یہ شعر مسعود احمد کا گویا شناختی کارڈ ہے ؎
تجھ کو بھولوں‘ کوشش کر کے دیکھوں گا
ویسے دریا اُلٹا بہنا مشکل ہے
لیکن میں اس کے پہلے مصرع کو اس طرح پڑھتا ہوں ع
تجھے بھلائوں‘ کوشش کر کے دیکھوں گا
کیونکہ پہلی صورت میں یعنی ''تجھ کو بھولوں‘‘ کا زیادہ تر مطلب یہ نکلتا ہے کہ تو مجھے بھول جائے۔ نیز کوشش بھولنے کے لیے نہیں بلکہ بھلانے کے لیے درکار ہوتی ہے۔
آپ اوکاڑہ سے طبع پُرسی کے لیے فون کرتے ہیں تو اپنا ایک آدھ شعر بھی چھوڑتے ہیں لیکن اب انہوں نے شعر بقدرِ جُثہ بھیجے ہیں۔ آپ بھی دیکھیے:
ہاتھ پائوں ہلا رہا ہوں میں
اپنا ملبہ اٹھا رہا ہوں میں
مجھے تو نے بنایا خاک سے‘ اور
خاک سے کیا بنا رہا ہوں میں
بہتر تو ہوئی ہے مری رفتار کی صورت
میں چلنے لگا ہوں کسی دیوار کی صورت
چہرے پہ ہویدا وہی آثارِ ہزیمت
دیکھی نہیں جاتی مرے سالار کی صورت
یہ کیسے تذبذب میں مجھے رکھا ہے تو نے
اقرار کی صورت کبھی انکار کی صورت
اک شخص کے جانے سے یہ لگتا تو نہیں تھا
اس طرح بدل جائے گی گھر بار کی صورت
رات بستر پہ گر کے چُور ہوئے
دن نکلتے ہی خود کو جوڑ لیا
ٹھوکروں میں مری زمانہ تھا
اپنی ٹھوکر سے میں دونیم ہوا
اکٹھا کر نہ سکا جب میں جیتے جی ان کو
تو میں نے مر کے یہ پسماندگان ایک کیے
رنگ موسم بھی بدل سکتا ہے گرگٹ کی طرح
یہ مئی جون میں برفیلا بھی ہو سکتا ہے
سانپ کا کاٹا نہیں مانگتا پانی‘ لیکن
آدمی سانپ سے زہریلا بھی ہو سکتا ہے
یہ تذکرے جو ہمارے تمہارے باقی ہیں
زمیں پہ لگتا ہے اب بھی ستارے باقی ہیں
ہمیں تو پُشتوں سے مسعودؔ اس کی عادت ہے
ذرا بُرے نہیں لگتے اب اس نکیل میں ہم
یہ اشک جب کبھی آنکھوں پہ زور ڈالتے ہیں
بدن کی کان سے تازہ نمک نکالتے ہیں
اسی لیے تو رگوں میں یہ زہر دوڑتا ہے
ہم آستیں میں نہیں‘ دل میں سانپ پالتے ہیں
میں رہگزر سے الگ راستہ بنا رہا ہوں
کسی کے پیچھے نہیں‘ اپنے پیچھے جا رہا ہوں
تمہارا ہاتھ پکڑ کر جو عرض کرنی تھی
ذرا سی بات کو کب سے گھما پھرا رہا ہوں
مسعودؔ سخن فہمی کا دعویٰ نہیں‘ لیکن
کمزور ہیں‘ غالبؔ کی طرفداری کریں گے
کسی کروٹ‘ کسی پہلو قرار آنے کا خدشہ ہے
ہماری زندگی میں بھی بہار آنے کا خدشہ ہے
ہمیں مٹی کیے رکھا ہماری خاکساری نے
مزید اس عاجزی میں انکسار آنے کا خدشہ ہے
ہم اپنے پائوں پر چل کر پہنچ سکتے ہیں مقتل تک
مگر اس راستے میں کوئے یار آنے کا خدشہ ہے
یہی تشویش ہے اس روزنِ زنداں کے بارے میں
یہاں سے روشنی کے بار بار آنے کا خدشہ ہے
ہمارے درد کے قصے بیان کر کر کے
سخنوروں میں بڑا معتبر بنا ہوا ہے
میں اپنی حد سے تجاوز کروں تو کیسے کروں
مرا مزار مری ذات پر بنا ہوا ہے
کچھ تو دیوار کھڑی کرتے ہوئے سوچنا تھا
راستہ راستہ ہے‘ بند نہیں ہو سکتا
بُتکدے سے خدا نکالتے ہیں
پتھروں کی ہوا نکالتے ہیں
آج کا مقطع
کسی الجھن میں پڑے رہتے ہیں دن رات‘ ظفرؔ
اور‘ اس کام سے رخصت بھی نہیں چاہتے ہم