تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     22-02-2015

تماشا جاری رہنا چاہیے!

جس طرح اخبارات کی رپورٹنگ میں چند جُملے لازم و ملزوم سے ہوگئے ہیں مثلاً بارش سے نظام زندگی برہم ہوگیا (خواہ موسم خوشگوار ہوگیا ہو اور لوگ جُھوم اُٹھے ہوں) اُسی طرح سندھ حکومت نے بھی چند معاملات کو اپنے حتمی معمول میں تبدیل کرلیا ہے۔ اِن معمولات میں چند پابندیاں بھی شامل ہیں۔ مثلاً جب بھی کراچی کے باشندے کسی معاملے میں خوش ہو رہے ہوتے ہیں تب صوبائی حکومت ڈبل سواری پر پابندی عائد کرنے کو اپنا فرضِ عین تصور کرتی ہے۔ اسلحے کی نمائش پر پابندی بھی ایک ایسا ہی معمول ہے۔ شہر بھر میں لوگ جدید ترین آتشیں اسلحہ لے کر دندناتے پھر رہے ہوتے ہیں اور سرکاری دستاویزات پابندی کا راگ الاپ رہی ہوتی ہیں۔
اب سندھ حکومت نے ریچھ اور کُتّے کی لڑائی پر پابندی عائد کردی ہے۔ ایک نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ بندر اور ریچھ کا تماشا دِکھاکر بھیک مانگنا سخت ممنوع ہے۔ جو بھی ایسا کرے گا اُس کے خلاف کارروائی ہوگی۔
ریچھ اور کُتّے کی لڑائی کا تماشا دِکھاکر گھر کا چولھا جلانے والے اِس پابندی سے کِتنے متاثر ہوں گے یہ تو ہم نہیں جانتے مگر ہاں اِتنا ضرور ہے کہ لوگ ایک دلچسپ اور سبق آموز تماشے سے محروم ہوجائیں گے۔
ریچھ اور کُتّے کی لڑائی سندھ کے دیہی علاقوں میں بہت مقبول ہے۔ لوگ اِن دونوں کو گُتّھم گُتّھا دیکھ کر بہت محظوظ ہوتے ہیں۔ آپ سوچیں گے کہ ہم اِس تماشے عائد پابندی کو غلط قرار دے کر سَفّاکی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ عامل صحافی ہونے کے ناتے اب ہم ایسے تماشوں کے اِتنے عادی ہوچکے ہیں کہ اِن سے محظوظ ہونے کی حِس سے محروم ہوچکے ہیں مگر صاحب، سچ یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں ریچھ اور کُتّے کی لڑائی پر فی الحال پابندی عائد نہ کی جائے۔
بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شہر کی سڑکوں پر یا دیہات کے میدانوں میں بندر اور ریچھ کے تماشے عوام کی تفریحِ طبع کے لیے ہوتے ہیں۔ یہ سادہ لوحی کی انتہا ہے۔ کسی نے کبھی جانوروں کا موقف جاننے کی کوشش کی؟ ایسا ہی مُغالطہ چڑیا گھر میں بند جانوروں کے حوالے سے بھی پایا جاتا ہے۔ لوگ اپنے بچوں کے ساتھ تفریح کے لیے چڑیا گھر کا رُخ کرتے ہیں۔ اگر ہم جانوروں کی بولیاں سمجھنے کے قابل ہوجائیں تو جان پائیں گے کہ شہر بھر سے لوگوں کا اہلِ خانہ کے ساتھ چڑیا گھر آنا دراصل وہاں بند جانوروں کے لیے تفریح کا سامان ہے! کبھی آپ نے سوچا ہے کہ لوگ چڑیا گھر میں جانوروں کے پنجروں کے سامنے کھڑے ہوکر کیا کیا حرکتیں کرتے ہیں؟ اُن کی اوٹ پٹانگ حرکتوں سے جانور ہنستے ہنستے بے حال ہوجاتے ہیں اور کبھی کبھی تو حیران رہ جاتے ہیں! بے چارے بے زبان ہیں اِس لیے بول نہیں پاتے اور احتجاج اِس لیے ریکارڈ نہیں کرا پاتے کہ اُنہیں پریس کلب تک جانے نہیں دیا جاتا!
سندھ حکومت نے ریچھ اور کُتّے کی لڑائی پر پابندی اِس لیے لگائی کہ یہ جانوروں پر ظلم ہے۔ جانوروں پر ظلم ڈھانے کی تو اور بھی کئی صورتیں ہیں۔ اور پھر تماشے بھی اِتنے ہیں کہ اگر حکومتیں پابندی عائد کرنے پر آئیں تو اور کچھ نہیں کر پائیں گی۔ اب کون سا تماشا ہے جو پابندی عائد کئے جانے کی ''اہلیت‘‘ پر پُورا نہیں اُترتا؟ شہر ہو یا گاؤں، قدم قدم پر تماشے ہیں۔ اور تماشے بھی ایسے کہ ہنسی چُھوٹے تو قابو میں نہ آئے اور آنکھ رونے پر آئے تو مُدّتوں دامن کو تر ہی رکھے!
ہم ایسی سرزمین پر رہتے ہیں جہاں لوگ اولاد کے حُصول کے لیے کسی کی اولاد کو اغواء کرکے ''پیر صاحب‘‘ کے حوالے کردیتے ہیں۔ اور وہ اُسے عملیات کی نذر کردیتے ہیں۔ اب یا تو وہ پرائی اولاد جان سے جاتی ہے یا پھر اَدھ مُوئی حالت میں واپس ملتی ہے۔ اِس تماشے پر پابندی کب لگائی جائے گی؟
یہی وہ سرزمین ہے جہاں زندگی جیسی نعمت کو اُٹھائی گیرے اور اُچکّے محض سو پچاس روپے کے لیے ختم کر ڈالتے ہیں۔ سڑک پر دن دیہاڑے کسی کو لُوٹا جارہا ہو اور اگر وہ کچھ بول پڑے تو آن کی آن میں اُس کے سَر پر گولی مارنے سے دریغ نہیں کیا جاتا۔ یہ تماشا کب ختم ہوسکے گا؟
اور یہی وہ سرزمین جہاں کسی کو سرکاری نوکری مل جائے تو ہاتھ پیر ہلائے بغیر آنے والی سات نسلوں کے سُکھ چین کا سامان کر جاتا ہے۔ اِس تماشے کی راہ کب مَسدُود کی جائے گی؟
جہاں اِتنے تماشے چل رہے ہیں وہاں ریچھ اور کُتّے کی لڑائی میں ایسی کون سی قباحت ہے کہ اُس پر پابندی لگائی جائے؟ جنگل کے درندوں میں ایسی کون سی سَفّاکی پائی جاتی ہے جو اِنسانوں کے مُہذّب ماحول میں ناپید ہے؟ یہ جنگلی جانور عقل سے عاری ہونے پر بھی چند ایک چند اُصولوں اور قواعد کے پابند ہوتے ہیں۔ اللہ نے اِتنی توفیق تو اِنہیں بھی دی ہے کہ پیٹ بھر جائے تو محض دِل پشوری کے لیے شکار نہیں کرتے، بلا جواز جہاں تہاں مُنہ مارتے نہیں پھرتے۔ پیٹ بھرے کی مستی کے مُظاہرہ اِنہوں نے اِنسانوں کے حصے میں رہنے دیا ہے!
جو تھوڑی بہت عقل ہمیں ودیعت کی گئی ہے اُسے استعمال کرکے ہم تو اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ریچھ، کُتّے، بندر اور بکرے کا تماشا دِکھانے والے بظاہر سَفّاک تفریح فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے کو بہت کچھ سِکھا بھی رہے ہیں۔ اِن کی شبانہ روز محنت سے آج کا انسان بہت سیکھ سکتا ہے۔ ہم چاہیں گے کہ ریچھ اور کُتّے کی لڑائی جیسے تماشے دیکھنا اِس ملک کے ہر اُس آدمی کے لیے لازم قرار دے دیا جائے جو آج تک مُفت کی روٹیاں توڑتا آیا ہو۔ جو لوگ شہروں میں رہتے ہوئے جنگلی ماحول والی زندگی بسر کر رہے ہیں اُنہیں بھی تو معلوم ہونا چاہیے کہ جنگل میں بھی وہ لا قانونیت نہیں ہوا کرتی جو اُنہوں نے شہروں میں اپنا رکھی ہے! جنگلی جانوروں کے تماشے دیکھنا نئی اور پُرانی دونوں نسلوں کے لیے ناگزیر سا ہے کیونکہ اُنہوں نے بہت کچھ جب دیکھا ہی نہیں تو سیکھتے کیسے۔
جن لوگوں نے اِس مُلک کے وسائل کو شیرِ مادر سمجھ کر پینے کا سلسلہ جاری رکھا ہے اُنہیں ریچھ اور کُتّے کی لڑائی کا تماشا ضرور دِکھایا جائے تاکہ اُنہیں بھی کچھ اندازہ ہو کہ پیٹ بھر کھانے کے لیے بے زبان جانوروں کو کِن کِن جاں گُسل مراحل سے گزرنا پڑتا ہے! یہ تماشا اُن کے لیے بھی تازیانہ ثابت ہونا چاہیے جو قومی وسائل پر نقب لگانے والوں کو بخوشی جھیل رہے ہیں۔
جو لوگ شہروں میں جنگل کا قانون نافذ کرنے پر تُلے رہتے ہیں اُنہیں اندازہ ہونا چاہیے کہ جنگل میں پیٹ بھرنے کے لیے یومیہ بُنیاد پر کِس نوع کی جدوجہد کرنی پڑتی ہے، کِس کِس طرح جان کی بازی لگانی پڑتی ہے! جنگل میں کسی کو کچھ بھی بیٹھے بٹھائے نہیں مل جایا کرتا۔ جو کچھ بھی درکار ہو وہ حاصل کرنا پڑتا ہے۔ روزانہ معرکہ آرائی ہوتی ہے اور ''جو جیتا وہی سِکندر‘‘ والی بات جیتے جاگتے منظر کی شکل میں آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے۔
بے زبان جانوروں کو لڑاکر روزی روٹی کمانا قبیح فعل سہی مگر خُون میں لَت پَت یہ جانور ہمیں اِتنا ضرور سِکھاتے ہیں کہ اِس دُنیا میں کچھ بھی اُسی وقت ملنا چاہیے جب مسابقت کے میدان میں زور آزمائی کا حق ادا کیا جائے۔ ریچھ اور کُتّے اپنا خُون بہاکر اُن کم ظرف اور بے حِس اِنسانوں کی سوئی ہوئی غیرت کو ٹھوکر ضرور مارتے ہیں جو کچھ کئے بغیر، محض سازش اور مفاہمت کے کاندھوں پر سوار ہوکر، پُرتعیّش زندگی کے میلوں کا سارا مزا لُوٹ رہے ہیں۔
اگر جانوروں کے تماشوں پر پابندی ابھی کچھ عرصہ نہ لگائی جائے تو شاید ہمارے ہاں کچھ لوگ جدوجہد کا ہُنر سیکھ سکیں اور کچھ کر گزرنے کا سوچیں۔ جب تک یہاں کے اِنسان بیدار نہیں ہوتے، پیٹ بھرنے کے لیے جانوروں کی تگ و دَو کا تماشا جاری رہنا چاہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved