رشید ہے‘ جو جابر سلطان سے پوچھے بغیر کلمہ حق کہنے کی کوشش کرتا ہے۔ سپیکر صاحب نے‘ ایوان کے اندر اس کی بھی زبان بندی کر رکھی ہے۔ اسے بولنے کی اجازت ہی نہیں ملتی۔ اگر وہ زبردستی بولنا چاہے‘ تو اس کا مائیک بند کر دیا جاتا ہے۔ سننے میں تو یہ بھی آیا ہے کہ شیخ رشید کو صاف بتا دیا گیا ہے کہ اسے ایوان کے اندر بولنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔عمران خان کی پارٹی گزشتہ انتخابات میں‘ ووٹوں کے معاملے میں‘ دوسرے نمبر پر تھی۔ سب سے زیادہ ووٹ ن لیگ نے لئے اور اس کے بعد تحریک انصاف تھی۔ لیکن اس جماعت کے ساتھ جو سلوک کیا گیا‘ اس نے پارلیمنٹ اور تین صوبائی اسمبلیوں سے لاتعلقی ہی اختیار کر لی۔ ان کے استعفے‘ سپیکر حضرات نے منظور کئے نہ مسترد۔ صرف سندھ اسمبلی کے سپیکر نے کہا تھا کہ ان کے استعفے منظور کر لئے گئے ہیں۔ لیکن پیپلزپارٹی کے سربراہ آصف زرداری نے اعلان کر دیا کہ تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کی رکنیت ختم نہیں ہوئی۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔
موجودہ جمہوریت بھائیوں کی ہٹی ہے۔ مسلم لیگ ن بھی بھائیوں کی ہٹی اور اپوزیشن اور حکومت بھی‘ بھائیوں کی ہٹی۔ وزیراعظم نوازشریف کے مفادات کا جتنا تحفظ‘ آصف زرداری کرتے ہیں‘ اتنا تو ان کی اپنی پارٹی بھی نہیں کرتی ہو گی۔ یاد کر کے دیکھ لیجئے‘ جب سیاسی بحران عروج پر تھا‘ توپارلیمنٹ کے اندر وزیراعظم کی سب سے اچھی وکالت‘ پیپلزپارٹی کے لیڈروں نے کی تھی یا ن لیگ کے لیڈروں نے؟ ن لیگ کے کسی لیڈر کی تقریر مجھے یاد نہیں، لیکن خورشید شاہ اور اعتزاز احسن کی تقریریں ‘ سیاست میں دلچسپی رکھنے والے کم و بیش سارے لوگوں کو یاد ہوں گی۔ مجھے یہ ثابت کرنے کے لئے دلائل کی ضرورت نہیں کہ موجودہ حکومت بظاہر تو جمہوری ہے لیکن غیرجمہوری رویوں میں ‘ ڈکٹیٹروں سے بھی آگے ہے۔ جن ڈکٹیٹروں نے‘ منتخب لیڈروں سے سینکڑوں گنا اچھا کام کر کے دکھایا‘ انہیں کیوں نہ جمہوری لیڈروں پر ترجیح دی جائے؟ جنوبی کوریا کی ترقی کا پہیہ ایک آمر نے ہی چلایا تھا۔ مہاتیر محمد کو بیشتر لوگ غیرجمہوری لیڈر کہتے تھے۔ لیکن انہوں نے ملائشیا کے عوام کو جو معیار زندگی دے دیا‘ وہ کوئی جمہوریت پسند نہیں دے سکا۔ نئے خوشحال اور کرپشن فری سنگاپور کی بنیاد لی کوان یو نے رکھی۔ ان کا طرزحکومت سخت گیری پر مبنی تھا۔ لیکن ایک ہی شہر پر مشتمل اس ملک کو جتنی طاقت اور خوشحالی ان کے دور میں حاصل ہوئی‘ وہ اپنی مثال آپ ہے۔ فیدل کاسترواور ہوگوشاویز نے‘ لاطینی امریکہ میں اپنے عوام کی زندگی ہی نہیں بدلی ، بلکہ آزادی کی ایسی لہریں اٹھائیں کہ ایک ایک کر کے‘ وہاں کے ملک تیزی سے عوامی جمہوریت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہم جمہوریت کے نام پر جو کچھ دیکھ رہے ہیں‘ اسے جمہوریت ہرگز نہیں کہا جا سکتا اور آپ جو چاہیں کہہ لیں، حقیقت میں یہ مافیا راج ہے۔ سندھ اور پنجاب کو آصف زرداری اور نوازشریف نے بھائیاں دی ہٹی بنا رکھا ہے۔ اپوزیشن ذرا بھی سر اٹھائے‘ تو دونوں آگے بڑھ کر اسے کچل ڈالتے ہیں۔ دھرنے کے دور میں جب حکومت کیلئے خطرہ پیدا ہوا‘ تو آصف زرداری فوراً اپنے بھائی کی مدد کے لئے‘ اسلام آباد آ کے بیٹھ گئے تھے۔ ماضی کے تجربات یہ ہیں کہ جیسے ہی نام نہاد جمہوری حکومت سے عوام تنگ آئے‘ تو جنرلوں نے آگے بڑھ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ ہماری بدنصیبی دیکھئے کہ آمریت ملی‘ تو وہ بری اور جمہوریت آئی تو وہ بدترین۔ کوئی بھی نظام مکمل طور پر گندا نہیں ہوتا، لیکن ہماری بدقسمتی کہ ہمارے ہاں جو بھی نظام آیا‘ وہ پہلے سے بدتر تھا۔
ایوب خان اور یحییٰ خان کے آمرانہ ادوار میں‘ جس طرح حاشیہ برداروں اور خوشامدیوں کی پرورش کی گئی‘ اس کے نتیجے میں ایک ایسا نیم سیاسی طبقہ معرض وجود میں آیا‘ جو حکومتی طاقت کو ذاتی مفادات کے لئے استعمال کرنے کا عادی تھا۔ جو نام نہاد جمہوری ادارے‘ ان دونوں آمروں نے کھڑے کیے‘ ان میں سے ایوب خان کی بنیادی جمہوریت ایک طبقاتی آمریت تھی، جس کے سربراہ ایوب خان تھے اور یحییٰ خان نے جو انتخابات کرائے‘ ان کے نتائج ہی قبول کرنے سے انکار کر دیا، جس کے نتیجے میں ملک دو لخت ہو گیا اور شکست خوردہ جنرلوں کو عوام نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ ایسے حالات میں بھٹو صاحب نے اپنے منتخب ساتھیوں کی اکثریت کے بل بوتے پر حکومت قائم کی اور سچی بات ہے‘ صرف وہی ایک ایسے حکمران تھے‘ جنہوں نے عوام کو ان کے حقوق دینے کے لئے معیشت میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کیں، لیکن آمروں کے پروردہ سیاسی مفاد پرستوں نے‘ پھر سابق حکمران جنرلوں کے ساتھ مل کر‘ بھٹو کو نہ صرف اقتدار سے نکالابلکہ انہیں پھانسی دے دی گئی۔ ضیاالحق کی آمریت نے‘ پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کر کے رکھ دیں۔ آج اسی جنرل ضیا کی پیدا کردہ سیاسی فصل ‘ اقتدار پر قابض ہے۔ جن نام نہاد اسمبلیوں کو جمہوری کہا جاتا ہے‘ وہ جنرل ضیا کی مجلس شوریٰ سے بھی زیادہ اطاعت گزار ہیں۔ ضیاالحق ‘ اپنی مجلس شوریٰ کا سپیکر مرضی سے نہیں رکھ سکا تھا۔ نوازشریف کے سامنے اسمبلی کے کسی بھی بااختیار شخص کو پرپھٹکنے کی اجازت نہیں۔ گزشتہ قریباً دو سال کا عرصہ ‘ ہماری معیشت کی تباہی کا دور ہے۔ اقتدار کو خاندانی تجارت کے فروغ کا دلیری سے ذریعہ بنایاگیا۔ جب تک بی بی زندہ تھیں‘ انہیں اپنی حکومت بچانے کے لئے رائج الوقت طریقے اختیار کرنا پڑے۔ پرویزمشرف کے زمانے میں بیرونی لٹیروں نے ‘ پاکستان کے سرکاری عہدے لے کر‘ اندھادھند لوٹ مچائی۔ جنرل مشرف کے بعد‘ پہلی باری آصف زرداری کی پیپلزپارٹی کو مل گئی اور تمام اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کو بزنس مینجر بنا کر‘ ہر طرف سے دولت سمیٹی گئی۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد‘ موجودہ حکومتیں قائم ہوئیں‘ تو ہمارا ملک بھائیاں دی ہٹی بن کر رہ گیا۔ ہم چار فوجی حکمران بھگتا چکے ہیں اور ان گنت وزرائے اعظم کا تجربہ کر چکے ہیں۔ ہمیں نہ جمہوریت راس آئی اور نہ آمریت۔ وقت نے ہمیں دھکے دیتے اور ٹھوکریں مارتے ہوئے‘ ایک عجیب مقام پر پہنچا دیا ہے۔ دہشت گردوں کی سرکوبی کے لئے جو تیاریاں ہو رہی ہیں‘ ان کے دوران اپیکس کمیٹی کا ایک آئیڈیا سامنے آیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے موجودہ مسائل کا یہ سب سے اچھا حل ہے‘ جو موجودہ فوجی قیادت نے پیش کیا۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ حالات نے ہمیں مجبور کر کے‘ اپیکس کمیٹی کی ترکیب تک پہنچا دیا۔ اس کی واحد وجہ موجودہ فوجی قیادت ہے‘ جو ملک میں کرپشن‘ دھڑے بندی‘ غیرذمہ داری اور برباد ہوتی ہوئی معیشت کی صورتحال سے انتہائی پریشان ہے۔ ماضی کے فوجی سربراہوں نے حالات میں ذرا سی خرابی کو بھی اقتدار پر قبضہ کرنے کا بہانہ بنا لیا۔ آج کی صورتحال جتنی بدترین ہے‘ ماضی میں کسی وقت بھی نہیں تھی۔ جنرل راحیل شریف اگر اقتدار کے خواہش مند ہوتے‘ تو میرا خیال ہے‘ وہ موجودہ کرپٹ لیڈرشپ سے نجات دلا کر عوام کی دعائیں لیتے اور سڑکوں اور گلیوں میں عوام‘ ان پر پھول برساتے۔ لیکن شہیدوں کے خاندان کا فخرمند سپاہی‘ اقتدار کا خواہش مند نہیں۔ ملکی حالات کو بہتر بنانے کے لئے اپنی سی کوششیں کر رہا ہے۔ان کوششوں کے دوران اپیکس کمیٹیوں کا جو تصور سامنے آیا ہے‘ اس کے ذریعے ہم کرپشن‘ نااہلی اور بدعنوانی سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ پاکستان کی ہر وزارت اور ہر ادارے پر ایک اپیکس کمیٹی نگرانی کے لئے قائم کر دی جائے‘ جس میں صرف دو یا تین فوجی افسر ہوں اور متعلقہ وزارت کے لئے درکار مہارتیں رکھنے والے‘ عالمی سطح کے اعلیٰ تعلیم یافتہ مشیروں کواپیکس کمیٹی کے فوجی اراکین کی معاونت کے لئے رکھ لیا جائے۔کسی بھی طرح کا حکومتی لین دین خواہ بیرونی حکومتوں کے ساتھ ہو یا مقامی ٹھیکیداروں ‘ سپلائرز اور سروسز کے شعبوں میں ‘ جب تک حتمی فیصلہ اپیکس کمیٹی نہ کرے‘ کسی فیصلے پر عملدرآمد نہ کیا جائے۔ اس طرح ہم فوجی حکومت سے بھی بچ جائیں گے اور کرپشن بھی جڑوں سے اکھڑ جائے گی۔ پانچ سال تک فوج اور سیاستدانوں کا یہ مشترکہ نظام چل گیا‘ تو انشاء اللہ قومی سرمائے کی لوٹ مار ختم ہونے سے ہمیں اتنا کچھ بچنے لگے گا کہ قرضوں کی ضرورت رہے گی اور نہ بہانے بہانے سے عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنا ممکن رہے گا۔ ہمارے حکمران جس طرح گلے گلے تک کرپشن کی دلدل میں دھنس چکے ہیں‘ وہ خود بھی اس دلدل کے اندر دفن ہو کر تباہ ہوں گے اور ہمیں بھی کریں گے۔ انہیں اور عوام کو بچانے کے لئے‘ یہی ایک راستہ ہے‘ جو اپیکس کمیٹی کی شکل میں ‘ ضروریات نے ہمارے لئے دریافت کیا ہے۔مجھے گماں ہے کہ رستہ یہیں سے نکلے گا۔فوج کی طاقت ‘ کرپشن کو ختم کرنے کا کام بالواسطہ اپنے زیرنگرانی شروع کر دے‘ تو سمجھ لیں کہ اب آیااونٹ پہاڑ تلے۔کرپشن کے اس اونٹ کا ہم تو کچھ نہیں بگاڑ پائے، لیکن فوج کی طاقت کے سامنے‘ چوروں کی نہیں چل سکے گی۔ (ختم شد)