تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     23-02-2015

واپڈااورسواں ڈیم

بہت شکریہ کہ واپڈا نے میرے سترہ فروری کے مضمون'' اور اب پانی کی لوڈ شیڈنگ‘‘ پر مجھ سے اپنے ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز کے ذریعے رابطہ کیا جنہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ سواں ڈیم کی افادیت کے متعلق جو کچھ لکھا ہے ہم اس سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں۔واپڈا کے ڈی جی تعلقات عامہ کا کہنا ہے کہ ایک پاکستانی کی حیثیت سے ہم سب کا فرض ہے کہ ملک کو پانی اور بجلی کے بحران سے نکالنے کیلئے سب مل کر کوششیں کریں،اسی لئے واپڈا چاہتا ہے کہ بھارت کے آبی حربوں کی وجہ سے ملک کو پانی کی جس کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اس کا کوئی ممکنہ حل تلاش کیا جائے۔ واپڈا نے پوچھا ہے کہ دنیا نیوز میں شائع ہونے والے مضمون میں پانی کی جس مقدار کا ذکر کیا گیا ہے وہ کیسے ممکن ہے اور پانی کی کثیر مقدار کے ساتھ ساتھ اس سے پانچ ہزار اور اس سے متعلقہ دوسرے ڈیموں سے تین ہزار میگا واٹ تک بجلی کس طرح با آسانی حاصل کی جاسکے گی؟ انجینئر انعام الرحمان کہتے ہیں کہ پاکستان میں سیلاب کا پانی ذخیرہ کرنے کیلئے بہترین مقام پوٹھو ہار میں وادی سوان ہے۔ یہاں سے38-48 ملین ایکڑ فٹ پانی سما سکتا ہے جو تربیلا، کالا باغ اور دیامر بھاشا کے ذخیروں سے آٹھ گنا بڑا ہے ۔تلہ گنگ سے ڈھلیاں کے درمیان ڈھوک پٹھان کے قریب منگلا ڈیم جتنی بڑی دیوار تعمیر کرکے یہ ذخیرہ وجود میں لایا جا سکتا ہے جس سے پاکستان کی تقدیر بدل جائے گی۔تربیلا سے سرنگوں اور غازی بروتھا جیسی معمولی ڈھلوان کی نہر سے پانی منتقل کیا جائے گا چونکہ اس ڈیم سے کوئی نہر نہیں نکل سکتی، اس لیے آپ اسے تربیلا کی توسیع بھی کہہ سکتے ہیں۔
جولائی تا ستمبر ہر صوبہ جتنا چاہے اپنے حصے کے پانی کا رخ تربیلا سے اس ذخیرے کی طرف موڑ لے۔ اس سے ایک طرف وادی پشاور میں سیلابوں کا نکاس ہر ممکنہ حد تک بہتر ہو جائے گا تو دوسری طرف زیریں پنجاب اور سندھ میں انتہائی درجے کے سیلابوں کا مسئلہ بھی ہمیشہ کیلئے حل ہو جا ئے گا۔اسی طرح بلوچستان میں ناڑی بولان، خیبر پختونخوا میں وارسک سے پرے، سندھ میں بھٹ شاہ گیس فیلڈ کے قریب، دریائے ناڑا پر ساون کے مقام پر اور پنجاب میں روہتاس کے قریب ذخیرہ آب کے بڑے بڑے منصوبے بن سکتے ہیں جو علا قائی سیلابوں کا رخ موڑ نے کے ساتھ ساتھ آ بپاشی اور پن بجلی میں مدد دے سکیں گے۔ ہائی وارسک ڈیم کی جھیل کو بارہ میل دور منڈا ڈیم سے سپل وے سرنگ کے ذریعے جوڑا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ ان ذیلی منصوبوں کا مجموعی حجم بھی چالیس ملین ایکڑ فٹ سے بآ سانی بڑھ سکتا ہے۔ یوں صوبوں کی حسب ضرورت محفوظ علا قائی ذخیروں کا متبادل موجود ہے۔ 1960ء میں ورلڈ بینک نے اس پر فزیبیلٹی سٹڈی تیار کی تھی۔ وہ واپڈا کے ریکارڈ میں ہونی چاہئے جسے اب نئے حالات میں کچھ تبدیلیوں کے ساتھ دوبارہ تیار کیا جا سکتا ہے۔55 سال قبل تربیلا سے سرنگوں کا بنانا بہت مہنگا اور کٹھن کام تھا لیکن اب جدید ترین ٹیکنیک کی وجہ سے TBM سے متعلقہ پراجیکٹس کیلئے یہ کچھ بھی مشکل نہیں رہ گیا۔ انجینئر انعام صاحب کا دعویٰ ہے کہ صرف6 بلین ڈالر کی لاگت سے '' مجوزہ سواں ڈیم‘‘ سے پانچ ہزار میگا واٹ تک بجلی اگلے چار سال میں بآسانی حاصل ہو سکے گی اور اس پر اٹھنے والے اخراجات کی بات کی جائے اورڈیزائن اور سائز کو سامنے رکھا جائے تو اس سے متعلق نہروں کی کھدائی پر بھاری اخراجات آئیں گے لیکن اس کے با وجود یہ بھاشا ڈیم کی لاگت سے نصف ہوں گے۔
انعام الرحمان صاحب کے اس منصوبے کی تفصیلات پڑھنے کے بعد میرا یہ یقین اور بھی پختہ ہو گیا کہ اﷲ نے پاکستان کو ہر طرح کی نعمتوں سے بھر پور طریقے سے نوازا ہے۔ بہترین دماغ اور صلاحیتوں کے لوگوں کی کسی بھی شعبے میں کمی نہیں ۔ہاں اگر کمی ہے تو درست فیصلہ کرنے والوں کی،اس ملک کے وسائل کو اپنے خاندانوں کی بجائے انسانوں کے استعمال میں لانے والوں کی ۔ پاکستان کے چاروں طرف نظریں اٹھا کر دیکھیں تو اﷲ کے حضور سجدۂ شکرادا کرنے کے علا وہ اور کوئی خیال نہیں آتا کہ اس نے پاکستان کے محدود جغرافیہ میں فطرت کے ہر رنگ اورہر موسم کا جہان آباد کر دیا ہے۔ دیکھا جائے تو کشمیر کی وادیوں سے دشت خاران تک، روہی سے پنجاب کے زرخیز میدانوں تک،پوٹھو ہار کے پتھریلے جمال سے کیچ کے بیابانوں تک، مہران کے جنگل بیلوں سے تھر کے تپتے ٹیلوں تک، بدین کی مسحور کن ڈھانڈوں سے سوات اور کالام کے برف زاروں تک، قراقرم کی سنگلاخ برف پوش چوٹیوں سے مکران کے ساحلوں تک اس پر اتنے موسم آتے ہیں کہ دنیا میں کہیں اور اکٹھے نہ ملیں۔
ایک رپورٹ کے پاکستان کا قریباً آدھا پانی ہمالیہ،قراقرم اور ہندو کش کے پگھلتے برف زاروں سے حاصل ہوتا ہے جبکہ باقی نصف بارشوں سے جن کا زیا دہ جوبن صرف برسات کے دنوں میں ہوتا ہے۔جولائی سے ستمبر تک شدید بارشوں کی وجہ سے سیلاب کی صورت حال ہوتی ہے اور اضافی پانی چاروں صوبوں میں تباہی مچاتا ہوا بحیرۂ عرب میں جا گرتا ہے۔اگر یہ کہا جائے تو قطعاًغلط نہیں ہو گا کہ پاکستان بننے سے اب تک ،نا اہلی اور وطن کے مفادات سے لا تعلقی رکھنے کی وجہ سے،سمندر میں گرنے والے سالانہ پانی کی اوسط قیمت 70کھرب روپے ہے جو ملک کے 66 سال کے مجموعی قرضوں سے بھی زیا دہ ہے اور ہر سال آنے والے سیلاب سے قیمتی جان و مال کی تباہی الگ۔ اگر ہم صرف اپنے دریائوں کی طغیانی پر ہی قابو پا لیں تو ایک طرف عوام کے جان و مال کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے تو دوسری طرف اضافی پانی ذخیرہ کر کے ملک میں سستی بجلی کے علا وہ دگنا اناج پیدا ہوسکتا ہے اور ہم زراعت میں خودکفیل ہوسکتے ہیں۔ اس کے علا وہ تربیلا سے اوپر مجوزہ نئے پن بجلی گھروں کی کار کردگی بھی بڑھ جائے گی اور ساتھ ہی تربیلا کا کردار صرف برسات میں پانی موڑنے،سیلاب روکنے اور بہتے پانی سے بجلی بنانے کا رہ جائے گا جس سے اس کی کار آمد عمر میں بھی اضافہ ہو گا جبکہ پانی ذخیرہ کرنے کی سو سال تک کی تمام ذمہ داری سوان ڈیم سنبھال لے گا۔ ساتھ ہی دریائے سندھ کے بہائو میں موجو دہ رکاوٹ بھی ختم ہو جائے گی اور تربیلا میں رکنے والی گار( سلٹ) بہائو کے ساتھ ٹھٹھہ اور بدین تک پہنچنا شروع ہو جائے گی جس سے سمندر کا رسائو اور پیش قدمی رک جائے گی۔ سندھ ڈیلٹا کیلئے چھ سے دس ملین ایکڑ فٹ پانی کا مختص کوٹہ پورے سال کے دوران دستیاب ہو گا،جس سے تھر کے جنگلات،بحری اور دریائی حیات اور ماحولیات کو بھر پور فائدہ پہنچنے سے سندھ خوش حالی کی طرف بڑھے گا۔
بغیر کسی شک کے کہا جا سکتا ہے کہ سواں ڈیم ملک کے آبی خزانے کا امین ہو گا جہاں سے ہر صوبہ اپنے معمول اور ضروریات کے مطابق اپنا پانی حاصل کر سکے گا۔فی الوقت پاکستان میں ربیع میں33-35 ملین ایکڑ فٹ پانی دستیاب ہوتا ہے۔ سواں ڈیم کی موجو دگی سے ساحلی علا قوں کیلئے مختص کوٹہ کے با وجود ربیع کا پانی بڑھا کر ساٹھ ملین ایکڑ فٹ تک کیا جا سکتا ہے۔ ربیع اور اگیتی خریف کیلئے وافر پانی کی سہولت سے نہ صرف غلے ، کپاس اور چارے کی پیداوار دگنی ہو سکتی ہے بلکہ گوشت، ڈیری اور پولٹری میں بھی نمایاں ترقی ہو گی۔ ساتھ ہی حکومت کو بجلی ، آبیانہ، اور ٹیکسوں کی مد میں کھربوں روپے کی اضافی آمدنی ہو گی اور لوگوں کو نئے روزگار کے وسیع مواقع ملیں گے۔
سواں ڈیم کیلئے کوئی نئی ٹیکنالوجی بھی درکار نہیں بلکہ یہ ارزاں اور عشروں پرانی مہارت سے چار سے پانچ سال میں تعمیر ہو سکے گا ! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved