تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     23-02-2015

خادم اعلیٰ کے لیے ایک ٹیسٹ کیس

گزشتہ دو ہفتوں سے گرینڈ ریپڈز میں ڈیرہ لگایا ہوا ہے۔ دو دن پہلے ملتانی چھوٹی بیٹی سے بات ہوئی تو وہ پوچھنے لگی کہ کہاں کہاں گئے؟ میں نے کہا ادھر تمہاری بہن کے پاس ہی ہوں۔ وہ پوچھنے لگی میرا مطلب ہے یہاں امریکہ کسی دوست کے پاس نہیں گئے؟ میں نے جواب دیا نہیں۔ کسی کے پاس بھی نہیں۔ لاس اینجلس شفیق کے پاس جانے کے لیے چھ گھنٹے کی فلائٹ لینی پڑتی ہے۔ برادر بزرگ اٹلانٹا سے خود پاکستان کے دورے پر جا چکے ہیں۔ شوکت فہمی اپنے معاملات میں مصروف ہے۔ خالد منیر خود ایک ماہ کے بعد ابھی ڈائوننگ ٹائون پہنچا ہے۔ سعدیہ یہاں آ کر ملی ہے۔ بھلا اور کہاں جانا تھا؟ میری بیٹی ہنس کر کہنے لگی۔ جتنے دن آپ نے لگاتار یہاں گرینڈ ریپڈز میں ایک ہی گھر میں‘ ایک ہی جگہ گزارے ہیں اتنے دن تو آپ نے کبھی ہمارے پاس یہاں ملتان میں مسلسل نہیں گزارے۔ ہم دونوں ہی اس بات پر دیر تک ہنستے رہے۔ 
سیفان نے سب کو احمق بنایا ہوا ہے۔ جب وہ سو جاتا ہے اور وہ اکثر سویا ہی رہتا ہے تو اسے دیکھتے رہتے ہیں اور جب وہ جاگ جاتا ہے تو اس سے یکطرفہ گفتگو شروع ہو جاتی ہے۔ آگے سے جوابی طور پر وہ غوں غاں بھی نہیں کرتا بس اِدھر اُدھر دیکھتا رہتا ہے اور ہم لوگ جدھر وہ دیکھتا ہے ادھر ہو کر بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ بات کبھی کسی کو سمجھ نہیں آ سکے گی کہ یہ نئے آنے والے ہماری محبت کے کس درجے پر فائز ہوتے ہیں۔ سارا دن اسی ایک کھلونے کے ساتھ کھیلتے گزر جاتا ہے۔ روزانہ شام کو اسے کمبل میں لپیٹا جاتا ہے۔ پھر اسے کمبل سمیت ہینڈل والی ایک ٹوکری جو دراصل کارسیٹ پر فکس ہونے والی بچہ سیٹ ہے‘ کے اندر رکھے ہوئے گرم تھیلے میں ڈال کر زپ بند کی جاتی ہے۔ زپ بند کرنے سے پہلے اس کی سیٹ بیلٹ باندھی جاتی ہے اور اسے اٹھا کر چل پڑتے ہیں۔ اصل مرحلہ اسے گھر سے سامنے شیڈ کے نیچے کھڑی گاڑی تک لے کر جانا ہوتا ہے۔ اس کے تھیلے کی زپ مکمل بند کردی جاتی ہے۔ سر اوپر سے کپڑا کھینچ کر ڈھکا جاتا ہے اور پھر بھاگ کر گاڑی تک جاتے ہیں۔ پچھلی سیٹ پر پہلے سے فکس کی گئی Base پر یہ کارسیٹ فٹ کی جاتی ہے اور دروازہ جھٹ سے بند کردیا جاتا ہے۔ گاڑی اندر سے برفانی 
گھر (Igloo) بنی ہوتی ہے۔ دس پندرہ منٹ بعد گاڑی کہیں جا کر گرم ہوتی ہے۔ چھوٹے بچے کو امریکہ میں گاڑی میں بٹھانا اتنا آسان نہیں جتنا ہمارے ہاں ہے کہ بچے کو گود میں اٹھایا اور گاڑی میں بیٹھ گئے۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ یہاں بچہ فرنٹ سیٹ پر نہیں بیٹھ سکتا۔ بیک سیٹ پر فکس کی گئی کارسیٹ میں بٹھایا جاتا ہے۔ کارسیٹ اس طرح فکس ہوتی ہے کہ بچے کا سر فرنٹ کی جانب اور پائوں بیک کی طرف ہوتے ہیں۔ سیٹ کے اندر بچے کو سیٹ بیلٹ باندھی جاتی ہے۔ بچہ پورے بڑے آدمی جتنی جگہ لیتا ہے۔ ایئرپورٹ سے اپنی بیٹی کی پاکستان سے آنے والی ایک کولیگ ڈاکٹر اور آغا خان کی کلاس فیلو سہیلی کو لینا تھا اور گاڑی میں جگہ نہیں تھی۔ ایئرپورٹ سے تھوڑا پہلے گاڑی کو سائڈ میں لگایا گیا۔ سیٹ اور بیس کو نکال کر ڈکی میں رکھا اور سیفان کو گود میں اس طرح بٹھایا کہ اس کے اوپر سکارف ڈال کر چھپایا گیا۔ ایسے لگتا تھا کہ ہم اپنے بچے کو نہیں بلکہ کسی اور کے بچے کو اغوا کر کے لے جا رہے ہیں۔ چودہ دن ہو گئے ہیں۔ اپارٹمنٹس کی بلڈنگ کے سامنے بلا مبالغہ چالیس پچاس کاروں کی پارکنگ ہے۔ کسی نے اپنے گھروالوں کو اطلاع کرنے کے لیے کہ میں آ گیا ہوں یا گھروالوں کو نیچے بلانے کی غرض سے ہارن نہیں مارا۔ کسی نے اپنی مقررہ جگہ کے علاوہ کہیں گاڑی کھڑی نہیں کی۔ اتنی دیر کے لیے بھی نہیں کہ وہ اوپر سے کسی کے نیچے آنے کا انتظار کر رہا ہو۔ 
تین روز قبل ڈاکٹر عاطف رضوان کا فون آیا اور وہ پوچھنے لگا کہ کیا مجھے عجائب گھر سے دلچسپی ہے؟ میں نے وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگا کہ یہاں گرینڈ ریپڈز میں ایک چھوٹا لیکن اچھا عجائب گھر ہے‘ اگر پسند کریں تو وہاں چلتے ہیں۔ میں نے ہامی بھر لی۔ دوپہر کو جب ہم عجائب گھر جانے کے لیے روانہ ہوئے تو زوردار برفباری ہو رہی تھی۔ کار پارکنگ سے عجائب گھر تک پہنچتے کالا اوورکوٹ سفید ہو گیا۔ تین منزلہ عجائب گھر زیادہ بڑا نہیں تھا مگر شہر کی پوری تاریخ کو سمیٹے ہوئے تھا۔ اندر داخل ہوتے ہی دائیں ہاتھ پر ایک گلی سی بنی ہوئی تھی اور اس پر ''اولڈ گرینڈ ریپڈز‘‘ کی تختی لگی ہوئی تھی۔ اس گلی میں داخل ہوتے ہی ہم ایک اور ہی دنیا میں پہنچ گئے۔ یہ 1910ء سے پہلے کا گرینڈ ریپڈز تھا۔ اسی طرح پرانی طرز کی دکانیں‘ وہی پرانی چیزیں۔ ایک پریس کا منظر تھا۔ اس کے اندر وہ مشین رکھی ہوئی تھی جو ملتان بوہر گیٹ کے باہر چھاپہ خانوں میں ابھی بھی استعمال ہو رہی ہیں۔ ایک فارمیسی تھی۔ اس کے اندر سفید کوٹ میں ایک فارماسسٹ بھی بیٹھا ہوا تھا۔ ہمیں دیکھ کر اٹھا اور فارمیسی کے اس متروک نظام کے بارے بتانے لگا۔ پھر زمین کی طرف اشارہ کر کے بڑے فخر سے بتانے لگا کہ فرش پر لگی ہوئی یہ ٹائلیں ایک سو چالیس سال پرانی ہیں اور اب کہیں نہیں ملتیں۔ بالکل اسی طرح کی ٹائلیں ہمارے پرانے گھر کے دالان میں لگی ہوئی تھیں اور حسن پروانہ کالونی کے ساتھ اب بھی ملتی ہیں۔ غرض وہاں ہر چیز سنبھالی گئی تھی۔ پہلی منزل پر پیتل وغیرہ کے ظروف الماریوں میں سجے ہوئے تھے۔ میرے گھر میں میری والدہ مرحومہ کے جہیز کے برتن بالکل انہی برتنوں جیسے ہیں۔ میں نے انہیں قلعی کروا کر الماری میں رکھا ہوا تھا۔ اب دوبارہ قلعی کروانے والے ہو گئے ہیں مگر اب قلعی کرنے والے نہیں مل رہے۔ کیا زمانہ تھا جب گلی کے باہر آواز آتی تھی ''بھانڈے قلعی کرالؤ‘‘ اب نہ تانبے پیتل کے برتن رہے اور نہ قلعی کرنے والے۔ کسی نے بتایا ہے کہ دہلی دروازے کوئی قلعی کرنے والا ابھی بھی بیٹھا ہوتا ہے۔ کسی دن وہاں جائوں گا۔ فی الحال تو یہ برتن گرینڈ ریپڈز کے عجائب گھر میں دیکھ رہا ہوں۔ 
ڈاکٹر عاطف رضوان گرینڈ ریپڈز میں ڈاکٹر ہے۔ داڑھی والا باعمل مسلمان ہے مگر ویسا ہی اعتدال پسند جیسا کہ مسلمان کو ہونا چاہیے۔ اپنے اعمال کے حوالے سے اللہ کے آگے خود کو جوابدہ سمجھنے والا مگر خدائی فوجدار نہیں۔ خوش قسمت ایسا کہ ضعیف والدین ہر سال مئی سے اکتوبر ساری گرمیاں گرینڈ ریپڈز گزارتے ہیں اور سردیوں کے آغاز میں واپس فیصل آباد چلے جاتے ہیں۔ سردیاں بغیر بجلی کے پاکستان میں اور گرمیاں گرینڈ ریپڈز میں گزارتے ہیں۔ یہاں آ کر دادی چھوٹی سی عمر میں عینک لگانے والے اپنے پوتے ابراہیم کی آنکھوں میں سرمہ نہ ڈالنے اور عاطف کے کم بالوں والے سر کو دیکھ کر تیل نہ لگانے پر ڈانٹتی ہے۔ آئی پیڈ اور ٹیلی ویژن دیکھنے کے لیے بچوں کے اوقات مقرر کرتی ہے۔ گھر میں پاکستان سا بن جاتا ہے۔ گزشتہ نو دس سال سے ایسا ہی ہو رہا ہے۔ یہاں آنے والے عموماً برسوں والدین کی شکل نہیں دیکھ سکتے مگر عاطف خوش قسمت ہے کہ سال میں پانچ مہینے والدین کی خدمت کرتا ہے۔ جتنے لذیذ کھانے عاطف کی بیگم بناتی ہے مجھے یقین ہے کہ اس کے ساس سسر پاکستان جا کر جہاں اپنے بیٹے‘ بہو اور پوتے پوتیوں کو یاد کرتے ہوں گے وہیں انہیں اپنی بہو کے ہاتھ کے کھانے بھی یاد آتے ہوں گے۔ 
عجائب گھر میں لاکھوں سال پرانے متحجر (Fossils) پلانیٹیریم اور بحری قذاقوں کا جہاز پڑا ہے۔ تیسری منزل سٹی ٹائون ہال کا قدیم گھڑیال رکھا ہے۔ تین اطراف چلتی ہوئی گھڑیوں والا یہ کلاک شہر والوں کے لیے بڑی تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ 1885ء میں ڈیزائن ہو کر 1888ء میں مکمل ہونے والا یہ گھڑیال 3E میکنزم اور تین ٹانگوں والے ڈینسن مشینری والے مرکز ثقل (Gravity) پر مشتمل تھا۔ اس کا پینڈولم جست کا بنا ہوا ہے۔ یہ گھڑیال اور اس کا ڈائل مقامی ڈاکٹر پیٹر نارتھائوس کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ پرانا سٹی ٹاور 1969ء میں خستہ ہو گیا اور اسے گرا کر نیا بنایا گیا۔ اس گھڑیال کی اصل گھنٹی 1878ء سے 1888ء تک سٹی فائر ڈیپارٹمنٹ میں بطور اطلاعی گھنٹی استعمال ہوتی رہی‘ تاوقتیکہ یہ سٹی ہال ٹاور پر گھنٹے اور آدھ گھنٹے کے اوقات بتانے کے لیے لگا دی گئی۔ اب یہ گھنٹی میوزیم کے دروازے پر لگی ہوئی ہے۔ گھڑیال میں لگی ہوئی موجودہ گھنٹی شہر میں چلنے والے آخری سٹیم انجن سے اتار کر لگائی گئی ہے۔ یہ گھنٹی ڈاکٹر رچرڈ بولکنز نے عطیہ کی ہے جو اسے بطور چیف میڈیکل ایگزامینر آف چیس پیک اینڈ اوہایوریل روڈ کے ریٹائر ہونے پر بطور Sovinor دی گئی تھی۔ یہ گھڑیال اب شہر کی نشانی اور یادگار کے طور پر عجائب گھر میں محفوظ ہے اور شہر کے ماضی کا امین ہے۔ 
ملتان کے گھنٹہ گھر کا کلاک گرینڈ ریپڈز کے کلاک کا ہی ہم عمر تھا۔ ملتان کا گھنٹہ گھر بارہ فروری 1884ء میں بننا شروع ہوا اور چار سال میں یعنی 1888ء کو مکمل ہوا۔ یہ عمارت ملتان کے محاصرے کے دوران احمد خان سدوزئی کی تباہ ہو جانے والی حویلی کے کھنڈرات پر بنائی گئی۔ ہال اور بلڈنگ کو علی الترتیب رپن ہال اور نارتھ بروک ٹاور کا نام دیا گیا۔ دونوں نام ہندوستان کے سابقہ وائسرائے کے ناموں پر رکھے گئے تھے۔ نارتھ بروک ٹاور پر ایک تین ڈائل والا کلاک لگایا گیا۔ منوں وزنی مشینری والا یہ کلاک ستانوے سال بعد 1985ء میں بند ہو گیا۔ 2012ء میں اس کی مرمت کی گئی بلکہ مرمت کیا کی گئی ہاتھ صاف کیا گیا۔ پرانے کلاک کی مشینری غائب کردی گئی۔ پرانے ڈائل کے پیچھے جدید الیکٹرانک مشینری لگا دی گئی اور سوئیاں بھی کھسکا لی گئیں۔ بلامبالغہ کئی من وزنی مشینری‘ سوئیاں اور پینڈولم کہاں گیا؟ کسی کو پتہ نہیں۔ صدیوں پرانی تاریخی نشانی کون لے گیا کسی کو پتہ نہیں۔ شہر کا ورثہ کس نے غائب کیا کچھ پتہ نہیں چل رہا۔ یہ سب کچھ کب ہوا؟ یہ بھی کسی کو نہیں پتہ۔ بلکہ کسی کو پتہ ہی نہیں کہ گھڑیال غائب ہو چکا ہے اور اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ کسی کو فکر ہی نہیں کہ کیا ہو گیا ہے۔ 
یہ صرف ایک کلاک کی کہانی ہے۔ اور بہت سی چیزیں بھی غائب ہوئی ہیں‘ نہ کسی کو خبر ہے اور نہ فکر۔ حیرانی ہوتی ہے کہ ہم اپنی تاریخ‘ ورثے اور امانتوں کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں۔ حکمرانوں کی مجرمانہ غفلت‘ لاپروائی اور بے فکری نے ایک ایسا کلچر پروان چڑھایا ہے کہ جس کا دل کرتا ہے جو چیز اٹھاتا ہے غائب کر دیتا ہے نہ کسی کو فکر ہے اور نہ پروا۔ کیا خادم اعلیٰ ملتان گھنٹہ گھر کا کلاک برآمد کروا سکتے ہیں؟ کہیں سے تو ابتدا ہونی چاہیے۔ کوئی کیس تو ٹیسٹ کیس بنایا جائے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved