ہمیں زمانۂ طالبِ علمی میں پڑھایا گیا تھا کہ معنی، مفہوم اور مدلول(Concept)پہلے ذہن میں آتا ہے، پھر اُس کے اظہار اور ابلاغ (Communication)کے لئے الفاظ ، اشارات اور تاثرات (Impressions)کا سہارا لیا جاتاہے، اس لئے الفاظ واشارات کو دالّ (Indicator)اور معنی کو مدلول (Meaning ,Concept)کہا جاتاہے۔ پس الفاظ اور تمام ذرائع اظہار پر معنی اور مفہوم مقدّم ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ مثلاً ٹیلیفون ، ٹیلی وژن ، کمپیوٹر ، ریل اور ہوائی وبحری جہاز کے الفاظ یا اسماء پہلے وضع کرلئے گئے، یہ تمام اشیاء وجودمیں آگئیں اور بعد میں ان کے معانی ومفاہیم اور تصورات (IDeas)وجود میں آئے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''اور اس (اللہ) نے آدم کو تمام چیزوں کے اسماء سکھا دئیے ، پھر ان اشیاء کو ملائکہ پر پیش کیا اور فرمایا: مجھے ان چیزوں کے اسماء بتاؤ،(البقرہ:31)‘‘۔ مفسرینِ کرام نے فرمایا کہ آیت میں اسماء سے ''مُسَمَّیات‘‘(Named Objects)مراد ہیں اور یہ نہیں کہ اسماء پیش کرکے فرمایاہو کہ مجھے ان (اسماء) کے اسماء بتاؤ، بلکہ وہ چیزیں پیش کرکے اُن کے اسماء کی بابت سوال فرمایا۔
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:(۱): ''ن اور قسم ہے قلم کی اور اس کی جو(فرشتے ) لکھتے ہیں ،(القلم:1)‘‘۔ (۲):''طور کی قسم اور کھلے ورق پر لکھی ہوئی کتاب کی قسم،(الطور:1-3)‘‘۔ ان آیاتِ مبارَکہ میں اللہ تعالیٰ نے قلم ، مَسطور (Written)اور وہ کاغذ جس پر کتاب لکھی گئی ہے، کی قسم فرمائی ہے اور بعض مفسرینِ کرام نے ''ن‘‘ سے دوات بھی مراد لی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام ملفوظ ومنطوق(Spoken Word)، مسطور(Written)اور کاغذ(یا جس پر لکھا جارہا ہے) اور قلم جو ذریعۂ تحریر ہے، سب کی قسم فرمائی ہے تاکہ ان سب چیزوں کی حُرمت(Sanctity,Sacredness) سب پر واضح ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کو کتاب یعنی مکتوب(Scripture)سے بھی تعبیر فرمایا ہے تاکہ لکھے ہوئے حرف کی حُرمت بھی ثابت ہوجائے۔
لفظ کی توقیر اور حُرمت اس کے اندر معنی ومفہوم یا مدلول (جس پروہ لفظ دلالت کررہا ہے) کی حُرمت کے اعتبار سے ہے ۔ ایک وقت تھا کہ تحریر اور کلام میں ایجاز واختصار (Abbreviation) کو کمال سمجھاجاتاتھا، یعنی الفاظ کم ہوں اور معانی زیادہ یا آسان لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ:''(معانی کے ) دریا کو (کم سے کم الفاظ کے) کوزے میں بند کردیا جائے‘‘۔ رسول اللہ ﷺ نے تمام انبیائِ کرام علہیم السلام پر اپنے چھ امتیازی فضائل بیان کرتے ہوئے اُن کا آغاز ان کلماتِ مبارَکہ سے فرمایا:''اُوتیتُ جوامِعَ الکَلِمِ‘‘(مجھے ''جَوَامِعُ الکَلِم‘‘ یعنی معانی کے سمندر کو چند الفاظ میں سمونے کا مُعجزہ اور مَلکہ عطا کیا گیا ہے)۔
علمِ معانی کی اصطلاح میں جہاں الفاظ زیادہ ہوں اور معانی محدود، اسے ''اِطناب‘‘ کہتے ہیں، اسے انگریزی میں ہم ''To discuss at length to discourse‘‘سے تعبیر کرسکتے ہیں ۔ مغلیہ ہند کے زوال اور برٹش انڈیا کے عروج کے دور میں مفتیانِ شعر وادب کی غالب رائے کے مطابق مرزا اسداللہ خاں غالب برصغیر کے بہت بڑے یا سب سے بڑے شاعر تھے، یہ دعویٰ صحیح ہے یا غلط اللہ بہتر جانتا ہے ، کیونکہ ہم اس شعبے میں مہارت نہیں رکھتے، ہمیں تو علامہ اقبال پسند ہیں ، لیکن ایسے لوگوں کو ہمارے لبرل اور روشن خیال دانشور جذباتی اور جنونی قرار دیتے ہیں ۔ چنانچہ مرزا غالب لفظ کی معنویت وجامعیت اور گہرائی وگیرائی کو یوں بیان کرتے ہیں ؎
قطرے میں جلوہ دکھائی نہ دے اور جزء میں کل
کھیل لڑکوں کا ہوادیدۂ بینا نہ ہوا
امام احمد رضا قادری نے شانِ رسالت میں لکھا ہے ؎
آنکھ والے تیرے جوبَن کا تماشا دیکھیں
دیدۂ کور کو، کیا آئے نظر ، کیا دیکھے
یعنی جو صاحبِ نظر ہیں ، جن کی چشمِ بصیرت وَا ہے، انہی کو عظمتِ مصطفی اور شانِ مصطفیﷺ نظر آسکتی ہے۔ اس کے برعکس جو بصیرت، فکرِصائب اور عقلِ سلیم سے محروم ہو، وہ شانِ مصطفی کیاجانے۔جو مُحبّ اور غلام بن کر ذاتِ پاک مصطفیﷺ کو چشمِ تصور میں لائے گا، تواسے آپ کی ذات میں مُحاسِن ہی نظر آئیں گے، مگر جو ناقد اور عیب جو بن کر دیکھے گا، تواسے عیب نظر آئیں گے۔
بعض شارحینِ غالب کا قول ہے کہ اس میں فلسفۂ وحدت الوجود بیان کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود جب غالب کے حاسدین ومخالفین نے اُن کے کلام کو مُہمَل اور بے معنی (Meaningless)قرار دیا تو انہیں کہنا پڑا ؎
نہ ستائش کی تمنا، نہ صلے کی پروا
گرنہیں ہے، میرے اشعار میں معنی ، نہ سہی
پھر غالب نے اپنے حاسدین کی نامرادی کو ان الفاظ میں بیان کیا ؎
تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے، پہ تماشا نہ ہوا
علامہ اقبال نے کہا ؎
یقین مُحکَم، عملِ پیہم، مَحبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں ، یہ مردوں کی شمشیریں
حقیقت ایک ہے، ہرشے کی، نوری ہو کہ ناری ہو
لہو خورشید کا ٹپکے، اگر ذرے کا دل چیریں
''طلوعِ اسلام‘‘کے عنوان سے یہ الہامی شاہکار اور لاجواب نظم علامہ اقبال نے انجمن حیاتِ اسلام کے سالانہ جلسے میں پڑھی اور سب کو رُلا دیا تھا۔ہمیں نہیں معلوم کہ اس آخری مصرعے :''لہو خورشید کا ٹپکے، اگر ذرے کادل چیریں ‘‘ کہتے وقت علامہ اقبال کے ذہن میں اس کے حاضر ومستقبل کے اعتبار سے کون سے معانی تھے ، لیکن کوئی کہہ سکتاہے کہ اس میںذرّے کی تجزّی (Splitting to be divided)کے بعد جو آخری ذرّہ رہ جاتاہے،وہ آج کل نیو کلیئر سائنس میں ایٹم کہلاتا ہے۔ اور اس آخری ذرے یا غیرمعمولی قوت کے مرکزیہ کو الیکٹرون اور پروٹون سے تعبیر کیا جاتاہے، جس سے Atom Bombبنتا ہے، اسی کی طرف اشارہ ہے۔ تو ذرّے کا دل چیرنے (Fusion)سے خورشید، جومعلوم دنیا میں حرارت کا سب سے بڑا ماخذ(Source)ہے، جب اس کا لہو یا کشید کیا ہوا جوہر ٹپکے گا، تو تباہی کا کوئی تصور کرسکتا ہے۔
یہ چند سطور میں نے اس لئے لکھیں کہ جب سے ہمارے ہاں آزاد میڈیا آیا ہے، الفاظ بے توقیر ہوگئے ہیں ، الفاظ کی فضول خرچی بہت ہوگئی ہے۔ اس میں معنی کی تلاش کارِ عَبَث ہے۔ ٹیلیویژن چینلز پر بعض مباحثوں کو مکالمہ کہنے کی بجائے مُنازَعَہ (Quarrelling) اور مُحارَبہ(Battling) کہنا زیادہ موزوں ہوگا۔ دو تین روز قبل ایک سیاسی رہنما سے ایک اینکر پرسن کا الجھاؤ دیکھا، دونوں کے شور وغوغا میں لفظ تو کوئی سمجھ میں نہیں آرہا تھا ، بس لگ رہا تھا کہ کہیں اچانک اٹھ کر حضرتِ اینکر پرسن اپنے مہمان کی کہیں گردن نہ دبوچ لیں یا خدانخواستہ اس کے برعکس صورت رونما نہ ہوجائے۔
اسی طرح بعض اوقات کوئی بزرگ تجزیہ کار کسی مکالمے میں بلالئے جاتے ہیں ، وہ کسی دوسرے اسٹیشن کے اسٹوڈیوز یا DSNGکے ذریعے شریکِ مباحثہ ہوتے ہیں ، ادھر مین اسٹوڈیوز میں جنگ جاری ہوتی ہے اور وہ بے چارے ہونَّق بنے اور سانس روکے ہوئے اینکرپرسن کی نگاہِ التفات کے منتظر بیٹھے ہوتے ہیں اور کبھی جب صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتاہے تو انہیں کہنا پڑتا ہے کہ حضورِ والا:''اک نظرِ التفات ادھر بھی ‘‘۔مسابقت اور قبولِ عام کا گراف (Rating)معیار بن جائے ، جس کے بارے میں خود میڈیا والے بھی زیر لب کہتے ہیں کہ یہ ایک راز (Mystery)ہے اور کوئی قطعی اور یقینی چیز نہیں ہے، لیکن شاید اس کا متبادل بھی نہیں ہے ، اس لئے اسے قبول کئے بغیر چارہ نہیں ہے۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ سب کسی نصب العین اور منزلِ مقصود کے تعین کے بغیر بگٹٹ دوڑے چلے جارہے ہیں، ایسے میں صرف ذہنی اور فکری انتشار، عملی بے حسی اور معاشرے میں بے یقینی میں اضافہ ہورہا ہے۔ اگرچہ اب میڈیا والوں کا اپنے بارے میں حسنِ ظن یہ ہے کہ انہیں کسی غیبی قوت سے مصلحِ اعظم بننے کا فریضہ تفویض ہوگیا ہے اور اب انہوں نے ہی ہر ایک کا حساب لینا ہے اور ملک وملّت اور قوم ووطن کی سَمتِ قبلہ کو درست کرنا ہے، وہ خدائی فوجدار ہیں، سب ان کے سامنے جوابدہ ہیں ، مگروہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں، بقولِ غالب ؎
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے، گھر کی رونق
نوحۂ غم ہی سہی ، نغمۂ شادی نہ سہی
الغرض جو جتنے زور سے چلاکر بول سکتا ہو، وہی اپنے عہد کا دانائے روزگار ، نابغۂ عصر اور عبقریِ دہر(Genius) ہے۔