گزشتہ دنوں پاکستانی اخبارات میں قطر سے گیس کی خریدار ی کو ایک سکینڈل کی صورت میں اچھالا گیا‘ الزام تھا کہ حکومت پاکستان‘ قطر سے کھلی مارکیٹ میں دستیاب‘ ایل این جی کو دوگنا نرخوں پر خرید رہی ہے۔ اس الزام کی سرکاری طور پر تردید کر دی گئی ‘لیکن لاہور کی ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف نے اس الزام پر رنج کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے اپنے ہی ملک کا میڈیا‘ ان کی کوششوں کوبے بنیاد افواہوں کے ذریعے‘ عوام کی نظروں میں مشکوک بنارہا ہے۔ اس انٹرنیشنل ڈیل کا پس منظر جاننے کی کوشش کی گئی ‘تو مجھے وزیراعظم کا شکوہ‘ اپنی جگہ درست نظر آیا۔پہلے تو یہی بات غلط ہے کہ پاکستان صرف قطر سے گیس خرید رہا ہے۔ قطر‘ ان ملکوں میں سے ایک ہے‘ جن سے پاکستان گیس حاصل کرنے کے لئے مذاکرات کر رہا ہے۔قطر کے علاوہ ایران کی گیس پائپ لائن کے سودے میں‘ نا مساعد حالات کے باوجود‘ بتدریج پیش قدمی ہو رہی ہے۔جیسے ہی امریکہ کی طرف سے پابندیوں میں محدود کمی کی جائے گی‘ ہمارا یہ سودا جو پہلے سے طے شدہ ہے‘ اس پر بغیر کسی تاخیر کے عمل درآمدشروع ہو جائے گا۔ایران‘ اپنے علاقے میں پاکستان کی سرحد تک پائپ لائن مکمل کر چکا ہے‘ جیسے ہی گیس کی فراہمی کا حتمی سودا ہو گیا‘سات سے آٹھ ماہ کے اندر‘ ایران سے گیس کی سپلائی شروع ہو جائے گی۔ افغانستان سے ترکمانستان کی گیس پائپ لائن پر مذاکرات جاری ہیں۔ اس پائپ لائن کی تنصیب میں ایشیائی ترقیاتی بینک مالیاتی وسائل مہیا کرے گا۔اسے دور جدید کی سلک روڈ کا ایک حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔اس پائپ لائن کی تعمیر پر7.6بلین ڈالر خرچ ہوں گے۔اگربھارت‘ اس پائپ لائن سے منسلک ہو گیا تو وہ بھی جدید سلک روڈ سے‘ استفادہ کرنے والوں میں شامل ہو جائے گا۔اس منصوبے کا خاکہ ملٹی آئل کمپنیوں نے تیار کیا اور اس کی ابتدا1990ء میں ہوئی تھی۔واضح رہے کہ شرق اوسط کی ریاستوں سے ہونے والی برآمدات کی‘ تمام پائپ لائنیں‘ روس کے کنٹرول میں ہیں۔یہ کمپنیاں متبادل راستوں سے بھی‘پائپ لائن گزارنے کا جائزہ لے رہی ہیں۔ مارچ 1995ء میں ترکمانستان اور پاکستان ‘پائپ لائن کے منصوبے پر ایک معاہدہ کر چکے ہیں۔اس پائپ لائن کی تعمیر میں متعدد دیگر کمپنیاں بھی شریک ہونا چاہتی ہیں‘ جن میں امریکہ کی مشہور کمپنی یونو کول اور سعودی کمپنی سے بھی مذاکرات ہو رہے ہیں۔برونائی‘ چین اور ملائشیا سے گیس کی فراہمی کے لئے‘ ایک اور منصوبے پر کام ہو رہا ہے۔پاکستان ان کے علاوہ بھی متعدد ملکوں سے گیس کی فراہمی کے لئے مذاکرات کررہا ہے۔ان میں آسٹریلیا‘ نائیجریا ‘ انڈونیشیا‘ الجزائر‘ روس اورسلطنت مسقط و عُمان شامل ہیں۔ چین خود بھی گیس کا امپورٹر ہے لیکن وہ اسے پراسس کر کے کم نرخوں پر برآمد کر سکتا ہے۔ چین کی کمپنی چائنا پٹرولیم ‘ گوادر سے نواب شاہ تک 7سوکلو میٹر تک سڑک تعمیر کرے گی۔ یہ چین اور پاکستان کا مشترکہ منصوبہ ہو گا۔ان میں سے بیشتر منصوبوں کے مکمل ہونے کی تاریخیں 2017ء تک رکھی گئی ہیں۔ ظاہر ہے کہ وزیراعظم نوازشریف کی حکومت‘ عام انتخابات سے پہلے‘ گیس کے منصوبے پایہ تکمیل
تک پہنچانے کے لئے کوشاں ہے۔اگر ان سارے منصوبوں پر حسب توقع کام بروقت مکمل ہو گیا تو حکومت پاکستان کا یہ دعویٰ حقیقت کے قریب نظر آتا ہے کہ پاکستان کو2018ء ختم ہونے سے پہلے گیس کی فراہمی شروع ہو جائے گی‘ جس کے بعد لوڈشیڈنگ برائے نام رہ جائے گی ۔ 22.5ارب کا یہ منصوبہ مکمل ہونے کے بعد ‘بجلی کا بحران قریب قریب ختم ہو جائے گا ۔ نوازشریف نے بجلی کا بحران ختم کرنے کے لئے انتخابی مہم کے دوران قوم سے جو وعدے کئے تھے‘ ان کی کوششوں کو دیکھ کر‘ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے اہداف کی طرف ‘ تیز رفتاری سے بڑھ رہے ہیں۔
قطر کی پائپ لائن سے 15سال تک ہماری ضرورت کی گیس مہیا ہوتی رہے گی۔پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ قطر‘سالانہ تین ملین ٹن گیس مہیا کر ے گا۔قطر سے درآمد ہونے والی اس گیس پر سالانہ ڈیڑھ بلین ڈالر خرچ ہوں گے اور کل پندرہ سال کی مقررہ مدت میں جو کل گیس درآمد ہو گی‘ وہ 22.5 بلین ڈالر مالیت کی ہو گی لیکن گیس کے نرخ عالمی مارکیٹ سے مربوط رہیں گے۔ اس میں نرخوں کی کمی بیشی کو جذب کرنے کی گنجائش ہو گی۔پاکستان دیگر ذرائع سے جو گیس درآمد کرنے کی کوشش کر رہا ہے‘ ان کے نتیجے میں اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ تین سال تک درآمدی گیس کی مقدار سات ملین ٹن تک پہنچ جائے گی۔ظاہر ہے کہ قطر اپنے موجودہ وسائل کے ساتھ‘ تین سال کے مختصر عرصے میں تیل کی سپلائی‘ تین چار گنا نہیں کر پائے گا۔حکومت پاکستان ایک علاقائی کمپنی کے ساتھ مل کر ‘ علیحدہ ٹرمینل بھی تعمیر کر ے گا ۔ یہ ٹرمینل کراچی کے نزدیک پورٹ قاسم پر ہو گا۔ پاکستانی حکام جس تیز رفتاری کے ساتھ‘ قطر کی حکومت اور متعلقہ کمپنیوں سے مذاکرات کر رہے ہیں‘ ان سے بھی پتہ چلتا ہے کہ پورٹ قاسم کا ٹرمینل مکمل ہونے کے بعد بھی‘ پاکستان بجلی پیدا کرنے کی تمام ضروریات پوری نہیں کر پائے گا اور پاکستان کو بجلی پلانٹ چلانے کے لئے‘ فرنس آئل اور ڈیزل کی درآمد جاری رکھنا پڑے گی ۔ ظاہر ہے ان پلانٹس سے حاصل ہونے والی بجلی ‘دوسرے منصوبوں کے مقابلے میں مہنگی پڑے گی۔ اس کے لئے‘ متعلقہ وزارت کوبجلی پیدا کرنے پر آنے والے اخراجات کی روشنی میں قیمت کا تعین‘ مجموعی اخراجات کی روشنی میں کرنا پڑے گا۔تمام سستی اور مہنگی توانائی یعنی تھرمل‘فرنس آئل اور ڈیزل سے جو بجلی پیدا ہو گی‘اس میں مجموعی طور سے فی یونٹ کی قیمت‘ یکساں تناسب کے ساتھ مقرر کرے گی‘ جس سے ظاہر ہے کہ تھرمل بجلی کے ارزاں نرخوں کو ملا کر‘ جب نرخوں کا تعین کیا جائے گا تو صارفین کو ان کی قوت خریداری کے مطابق بجلی ملنے لگے گی۔گیس سے بجلی بنانا ‘ ایک اور اعتبار سے بھی پاکستان کے لئے فائدہ مند ہو گا کیونکہ ایل این جی سے بجلی کی پیداوار تیز رفتار ہونے کے ساتھ‘ ماحول کو زیادہ آلودہ نہیں کرے گی
جیسے کہ کوئلے‘فرنس آئل اور ڈیزل سے آلودگی پھیلتی ہے۔اندازہ لگایا گیا ہے کہ تین ملین ٹن گیس تیار کرنے پر جو خرچ آئے گا‘ اس سے ہونے والی بچت کا تخمینہ‘ سالانہ تین سو ملین ڈالر تک ہو سکتا ہے کیونکہ گیس سے پیدا ہونے والی بجلی پر 7سے 9 فیصد اخراجات کم آئیں گے‘ جس کا فائدہ یہ ہو گا کہ جو پلانٹ اس وقت خراب پڑے ہیں‘ ان میں دوبارہ پیداوار شروع کی جا سکے گی۔ جیسے جیسے گیس سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس نصب ہونا اور چلنا شروع ہوں گے‘ بجلی کے پیداواری اخراجات میں کسی حد تک کمی ہوتی رہے گی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پاکستان کے جاری اخراجات میں بچت کا سب سے بڑا ذریعہ ہو گا۔اس وقت پاکستان مقامی گیس سے جو بجلی استعمال کر رہا ہے‘ اس میں کمی ہونے سے گیس کے ضیاع اور ماحول میں شفافیت کا اضافہ ہو گا۔قطر بھی اپنے خریداروں میں اضافہ کر سکے گا اور پاکستان نئی پائپ لائنوں کی تعمیر اور ان میں گیس کی فراہمی کی گنجائش بڑھا کر‘قابل ذکر بچت بھی کر پائے گا۔قطر‘ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ گیس پیدا کر رہا ہے اور ایل این جی کی ایکسپورٹ میں وہ سب سے آگے ہے۔ اس وقت گیس کی خریداریوں کے سودے‘ جتنی جلد مکمل ہوں گے‘ اسی قدر پاکستان کو فائدہ رہے گا۔خریداروں کو گیس کی قیمتوں میں ہونے والے اضافوں اور فراہمی کا تسلسل برقرار رکھنے میں سہولت بھی رہے گی اور فائدہ بھی ہو گا۔آسٹریلیا اور امریکہ‘ چند ہی سالوں میں تیل پیدا کرنے کے جدید طریقوں میں وسعت لا کر‘ مارکیٹ میں توانائی کے ذخیرے مزید بڑھا دیں گے۔قطر‘ پاکستان کے ساتھ گیس کی فروخت کا معاہدہ کر کے‘ خود بھی فائدے میں رہے گا۔ قطر‘ گلف ریاستوں میں سب سے زیادہ متحرک اور موثر خارجہ پالیسی پر عمل کر رہا ہے اور مسلم دنیا میں اپنا اثر ورسوخ بڑھانے میں بھی دلچسپی رکھتا ہے۔صرف قطر سے جتنی گیس لینے کا منصوبہ ہے ‘ جب وہ پوری مقدار میںدرآمد ہونے لگے گی تو اس سے پاکستان میں بجلی کی پیداواری صلاحیت 3ہزار6سو میگا واٹ ہو جائے گی۔ یہ ہمارے ملک میں بجلی کی کل ضروریات کا64فیصد حصہ ہو گا۔انرجی مارکیٹ کے ایک ماہر نے بتایا کہ پاکستان کوئلے سے بجلی بنانے کی تیاریاں بھی کررہا ہے۔ ہر چندگیس اور کوئلے کے استعمال سے ماحول میں جو آلودگی پیدا ہوتی ہے‘ اس کا پیداوار ی اخراجات سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ کوئلے سے پیدا ہونے والی بجلی اتنی سستی ہو گی کہ گیس سے پیدا ہونے والی بجلی اس کے مقابلے میں کہیں زیادہ سستی ہو گی۔ اس سرسری سے جائزے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نوازشریف حکومت‘ گیس فروخت کرنے والے کل 18ملکوں میں سے آٹھ دس کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے لہٰذا یہ الزام بھی بے بنیاد ہو جاتا ہے کہ شریف خاندان‘ صرف قطر سے گیس خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اس کے برعکس‘ ایک سے زیادہ ذرائع استعمال کئے جا رہے ہیں۔ امریکہ اور آسٹریلیا‘ دونوں نیا میٹریل استعمال کر کے‘ تیل کے استعمال سے بڑی حد تک آزاد ہو چکے ہیں۔پاکستان‘ ان خوش قسمت ملکوں میں ہے‘ جس کے پاس شیل کے لامحدود ذخیرے پائے جاتے ہیں۔ یہ ریت جیسا ایک میٹریل ہے‘ جسے ریفائن کر کے انرجی میں بدلا جا سکتا ہے۔وہ وقت دور نہیں‘ جب پاکستان اپنی توانائی کی ضروریات‘ اپنی ہی سر زمین کے قدرتی وسائل سے پوری کرنے لگے گا۔