تحریر : طاہر سرور میر تاریخ اشاعت     22-02-2015

’میرا سلطان‘ کے دیس میں… (2)

چار دن کی زندگی کی طرح ترکی کا یہ دورہ بھی یوں تو چار دن کا تھا‘ لیکن برادر مسعود نے جس طرح ہمیں متحرک رکھا‘ ہم نے وقت ضائع کئے بغیر وہاں بہت کچھ دیکھا اور سیکھا۔ 17 فروری کی شام لاہور واپسی کے لیے ایئرپورٹ میں داخل ہوئے تو ہر ٹی وی چینل یہ خبر نشر کر رہا تھا کہ شدید برف باری کی وجہ سے ٹریفک کو روک دیا گیا ہے۔ پورے آٹھ بجے ترکی ایئرلائن کی خوبرو ایئر ہوسٹس نے ہمیں بیلٹ باندھنے کے لئے کہا۔ ہم اس کا حکم بجا لائے‘ اس کے باوجود جہاز دو گھنٹے تک وہیں جوں کا توں کھڑا رہا۔ اس لمحے ہمیں منو بھائی کے گھر ریواز گارڈن چوبرجی کے نزدیک کھڑا وہ جہاز یاد آیا جس میں بچوں کو ستاروں اور کہکشائوں پر مبنی فلمیں دکھائی جاتی ہیں۔ کپتان نے اعلان کیا کہ برف باری چونکہ شدید ہو رہی ہے اس لیے جہاز فلائی نہیں کر پا رہا۔ میں جہاز کی کھڑکی سے باہر رن وے پر پڑنے والی برف دیکھ رہا تھا جس نے ایئرپورٹ پر دور تک کھڑے جہازوں کو دودھیا کر دیا تھا۔ میں ترکی میں گزارے ان لمحات اور واقعات کو بھی یاد کر رہا تھا‘ جو ان چار دنوں میں تہہ در تہہ میرے دل و دماغ میں برف کی طرح جم گئے تھے۔
روزنامہ ''زمان‘‘ کے ڈپٹی ایڈیٹر مصطفی نے پہلے تو ہماری غلط فہمی دور کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ طیب اردواں آج کے اتاترک نہیں، وہ ایک کرپٹ فرد اور ایسے ڈکٹیٹر ہیں‘ جو اپنی حکومتی پالیسیوں پر تنقید کے عمل کو دہشت گردی قرار دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ انہوں نے بتایا کہ طیب اردواں اپنے سیاسی مخالفین اور صحافیوں کو دہشت گرد قرار دے رہے ہیں جبکہ حقائق یہ بتاتے ہیں کہ شام میں ہونے والے دہشت گردی اور داعش کی معاشی سرپرستی کرنے والے ہمارے موجودہ حکمران ہیں۔ استنبول میں ہم ایک بہت بڑے نیوز چینل کے مرکزی دفتر گئے تو وہاں بھی ہماری ملاقات ڈپٹی چیئرمین سے ہی ہوئی۔ وجہ وہی تھی کہ اردواں حکومت نے ادارے کے سربراہ کو دہشت گرد قرار دے کر جیل بھجوا دیا تھا۔ ان کے ایک تفریحی چینل پر پانچ برس قبل نشر کئے گئے ایک ڈرامے کے سکرپٹ پر اعتراض کیا گیا تھا۔ ہمارے ہاں چیئرمین اور اس طرح کے بڑے صحافتی عہدوں کے لئے بہرحال ضمانت قبل از گرفتاری کی سہولت موجود ہے۔ ترکی میڈیا ہائوسز میں مجھے اپنے پاکستانی صحافی ہونے پر عافیت محسوس ہوئی اور خیال آیا کہ آزادیء صحافت کی قدروں کے حوالے سے ہم شدید تضادات اور امتیازی صورت حال کا شکار ہیں‘ لیکن یہ سچ ہے کہ ہمارا میڈیا سویلین حکمرانوں اور سیاستدانوں کے کڑاکے نکال دیتا ہے۔ یہ معرکہ سر کرتے ہوئے کسی مائی کے لال کی یہ ہمت نہیں کہ ہم صحافیوں کو جیل بھیج سکے۔ ہمارے بہادر اینکر پرسنز سویلین حکمرانوں کی کرپشن کے تو پھٹے چُک دیتے ہیں‘ لیکن غیر سویلین ادارے ان کے لئے مقدس گائے سے بھی ارفع مقام رکھتے ہیں۔ میڈیا کے یہ کن ٹُٹے اور اشوکا ''دی گریٹ‘‘ اینکر پرسنز سویلین حکمرانوں کے لئے گبر سنگھ بن جاتے ہیں جبکہ غیر سویلین کے سامنے ان کی دال نہیں گلتی۔ خدا ان شاہین بچوں کو مکمل آزادیء صحافت کے بال و پَر دے تاکہ یہ اڑان بھرتے ہوئے جانبداری کی جھوک نہ مارا کریں۔
ترکی میں ''حزمت موومنٹ‘‘ کے بانی فتح اللہ گولن کے قائم کردہ سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور ہسپتالوں میں جانے کا موقع بھی ملا‘ جن کا نظم و ضبط، صفائی ستھرائی، عمارات، جدید نظام تعلیم اور طریقہ کار دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی۔ مذکورہ اداروں میں ہماری ملاقات اساتذہ کے ساتھ ساتھ طالب علموں سے بھی ہوئی‘ جنہیں مل کر واضح احساس ہوا کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی اخلاقی تربیت بھی کی گئی ہے۔ Feteullah Schools دنیا کے 163 ممالک میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اتنے زیادہ ممالک میں تو امریکی فوجی بھی موجود نہ ہوئے ہوں گے۔ مذکورہ اداروں میں طالب علموں کے لئے مذہب کی کوئی قید نہیں‘ سبھی ایک چھت کے نیچے بیٹھ کر دنیا کی جدید تعلیم سے آراستہ ہوتے ہیں۔ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے یہ طالب علم مشترکہ طور پر جھوٹ، بدعنوانی، جنسی اور قومی تفریق اور ہر قسم کے انسانی استحصال اور دہشت گردی سے نفرت کرتے ہیں۔ ان اداروں سے وابستہ اساتذہ کا ذاتی اور سماجی کردار بھی بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ مراد یہ ہے کہ مختلف ذرائع اور طریقہ کار سے جانچ پڑتال کے اس عمل کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ ان اداروں سے وابستہ اساتذہ کسی قسم کی غیراخلاقی عادات میں تو مبتلا نہیں ہیں۔ ہمارے مشاہدے میں یہ آیا کہ ان اداروں سے وابستہ افراد غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ مشنری زندگی گزارنے کی راہ پر عمل پیرا ہیں۔
ترکی میں صرف چند دن گزارنے کے بعد مغرب اور مشرق کی دوہری روایات رکھنے والے اس معاشرے کے بارے میں کسی قسم کی پیشین گوئی کرنا ایسے ہی ہے جیسے ہمارے پسندیدہ شیخ رشید ہر شام کسی نہ کسی ٹاک شو میں حکومت کے خلاف پیشین گوئی فرماتے ہیں۔ لیکن بحیثیت قوم ترکوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ زیادہ عرصہ ظلم اور استحصال برداشت نہیں کرتے۔ جنگ عظیم اول کے بعد خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے ساتھ جن نئی اقوام کا ظہور ہوا، جدید ترکی ان کی اگلی صفوں میں کھڑا تھا۔ جدید ترکی عظیم لیڈر مصطفی کمال کی تخلیق تھا‘ جس نے اپنے وطن کو قرون وسطیٰ سے بیسویں صدی میں لاکھڑا کیا اور مغربی سامراجیوں کو شکست دے کر مشرق کے نصب العین کو آگے بڑھایا۔ مصطفی کمال ایک فوجی لیڈر تھے۔ یہ ترکوں کی خوش قسمتی رہی ہے کہ ان کے فوجی لیڈروں نے ترکی کو مضبوط بنایا جبکہ ہمارے فوجی حکمرانوں کے ہاتھوں پاکستان شکست و ریخت کا شکار ہوتا رہا۔
ترکی معاشرے اور ترک قوم میں گر کر سنبھلنے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ یہ شہادت ہمیں تاریخ بھی فراہم کرتی ہے۔ ترکی میں ہماری ملاقاتیں صحافیوں کے علاوہ تھنک ٹینکس سے بھی ہوئیں۔ ان سب کا کہنا تھا کہ ان کے موجودہ حکمران اندرونی اور بیرونی سطح پر انہیں مسائل کے غار کی طرف لے جا رہے ہیں۔ وہ سب طیب اردواں رجیم سے بیزار ہیں لیکن حقیقت پسند ہونے کی وجہ سے فوری کسی بہت بڑی تبدیلی کی پیشین گوئی نہیں کرتے۔ ان سب کا کہنا تھا کہ آنے والے جون میں ترکی کے عام انتخابات ہوں گے‘ جن میں طیب اردواں ہی جیتیں گے‘ لیکن وہ اس قدر اکثریت حاصل نہیں کر پائیںگے کہ غیر آئینی اور غیر جمہوری اقدامات کا تسلسل جاری رکھ سکیں۔ موجودہ حکمرانوں کے ناقد اور ترکی میں مقبول رہنما فتح اللہ گولن‘ جو ایک عرصہ سے جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں‘ کا کہنا ہے کہ ماضی میں ترکی مسلمان اکثریت کا قابل رشک ملک ہوا کرتا تھا۔ ترکی عالمی انسانی حقوق، جنسی مساوات، قانون کی بالادستی، کردوں سمیت غیر مسلم شہریوں کے حقوق اور جمہوریت کو فعال بنانے کے علمبردار کی حیثیت سے یورپی یونین کی ممبرشپ حاصل کرنے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ یہ تاریخی موقع اب ترکی کی حکمران جماعت کی وجہ سے ضائع ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ ترکوں کو اپنی اس محرومی کا احسا س ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اسے طیب اردواں اور احمد دائود اوغلو کی سیاسی جماعت 'اے کے پی‘ (عدل و ترقی جماعت) کی ناکامی قرار دیتے ہیں۔
فتح اللہ گولن اور ان کے حامیوں کا کہنا ہے: فرض کریں موجودہ حکمران آنے والے الیکشن میں جیت جاتے ہیں۔ اس صورت میں بھی انہیں آئین سے انحراف اور اختلاف رائے کو بغاوت سمجھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ وہ اس خیال کو بھی رد کرتے ہیں کہ موجودہ حکمرانوں کی عوامی مقبولیت قائم ہے۔ الیکشن کے بارے میں مخالفین کا کہنا ہے کہ ایسے الیکشن کو کیا نام دیا جائے‘ جس میں جیت کے لیے سرمایہ کاری اور میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کیا جائے۔ ترکی سے پہلے بھارت میں بھی مودی سرکار قائم کرنے کے لئے یہ فارمولا استعمال کیا گیا تھا۔
17 فروری کی یخ بستہ رات ہم نے استنبول سے لاہور کے لئے اڑان بھری تو وہاں شدید برف باری ہو رہی تھی۔ ایئرپورٹ کے عملے نے ہمارے جہاز پر ایک خاص قسم کا سپرے کیا‘ جس سے اس پر جمی ہوئی برف پگھلی اور جہاز واپسی کے لئے اڑان بھر سکا۔ استنبول کے اتاترک ایئرپورٹ سے اڑنے کے چند گھنٹے کے بعد جب لاہور کے علامہ اقبال ایئرپورٹ پر اترے تو یوں لگا جیسے سمندر سے دوبارہ دریا بلکہ کیمپس والی خشک نہر میں اتر آئے ہوں۔ اتاترک اور علامہ اقبال دونوں ہی انٹرنیشنل ایئرپورٹ ہیں‘ لیکن ایک آباد اور دوسرا سنسان تھا۔ اتاترک ایئرپورٹ پر صرف ایک دن میں 12 سو پروازیں آتی اور جاتی ہیں۔ دوسری طرف کراچی ایئرپورٹ پر دہشت گردی کے سانحہ کے بعد بہت سی انٹرنیشنل ایئرلائنز نے ہمارے ایئرپورٹوں پر اپنے جہاز اتارنا بند کر دیے ہیں۔ دہشت گردی سے نبٹنے کے لئے قوم تو متحد ہے لیکن اس عذاب کو دعوت دینے میں قوم اور عوام کا زیادہ ہاتھ نہیں ہے۔ دہشت گردی کے جنات کی پیدائش کیسے ہوئی اور اس جن کو بوتل سے کس نے نکالا‘ اس کا تعین ہونا بھی ضروری ہے۔
دعا ہے پروردگار ترکی اور پاکستان کے عوام کو اپنا اچھا بُرا سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ دونوں ممالک کے عام لوگوں کے دکھ درد اس وقت تک دور نہیں ہوں گے جب تک وہ حکمران الیٹ سے اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کا مکمل اختیار حاصل نہیںکر لیتے۔ (ختم)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved