تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     23-02-2015

! Someone should cry \"Halt\"...

کب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا؟ کب تک گونگے ، اندھے اور بہرے بن کر یہ تماشا ہم دیکھتے رہیں گے ؟ کوئی اٹھے ، کوئی کھڑا ہو اور کوئی بات کرے ۔ دونوں ہاتھوں سے مملکتِ خداداد پاکستان کو لوٹا جا رہاہے ۔ Someone should cry "Halt"...!۔ 
کیسی ہولناک خبر ہے مگر کس رواروی میں چھاپی اور پڑھی گئی۔ دبئی حکومت کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق صرف 2013ء اور 2014ء میں پاکستانی سرمایہ داروں نے 445ارب روپے کی جائیداد وہاں خریدی ہے ۔ مالی سال اگر وہاں بھی جون میں تمام ہوتاہے تو اس کے بعد ساڑھے سات ماہ؟ 2013ء سے پہلے کے برسوں میں ، جب وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار کے صاحبزادے سمیت ، ہزاروں پاکستانیوں نے وہاں کاروبار کا آغاز کیا؟صرف ایک پاکستانی کے بارے میں بتایا جاتاہے کہ پندرہ برس کے دوران وہ آٹھ بلین ڈالر، 816 ارب روپے بیرونِ ملک منتقل کر چکا۔ 
یہ اعداد و شمار تب سامنے آئے ہیں ، جب عمران خان اور اسحٰق ڈار کے درمیان ایک تلخ اور تکلیف دہ بحث جاری ہے ۔ اوّل الذکر کا کہنا ہے کہ وزیرِ خزانہ نے چالیس لاکھ ڈالر دبئی بھیجے۔ دوسرے کا دعویٰ ہے کہ بھیجے نہیں، منگوائے ہیں۔ صاحبزادے کو قرض دیے تھے ، اس نے لوٹا دیے ۔ سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ بھیجے گئے تو واپس آئے ۔ کمال جسارت کے ساتھ انہوں نے ارشاد کیا ہے کہ اپوزیشن لیڈر کے ذہن میں کوئی غلط فہمی موجود تھی تو اب رفع ہو جانی چاہیے۔ 
کون سی غلط فہمی ؟ یہ تو ظاہر ہے کہ سمندرپار جو کاروبار فروغ پذیر ہے ، اس کے لیے کروڑوں کا سرمایہ ریگ زا رمیں نہیں اگا۔ پاکستان سے بیرونِ ملک پہنچا۔ملک کا وزیرِ خزانہ اگر اپنے وطن کو سرمایہ کاری کے لیے موزوںنہیں سمجھتا تو اس کا مطلب کیا ہے ؟ پھر جیسا کہ بجا طور پر پوچھا گیا:یہ دولت کس طرح حاصل کی گئی ۔ کیا اس پہ ٹیکس ادا ہوا؟ اعتزاز احسن کا ایک انٹرویو یاد آتاہے، جو وزیرِاعظم میاں محمد نواز شریف کے وکیل رہ چکے ۔ 1995ء اور 1996ء میں میاں صاحب نے صرف 500روپے سالانہ کے حساب سے انکم ٹیکس ادا کیا تھا ۔ اسی پس منظر میں عمران خان یہ جملہ بار بار دہراتے رہے کہ میاں صاحب کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مالی مدد فراہم کی جانی چاہیے۔ 
چار سال ادھر ٹی وی کا ایک مذاکرہ یاد آتاہے ، جب یہ سوال اٹھانے کی جسارت کی کہ ملک کی سب سے بڑی پارٹی کے سربراہ منی لانڈرنگ کے مرتکب ہیں ۔ نون لیگ کے ترجمان کیپٹن صفدر نے دعویٰ کیا کہ یہ بینکوں سے حاصل کر دہ قرض ہے۔ دنیا بھرمیں شریف خاندان کی کاروباری ساکھ نہایت عمدہ ہے ۔ میزبان اگرچہ مستعد آدمی تھا مگر اسے حدیبیہ پیپر مل کا خیال نہ آیا، جس کے لیے برطانوی بینک سے حاصل کردہ تیس ملین ڈالر کے قرض پر لندن کی ایک عدالت کو احکامات جاری کرنا پڑے تھے۔ حدیبیہ پیپر مل پہ اسحٰق ڈار کا اعترافی بیان عدالت میں موجود ہے۔ ثانیاً اتفاق گروپ پر حاصل کردہ قرض وہ پندرہ برس تک نہ لوٹا سکے ۔ بالآخر اسے فروخت کر دیا گیا۔ ثالثاً یہ کہ دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں ، جہاں سو فیصد آپ بینک کے سرمایے سے کاروبار 
فرما سکیں۔ ''اتفاق‘‘ کی خریدو فروخت بھی ایک پراسرار داستان ہے لیکن یہ پھر کبھی ۔ اس دوران سعودی عرب میں شریف خاندان کی قائم کردہ سٹیل مل کا ذکر بھی ہوتا رہا ، جس کے تقریباً تمام ملازمین کا تعلق بھارت سے واقع ہوا تھا۔ وہی بھارت ، جس کے باب میں چوہدری نثار علی خاں نے امریکہ میں ارشادفرمایا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کا کوئی موقعہ وہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ کوئی سیاسی پارٹی بیرونِ ملک سرمایے کی منتقلی پر ماتم نہیں کرتی ۔ بھرپور مہم تو دور کی بات، اعداد و شمار مہیا کرنے کی زحمت بھی نہیں کی جاتی۔ خود میڈیا بھی معاملے کے صرف سیاسی پہلو پر بات کرتا ہے ۔اس پہ ہرگز نہیں کہ سرمایہ اگر بیرونِ ملک فرار ہوتا رہے گا تو ملک میں مزید ملازمتیں کیسے اور کیونکر پیدا ہوں گی ۔ بے روزگاری کا مارا ہوا تیسری دنیا کا ایک ایسا ملک ، جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مبتلا ہے ، اس عیاشی کا متحمل کیسے ہوگا؟ 
وزیرِ خزانہ کے اعترافی بیان سے آشکار ہے کہ سرمائے کی آزادانہ آمدورفت پر قانون کا خوف ہرگز انہیں لاحق نہیں ۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ سرحدیں سرمایے کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ۔ اگر ایسا ہے تو اپنے آپ سے ہمیں سوال کرنا چاہیے کہ اس ملک کا معاشی مستقبل کیا ہوگا؟ 
کرکٹ میچ کا المناک حادثہ ہوا تو جناب نجم سیٹھی بھی لوگوں کو یاد آئے ۔یہ کہ لندن میں وہ کروڑوں روپے مالیت کا ایک عدد فلیٹ رکھتے ہیں ۔ ڈیڑھ سال قبل ناچیز نے انکشاف کیا تھا کہ واشنگٹن میں موصوف کی جائیداد دس کروڑ روپے مالیت رکھتی ہے ۔ ایف بی آر کی طرف سے انہیں ایک کروڑ روپے ٹیکس ادا کرنے کا حکم دیا گیا، جسے اب تک کامیابی سے وہ ٹال رہے ہیں۔ اس انکشاف کے فوراً بعد موصوف کو کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بنادیا گیا۔ پھر حکومت نے انہیں اس عہدے پر بحال رکھنے کی سرتوڑ جدوجہد کی ۔کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وزیرِ اعظم کے نزدیک منی لانڈرنگ کوئی جرم نہیں، نہ ہی ایف بی آر کے احکام کی اہمیت ہے۔ خود ایف بی آر کو بھی کوئی پرواہ نہیں۔ چیئرمین سمیت، جن کی دیانتداری کا بہت چرچا تھا، سب کے سب مہر بہ لب ہیں ۔ 
اقتصادی رابطہ کمیٹی کے جس اجلاس میں ، وزیرِ خزانہ نے میثاقِ جمہوریت کی طرح میثاقِ معیشت کی بات کی ، ایف بی آر کے چیئرمین بھی موجود تھے ۔ شرکاء کو انہوں نے نئے ٹیکس دہندگان کے با رے میں بتایا۔ کیا پرانوں سے وصولی کی جا رہی ہے ؟ حکومت کے دو ہی بنیادی کام ہوتے ہیں ۔ امن و امان اور ٹیکس وصولی۔ امن و امان کا عالم یہ ہے کہ سندھ میں ایک ماہ کے دوران، امورِ داخلہ کے تین سیکرٹری تبدیل کیے جا چکے ۔ ہر روز ایک نیا سکینڈل سامنے آتاہے ۔ پیپلزپارٹی کے درجنوں رہنما ایشیائی نیلسن منڈیلا کے نقوشِ قدم پر چلتے ہوئے گذشتہ چھ برس کے دوران دبئی میں کاروبار جما چکے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہرِ نامدار سرے محل سے لاتعلقی کا اعلان کرتے رہے تا آنکہ بیچ دیا گیا ۔ زرداری صاحب کو تب یاد آیا کہ وہ تو ان کی مِلک تھا۔ عدالت میں انہوں نے مقدمہ دائر کیا کہ نسیان کے مرض نے انہیں بھلا دیا تھا؛ چنانچہ رقم انہیں دے دی گئی ۔ 
کوئی ایک بھی پوچھنے والا ہے ؟ کوئی عدالت، کوئی افسر؟کوئی حاکم ؟ سب کے سب سو گئے ؟ 
میں دیکھا قصرِ فریدوں کے در اوپر اک شخص
حلقہ زن ہو کے پکارا کوئی یاں ہے کہ نہیں ہے 
ایک صدی ہوتی ہے ، جب اقبالؔ نے کہا تھا : گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بینکوں کی عمارات... اور یہ کہا تھا ؎ 
خواجہ از خونِ رگِ مزدور سازد لعلِ ناب 
از جفائے دہ خدایاں کشت دہقاناں خراب
خونِ رگِ مزدور سے خواجہ ہیرے ڈھالتاہے اور جاگیردار کے ہاتھوں میں دہقاں کی فصل برباد ہے ۔ دہشت گردی الگ ۔ ملک کی زراعت اور صنعت دم توڑ رہی ہے ۔ کراچی کے چھوٹے بڑے 50ہزار صنعتی یونٹ بند ہو چکے اور یہ سلسلہ جاری ہے ۔ 
کب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا؟ کب تک گونگے ، اندھے اور بہرے بن کر یہ تماشا ہم دیکھتے رہیں گے ؟ کوئی اٹھے ، کوئی کھڑا ہو اور کوئی بات کرے ۔ دونوں ہاتھوں سے مملکتِ خداداد پاکستان کو لوٹا جا رہاہے ۔ Someone should cry "Halt"...!۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved