تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     23-02-2015

از خود نوٹس

ہمارے ہاں اور کس معاملے میں سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے جو کرکٹ کا معاملہ بھی ٹھیک چلتا؟ اور سچ تو یہ ہے کہ پیچیدگی میں کرکٹ نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یہ ایسی بُھول بُھلیّاں ہے جس میں اگر کوئی گیا تو سمجھو گیا۔ ہماری کرکٹ کئی میلوں کا ایک میلہ ہے۔ قومی کرکٹ ٹیم جب کھیل رہی ہوتی ہے تو کرکٹ کے سِوا سبھی کچھ کھیلا جارہا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں کرکٹ سے ہر شخص اپنی مرضی کا مزا کشید کرتا ہے۔ عوام کے لیے کرکٹ بہت حد تک فیسٹیول ہے، گالا ہے۔ جُواریوں کے لیے یہ من پسند بساط ہے۔ کوئی اگر چاہے تو کرکٹ سے شوبز کا مزا بھی پاسکتا ہے۔ 
ہمارے کرکٹرز نے بھی تو قوم کو حیران و پریشان کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ کھیلنے کے نام پر اداکاری عام ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ لوگ جب کرکٹ دیکھنے ٹی وی سیٹس کے سامنے بیٹھیں تو اُن کا تھوڑا بہت ''منورنجن‘‘ ضرور ہو۔ 
جب سے عدالتوں نے activism کی ابتداء کی ہے، ہمارے ہاں بیشتر معاملات از خود نوٹس کی نذر ہوکر رہ گئے۔ ججوں کا از خود نوٹس لینا تو سمجھ میں آتا ہے مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ اب پوری پاکستانی قوم از خود نوٹس لینے پر تُلی ہوئی ہے۔ آپس کے تعلقات میں بھی لوگ از خود نوٹس والی ذہنیت ہی کے اسیر ہوکر رہ گئے ہیں۔ مثلاً اگر کسی سے قرض درکار ہو تو از خود نوٹس کے تحت یہ فرض کرلیا جاتا ہے کہ فریقِ ثانی قرض دے ہی دے گا۔ اب اگر مانگنے پر وہ قرض نہ دے تو اوّل درجے کا قصور وار! یہی حال محبت ہے۔ لوگ ''ون وے ٹریفک‘‘ چلاتے ہیں۔ اپنے طور پر طے کرلیا جاتا ہے کہ اگر کسی سے اظہارِ محبت کیا جارہا ہے تو جواب مثبت ہی ملے گا۔ اور اگر فریقِ ثانی انکار کرے تو وہی قصور وار، وہی مجرم! 
کرکٹ میں بھی ہم نے از خود نوٹس والی ذہنیت کو اپنے ذہنوں پر سوار کرلیا ہے۔ عقل کے تقاضے خواہ کچھ کہتے ہوں، ہمیں صرف اِس بات سے غرض ہے کہ ہماری توقعات درست ثابت ہوں۔ 
از خود نوٹس کے تحت توقعات وابستہ کرلینا ہمارے لیے فطرتِ ثانیہ کا درجہ اختیار کرگیا ہے۔ کسی کی مرضی جانے بغیر ہم اُس سے پتا نہیں کیا کیا توقعات وابستہ کرلیتے ہیں۔ یہ بھی نہیں سوچا جاتا کہ کسی کا سَر توقعات کی گٹھڑی دھرنے سے گردن میں دھنس بھی سکتا ہے! قومی کرکٹ ٹیم ہی کی مثال لیجیے۔ ہم نے اپنے طور پر ہی طے کرلیا کہ قومی کرکٹ ٹیم کو ورلڈ کپ لے کر آنا ہے۔ ورلڈ کپ کوئی بازار میں ملنے والی چیز تو ہے نہیں کہ ہاتھ بڑھایا اور دِلادیا۔ ہم نے یہ جاننے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی کہ قومی کرکٹ ٹیم کیا چاہتی ہے۔ ورلڈ کپ جیتنا اُس کی ترجیحات میں شامل ہے بھی یا نہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ کرکٹ کھیلنے کے مُوڈ میں بھی ہے یا نہیں! 
اگر کوئی چھوٹی موٹی فرمائش ہو تو قومی کرکٹرز پوری کر بھی دیں۔ گزشتہ برس بنگلہ دیش میں بھارت کو ہراکر ایک دیرینہ مُراد پوری کر تو دی تھی۔ اِس فتح پر قوم کا وہی حال ہوا جو ہارنے پر ہوا کرتا ہے یعنی سَکتے میں آگئی! کئی دِن تک یقین نہ آیا کہ ہم نے بھارت کو کرکٹ کے میدان میں پچھاڑ دیا ہے۔ ہم یہ بُھول گئے تھے کہ اللہ کے دستِ قدرت سے کچھ بھی دُور نہیں! 
از خود نوٹس کی ذہنیت ہی نے ہمارے کرکٹرز کو مخمصے میں ڈال رکھا ہے۔ پہلی غلطی تو سلیکٹرز کی ہے کہ وہ جہاں کسی کو اچھی کرکٹ کھیلتے ہوئے دیکھتے ہیں، ٹیم میں لانے کا سوچنے لگتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی کھیل تو رہا ہو کرکٹ مگر مقصد اُس کا کچھ اور کرنے کا ہو اور کرکٹ کو وہ محض وسیلے کے طور پر استعمال کر رہا ہو۔ مثلاً ٹی وی کمرشلز میں کام کرنے کا راستہ کرکٹ کے میدان سے ہوکر گزرتا ہے۔ مِنی اسکرین تک جانے کے لیے کوئی کرکٹ کے میدان سے گزرنے لگتا ہے تو ہم اُسے وہیں روک کر کرکٹ بنانے پر تُل جاتے ہیں! یہ ہے کہ اندازے کی غلطی اور بندے پر ظلم کی انتہا! 
اب مشکل یہ ہے کہ ہمارے کرکٹرز بے چارے ٹی وی کمرشلز میں کام کرنا چاہتے ہیں اور ہم ہیں کہ اُنہیں کِٹ پہناکر کرکٹ کے میدان میں کھڑا کردیتے ہیں۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے شیر سے کہا جائے کہ گھاس کھا! قومی کرکٹ ٹیم کے ببر شیر مختلف شعبوں میں دانت گاڑنے کی تیاری کیے بیٹھے ہیں اور ہم اُنہیں کرکٹ کی چرا گاہ میں مُقیّد رکھنے پر کمربستہ ہیں! ''کیا یہ کُھلا تضاد نہیں؟‘‘ 
ہمارے کرکٹرز اپنی صلاحیتوں کو کئی شعبوں میں آزمانا چاہتے ہیں مگر ہم اُن کے جذبات کی پروا کیے بغیر اُنہیں محض کرکٹ کے پنجرے میں بند کرکے رکھنا چاہتے ہیں! کوئی قومی کرکٹر ریسٹورنٹ چلانا چاہتا ہے، کسی کی خواہش بڑا تجارتی ادارہ قائم کرنے کی ہے، کسی کو چینلز پر بولنے کا ہَوکا ہے مگر ہم سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب دِل کی آرزو پُوری نہیں ہوتی تو کرکٹ کے میدان میں وہ ہماری آرزوئیں پُوری کرنے کے قابل نہیں رہتے! 
قومی کرکٹ ٹیم جیسے ہی کسی بڑے ایونٹ میں شرکت کے لیے روانہ ہوتی ہے، ہم سپنوں کے ہنڈولے میں جُھولنا شروع کردیتے ہیں۔ اور کیوں نہ جُھولیں؟ خواب دیکھنے پر حکومت نے کبھی پابندی نہیں لگائی! ''انوکھا لاڈلا، کھیلن کو مانگے چاند‘‘ کے مِصداق ہم چاہتے ہیں کہ قومی کرکٹ ٹیم گھر واپس آئے تو ہاتھ میں ٹرافی ہو۔ جب یہ سُہانا خواب حقیقت کی کسی سنگلاخ چٹان سے ٹکراکر پاش پاش ہوتا ہے تو ہم اپنی آنکھیں پھوڑنے پر تُل جاتے ہیں۔ 
ورلڈ کپ میں بھارت اور ویسٹ انڈیز کے خلاف جب غیر منطقی خواب چکناچور ہوئے تو بہت سے شائقین نے اپنے ٹی وی سیٹ زمین پر دے مارے۔ اگر قومی کرکٹرز ہاتھ آتے تو شاید اُنہیں بھی زمین پر پٹخ دیتے! اب اگر دُنیا ہمیں انتہا پسند کہتی ہے تو حیرت کیسی اور ندامت کیوں؟ 
لوگوں کو بہتر زندگی کے گُر سِکھانے والے معروف امریکی مصنف ڈیل کارنیگی نے لکھا تھا۔ ''کسی بھی معاملے میں آپ قصور وار ہوں نہ ہوں، جوابدہ تو آپ ہی ہیں!‘‘ 
ڈیل کارنیگی کی بات کو اِس مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر آپ نے کسی کو کچھ رقم اُدھار دی اور اُدھار لینے کے بعد اُس نے کبھی پلٹ کر شکل نہیں دِکھائی تو بے شک قصور وار وہ ہے مگر جوابدہ تو آپ ہی ہیں۔ آپ نے اُسے پہچاننے میں غلطی کی نا؟ بس، اُسی غلطی کی یہ سزا ہے کہ اِس قرضے کو bad debts کے کھاتے میں ڈال دیجیے۔ 
ورلڈ کپ میں ابھی ہمارے چار میچ باقی ہیں۔ اِن میں سے کتنے میچ قومی کرکٹ ٹیم جیتتی ہے اِس کا مدار ہماری آرزوؤں پر نہیں، کرکٹرز کی کارکردگی اور فتح کے لیے اُن کی لگن پر ہے۔ ہمارے سوچنے سے کچھ ہونا ہوتا تو بھارتی ٹیم یا تو ہدف کے تعاقب میں سو پچاس کے ٹوٹل پر آؤٹ ہو جاتی یا پہلے کھیلتے ہوئے 50 اوورز میں 400 رنز اسکور کرکے بھی 10 وکٹوں سے ہار جاتی! شاید آپ اِس سوچ کو wishful قرار دے کر مُسکرائیں مگر صاحب! جب خوش گمانی کی وادی میں بھٹکنا ٹھہرا تو کوئی حد کیوں مُقرّر ہو؟ 
احمد فرازؔ نے خوب کہا ہے ؎ 
فرازؔ! اُس نے وفا کی یا بے وفائی کی 
جوابدہ تو ہمی ہیں، سوال جو بھی ہو! 
قومی کرکٹ ورلڈ کپ کے باقی میچوں میں اچھی کھیلے یا بُرا، ہمیں توقعات کی لہروں میں بہنے سے گریز کرنا ہے۔ آنکھوں میں خواب ضرور سجائیے مگر دیکھ بھال کر، سوچ سمجھ کر۔ یاروں نے ٹی وی سیٹ تو زمین پر دے مارے ہیں۔ اب کیا پورا گھر اُٹھاکر پٹخ دیں گے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved