تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     23-02-2015

مقدس مریم کا انتظار

1956ء میں سائنس فکشن مووی ''Forbidden Planet‘‘ میںایک قدیم مخلوق کو دکھایا گیا ہے جس نے ایسا طریقہ ایجاد کرلیا تھا جس کی مدد سے منفی جذبات کو الیکٹرو مگنیٹک غیر مرئی جسم میں ڈھالا جاسکتا تھا۔ اس ایجاد نے monsters of the id کو تخلیق کیا۔ تاہم غیر مرئی الیکٹرو مگنیٹک مخلوق نے بے قابوہوکر سیارے پر موجود تمام جانداروں کو ہلاک کردیا۔ میں نے یہ فلم بہت عرصہ پہلے دیکھی تھی لیکن اس کا موضوع میرے ذہن سے کبھی محو نہیں ہوپایا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نسل ِ انسانی بھی اس دنیا میں ایسی بلائوں کو تخلیق کرسکتی ہے جو بے قابو ہوکر زمین پر سے تمام زندگی کا خاتمہ کرسکتی ہیں۔ جب میں گزشتہ نصف صدی پر نظر دوڑاتاہوںتو احساس ہوتا ہے کہ زمین پر زندگی کا خاتمہ کرنے کے لیے دیگر سیاروں کی غیر مرئی مخلوق کی ضرورت نہیں، ہمارے ہاں تاریخ، تعصب، نظریات، عقائد اور انسان کی فطری وحشت و درندگی یہ کام بخوبی سرانجام دینے کے لیے کافی ہیں۔ درحقیقت ان بلائوں کی وجہ سے ہم تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ 
اگر آپ قیاس کرتے ہیں کہ یہ خدشہ مبالغہ آرائی پر مبنی ہے تو ذرادنیا پر ایک نظر دوڑائیں تو آپ ہر طرف جنگ، تنائواور تصادم کی فضا دیکھیں گے۔وقت گزرنے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ریاستیں غیر فعال ہوتی جارہی ہیں۔ دنیا کی آ بادی دھماکہ خیز انداز میں، بلاروک ٹوک بڑھنے کی وجہ سے دستیاب زمین اور پانی کی قلت کا پیدا ہونا لازمی امر ہے۔ چنانچہ حیرت کی کوئی بات نہیں اگر مختلف وجوہ کی وجہ سے ہونے والے تشدد سے خائف ہوکر اپنی جان بچانے کے لیے لاکھوں افراد اپنے گھربار چھوڑ کر فرار ہورہے ہیں۔ 
جس دوران پاکستان اور لیبیا جیسے ممالک سے لوگ مہذ ب اور محفوظ زندگی کی تلاش میں مغرب کا رخ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک اپنی دیواریں اونچی کرتے جارہے ہیں۔اب انہوں نے اپنی سرحدوں پر ''کوئی جگہ نہیں ہے‘‘ کے اشتہارات لگانا شروع کردیے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ تمام والدین اپنے بچوں کے لیے بہترین ماحول چاہتے ہیں۔۔۔۔ ایسا ماحول جس میں کوئی اُنہیں تکلیف نہ دے۔۔۔ لیکن ناکام ہوتی ہوئی ریاستوں میں ایسے ماحول کے امکانات کم ہوتے جارہے ہیں۔ دوسری طرف کامیاب ریاستیں ان افراد کو اپنے ہاں جگہ دینے کے تیار نہیں۔ 
جب 1990ء میں سوویت یونین منہدم ہواتو ایک موہوم سی امید پیدا ہوئی تھی کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ہم ایک پرامن دنیا دیکھیں گے۔ رجائیت پسند افراد کا خیال تھا کہ جب دنیا میں دوطاقتوںکے درمیان محاذآرائی نہیں ہوگی تو پراکسی جنگوں یا تصادم کے خطرے سے امان پاتے ہوئے دنیا جہالت اور غربت کے خاتمے کے لیے مل کر کوشش کرتی دکھائی دے گی، اور یوں انسان کے دیرینہ مسائل حل کیے جائیں گے۔ عالمی امن کی وجہ سے دفاعی اخراجات میں کمی لاکر عام افراد کو فوائد پہنچانے کی بات بھی کی جارہی تھی۔ تاہم یہ سب کچھ بقول غالب۔۔۔''تھا خوا ب میں خیال کو تجھ سے معاملہ‘‘ ۔۔۔۔ثابت ہوا۔ دنیا نے دیکھا کہ جب سوویت انہدام سے محکوم اقوام آزاد ہوئیں تو انہوں نے ایک مرتبہ پھر صدیوں پرانے نسلی اور علاقائی تعصبات کو پالنا شروع کر دیا۔ سرب جنگجوئوں کی طرف سے بوسنیاکے مسلمانوں کی نسل کشی نے پوری دنیا کو لرزا کر رکھ دیا۔ تاہم وہ پوسٹ سوویت یونین دنیا میں اٹھنے والی بربادی کی لہر کی ایک جھلک تھی۔ اس کے بعد امریکہ نے بھی دیکھا کہ جب اُس پر سوویت یونین کا فوجی دبائو ختم ہوچکا ہے تو وہ اسلامی انتہاپسندوںکے خاتمے کے لیے جارحانہ اقدامات کرنے کی راہ پر چل نکلا۔ اس سلسلے کی پہلی مہم 1990ء کی پہلی عراق جنگ تھی۔ اس کا مقصد کویت کو آزاد کرانا بتایا گیا۔ تاہم اُس جنگ نے دنیا کو ایک فیصلہ کن مقام پر لا کھڑا کیا۔ اس کی وجہ سے سوویت یونین کے خلاف جنگ آزما مسلمان جنگجوئوں کو امریکہ اور مغرب کے خلاف کارروائیاں کرنے کا جواز ہاتھ آگیا۔ اس کی وجہ سے لندن سے کر لاہور تک، امریکہ مخالف جذبات پر تیل گرایا جانے لگا اوریوںدنیا میں اسلامی جہاد کا تصور ایک مرتبہ پھر ابھر کرسامنے آگیا۔ 
اس کے بعد نائن الیون اور اس کے نتیجے میں افغانستان اور عراق پر امریکہ اور مغربی ممالک کے حملوں نے صورت ِحال کو مزید گمبھیر اور سنگین کردیا۔ اس کے رد ِعمل میں مسلمان انتہا پسند گروہ پوری توانائی سے سامنے آنے لگے۔ انہوں نے مسلمانوں کی نئی نسل کو جہادی بیانیے سے آشناکرنا شروع کردیا۔ پھر بھاری بھرکم فنڈز بھی میسر آنے لگے۔ زیادہ تر مسلمان نوجوان اب اپنے رہنمائوں کو واشنگٹن کے ہاتھوں کٹھ پتلیاں سمجھنے لگے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وہ اسلامی انقلاب کا راستہ روک رہا ہے اور ان کے جمہوریت پسند حکمران امریکی ایجنٹ ہیں۔ 
عراق ، شام اور لیبیاکے عدم استحکام سے دوچار ہونے کی وجہ سے خطہ فرقہ واریت اور نسلی تصادم کی آگ میں جلنے لگا۔ایران اور سعودی عرب کے درمیان پراکسی جنگ شروع ہوگئی۔ اس کے لیے پاکستان اور افغانستان کی سرزمین کا انتخاب ہوا۔ چنانچہ آج یہ ممالک لہو رنگ ہیں۔ دیگر اسلامی ممالک تک بھی اس جنگ کا سلسلہ پھیلتا چلا جارہا ہے۔ 
خطے میں رونما ہونے والے واقعات کے رد ِعمل میں مغرب اپنے آپ کو ان سے دور کررہا ہے۔ اس تصادم کی وجہ سے مذہب اسلام کو بھی دقیانوسی قراردیا جارہا ہے ، لیکن مغربی سیاست دان اور دانشور ایسا کہنے سے پہلے یہ بھول جاتے ہیں کہ دنیا اس تشدد کا کس وجہ سے شکار ہوئی۔ وہ مذہبی بنیادپرستی کا ہوا کھڑا کرتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ عراق اور افغانستان پر کس نے حملہ کیا تھا اور لیبیا اور شام میں کس نے مداخلت کی تھی؟R2P (اپنے تحفظ کا حق) کا تصور کھوکھلا ثابت ہوا کیونکہ اس کے نتیجے میں مزید کشیدگی بڑھی ۔ عرب بہار کی وجہ سے بھی یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ عرب دنیا آمریت سے جان چھڑا کر آگے کی طرف بڑھے گی لیکن مصری فوج کی وجہ سے تمام امیدیں دم توڑگئیں۔ اب مذہبی انتہا پسند وںکے پاس یہ کہنے کا جواز موجود ہے کہ جمہوریت ایک ناکام نظام ہے، چنانچہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں اسلامی نظام کے لیے افراد کو تیار کررہے ہیں۔ الجیریا، غزہ اور مصر میں اسلامی جماعتوں نے انتخابات جیتے لیکن فوج نے مداخلت کرتے ہوئے حکومت نہ چلنے دی۔ غزہ میں حماس کو قدیم دور کا گروہ سمجھا جاتا ہے۔ تاہم یہ تنائو صرف اسلامی دنیا میں ہی نہیں بلکہ جنوبی چین سے لے کر یوکرائن تک محاذآرائی کے گہرے ہوتے ہوئے بادل دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر ایران کے جوہری پروگرام پر ہونے والے پُرامن مذاکرات ناکام ہوگئے تو پھر اسرائیل کوئی ممکنہ فوجی کارروائی کرسکتا ہے۔ اس سے خطہ ایک مہلک جنگ کے شعلوںمیں جل اٹھے گا۔ اس دوران عالمی معیشت بھی انتہائی پستی کی طرف بڑھ رہی ہے اور لاکھوں افراد ہر روز بے روزگاری کا شکار ہورہے ہیں۔ لوگوں کو تعلیم ، روزگار، صحت اور تفریح کے مسائل کا سامنا ہے۔وہ مایوسی کے عالم میں انتہا پسندوں کا ترنوالہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس دوران سویڈن سے لے کر برطانیہ تک سیاست دان تارکین ِوطن کی مخالف میں نعرے لگاتے سنائی دیتے ہیں۔ مذہبی انتہا پسند ان نعروں کو اپنے اپنے ممالک میں عصبیت بڑھانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ 
اس تمام تاریک صورت ِحال میں امید کا پہلو یہی ہے کہ یہ تمام حالات کسی قدرتی آفت کا نتیجہ نہیںبلکہ انسان کے اپنے پیدا کردہ ہیں۔ چنانچہ وہ عقل، تعاون اور اچھے ارادوں کے ساتھ انہیںحل بھی کرسکتا ہے۔ گزشتہ چند ایک روز سے ان مسائل پر غور کرتے ہوئے جب میںمایوس ہوجاتا ہوں تو یکایک Beatles کے ایک نغمے کے یہ بول میرے کانوں میں گونجنے لگتے ہیں۔۔۔ ''جب میں پریشانی کے سمندر میں کھو جاتا ہوں تو مقدس مریم کو اپنے پاس پاتا ہوں۔ وہ مجھے عقل سکھاتی ہیں اور ہمت بندھاتی ہیں‘‘۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved