جموں و کشمیر میں قانون سازاسمبلی انتخابات 2014 ء کی تکمیل کے دو ماہ بعد اب کسی حد تک حکومت سازی کے معاملہ میں پیش رفت نظر آرہی ہے۔یہ بھی کتنی ستم ظریفی ہے کہ وادیٔ کشمیرمیں عوام کی بھاری اکثریت نے صرف اسی لئے ان انتخابات میں شرکت کی ، کیونکہ وہ ہندو قوم پرست اور دہلی میں برسر اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو اقتدار سے باہر رکھنے کے خواہاں تھے۔ انتخابات کے دوران بی جے پی نے اپنا ہندو ایجنڈا نہ صرف کھل کرپیش کیا ، بلکہ ریاست کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے اور سیاسی ہتھکنڈوں کے ذریعے مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی باتیں بھی کیں،مگر اب چونکہ اس پارٹی نے جموں کے ہندو خطے میں کانگریس کا صفایا کر کے 25سیٹیں حاصل کیں ، وادیٔ کشمیر سے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت پیپلزڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) اس کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کیلئے کوشاں ہے۔
حال ہی میں جموں دورہ کے دوران راقم نے پی ڈی پی کے سر پرست مفتی محمد سعیدسے جب اس گومگو صورت حال کے حوالے سے بات کی او ر سوال کیا کہ جب نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے ان کو حکومت سازی کیلئے مدد کی پیشکش بھی کی ہے، تو آخر وہ بی جے پی کے ساتھ کیوں سلسلہ جنبانی میں مصروف ہیں؟ تو ان کا جوا ب تھاکہ چونکہ بی جے پی کشمیر میں حکومت میں شرکت کیلئے از حد بے قرار ہے، تو اس کا فائدہ کیوں نہ اٹھایا جائے۔ چونکہ یہ پارٹی دہلی میں برسر اقتدار ہے، اس لیے اس کے ساتھ کشمیر کے مستقبل کے حوالے سے کوئی تحریری قول و قرار کیا جاسکتا ہے۔ ماضی میں کشمیر کی پارٹی نیشنل کانفرنس نے تین بار دہلی میں اس وقت کی کانگریس سرکاروں کے ساتھ معاہدے کئے ہیں۔ 1950ء کے شیخ عبداللہ اور جواہر لال نہرو کے درمیان دہلی ایگریمنٹ کی سیاہی خشک بھی نہیں ہوئی تھی، کہ 1953ء میں آنجہانی نہرو نے ذاتی دوستی کو نظر انداز کرتے ہوئے شیخ صاحب کو برخاست کرکے جیل بھیج دیا کیونکہ ان کا قصور تھاکہ وہ دہلی ایگریمنٹ کی بھارتی پارلیمان سے توثیق کے ساتھ ساتھ اس پر عمل کی مانگ کر رہے تھے۔ 1975ء میں شیخ عبداللہ نے اقتدار میں واپسی کی۔ ان کو چیف منسٹری عطا کی گئی، مگر اندرا گاندھی کے ساتھ کیے گئے معاہدے میں وہ دو ایک سیاسی شقوں کا اندراج کرنے میں کامیاب تو رہے، مگر ا ن پر عمل نہیں کرواسکے۔ جس میں سب سے اہم ان تمام قوانین پر نظر ثانی کرنا تھا، جو 1953ء کے بعد اسمبلی نے پاس کئے تھے،کیونکہ اس پوری مدت کے دوران کشمیر کی کسی بھی عوامی پارٹی کی انتخابات میں عدم شرکت کے باعث ان اسمبلیوں کا نمائندہ کردار ہی متنازعہ تھا۔1986ء میں ان کے فرزند ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے راجیو گاندھی کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے کانگریس کے ساتھ اتحاد کرکے چیف منسٹری کی کرسی حاصل تو کی، مگر اس معاہدے میں کوئی سیاسی مراعات حاصل نہیں کرسکے۔ اسی معاہدے پر کشمیری عوام کی برہمی نے بعد میں خطے میں عسکری جدوجہد کی داغ بیل ڈالی۔
تاریخ کا پہیہ اب 1996ء تک پہنچتا ہے۔عسکری جدوجہد اور بین الاقوامی دبائو نے نئی دہلی کی چولیں ہلا کر رکھ دی تھیں۔ اس وقت کے کانگریسی وزیر اعظم نرسمہا رائو کشمیر میں انتخابات کروانا چاہتے تھے، اور اس کے عوض کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار تھے۔نیشنل کانفرنس نے ابتدا میں پوزیشن لی کہ دہلی ایگریمنٹ پر عمل درآمد اور سبھی چھینے گئے سیاسی حقوق کی بحالی کے بغیر وہ انتخابات میں حصہ لے گی اور نہ ہی کسی عوامی حکومت کا حصہ بنے گی، مگرنرسمہا رائو کی اقتدار سے بے دخلی کے چند مہینوں بعد ہی وزیر اعظم دیو گوڑا کی حکومت میں وزیر خارجہ اندر کمار گجرال اور سی ایم ابراہیم نے فاروق عبداللہ پر جانے کیا جادو کیا، کہ بغیر سیاسی مراعات کی پیشکش کے وہ انتخابات میں حصہ لینے اور حکومت بنانے پر تیار ہوگئے۔ بتایا جاتا ہے کہ گجرال نے انہیں زبانی یقین دہانی کرائی تھی کہ اسمبلی میں ان کی بھاری اکثریت یقینی بنائی جائے گی، اور ان سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ بعد میں وہ اسمبلی سے کشمیر کو سیاسی مراعات کے حوالے سے خود مختاری کا ایک ریزولوشن پاس کروادیں۔2000ء میں جب فاروق عبداللہ حکومت نے اسمبلی سے قرارداد منظور کروائی، گجرال اور دیوی گوڑا کا سورج غروب ہوچکا تھا، اور ہندو قوم پرست بی جے پی برسراقتدار تھی۔ وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی کابینہ نے پانچ منٹ میں اس قرار داد پر بحث تو دور کی بات پڑھے بغیر ہی اسے مسترد کردیا۔
اس صورت حال کے حوالے سے مفتی صاحب کا کہنا تھا کہ و ہ زبانی قول و قرارکے بجائے تحریری طور پر مغربی پاکستان کے جموں و کشمیر میں سکونت پذیر شر نارتھیوں، فوج کو حاصل خصوصی اختیارات افسپا کی واپسی اور بھارتی آئین میں دفعہ 370سے جڑے مسائل کے تعلق سے ضمانت لیں گے۔ چونکہ دہلی کے انتخابی نتائج ایک دھماکے کی مانند بھارتی سیاسی منظر نامے پہ چھا گئے ہیں ، اس لئے یہ الیکشن رزلٹ جموں کشمیر میں بھی حکومت سازی کے عمل کو متاثر کر گئے۔ایک اور وجہ یہ بھی رہی کہ بھاجپا چونکہ پی ڈی پی کے ساتھ حکومت سازی کیلئے مذاکرات میں مشغول تھی، دہلی انتخابی نتائج سے پہلے افسپا،دفعہ 370اور مغربی پاکستان کے جموں و کشمیر میں سکونت پذیر پناہ گزینوں کے بارے میں کوئی بھی قول و قرار کرنے سے ہچکچا رہی تھی۔ تاہم انتخابی نتائج کا اعلان ہونے کے فوری بعد یہ
خبر آئی کہ اس باب میں طرفین کے درمیان' ' پیش رفت ‘‘ہوئی ہے ۔ کچھ حلقوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ کچھ ایجنسیاں یہ نہیں چاہتی تھیں کہ نیشنل کانفرنس کے پیدا کردہ سیاسی خلا کو ریاست میں دیگر مقامی تنظیمیں پر کریں جن پہ اْن کی کوئی پکڑ نہیں، اس لئے نیشنل کانفرنس کے مد مقابل پی ڈی پی ظہور پذیر ہوئی۔ یہ ایک ایسی تنظیم ہے جو بھارت کے ساتھ کشمیر کے الحاق کو حتمی تو مانتی ہے لیکن ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی اور مسلم حیثیت کو بھی بر قرار رکھنا چاہتی ہے۔ اس کا دعویٰ نیشنل کانفرنس کو بھی ہے مگر اس کا طرز عمل اس کے بالکل الٹ رہا ہے۔حریت اور جموں و کشمیر لبریشن کا یہ ماننا ہے کہ خود مختاری یا خود حکمرانی ایسے نعرے ہیں جن سے بھارت نواز سیاسی پارٹیاں چاہے وہ نیشنل کانفرنس ہوں یا پی ڈی پی ، ووٹ حاصل کرنے کیلئے عوام الناس کو بہکاتی ہیں اور بر سر اقتدار آتے ہی چولہ بدل کے دہلی حکومت کے احکامات بجا لانے میں پیش پیش رہنا اْن کے معمولات میں شامل ہو جاتا ہے، یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا ہے جب تک کہ لوگ اگلے انتخابات میں اْنہیں باہر کا راستہ نہ دکھائیں۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی پی ڈی پی سے تنگ آ کر نیشنل کانفرنس کو چنااور کبھی پی ڈی پی کو نیشنل کانفرنس پر فوقیت دی جاتی ہے ۔چونکہ دونوں کی سیاسی ساکھ کم و بیش ایک ہی ہے، لہٰذا بھارتی حکمرانوں کیلئے حکومت بدلی کسی پریشانی کا سبب نہیں بنتی ،وہ بھی ایک ایسی صورت حال میں جہاں حکومت سازی کا عمل مر کزی حکومتوں اور بھارتی جماعتوں کے بغیر ممکن العمل نہیں۔ جہاں پچھلے 12سالوں کے دوران کانگریس علاقائی پارٹیوں کے ساتھ ملی جلی سرکاروں میں شامل رہی، وہیں آج کانگریس کی جگہ بی جے پی نے لے لی ہے۔
مفتی سعید نے تاہم راقم کو بتایاکہ وہ پنے ایجنڈا پر کسی طرح کی نرمی لانے کیلئے بھی تیار نہیں ہے بلکہ ان کا ماننا ہے کہ جب تک فوج کو حاصل خصوصی اختیارات (افسپا) کی ایک سال کے اندر واپسی، مغربی پاکستان کے رفیوجیوں کا معاملہ التوا میں رکھنے اور دفعہ 370کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کرنے کے ساتھ ساتھ ایجنڈا میں شامل دیگرنکات یعنی پاکستان کے ساتھ کشمیر پر بامعنی مذاکرات من و عن نہیں عملائے جائیں گے تب تک حکومت سازی ناممکن ہے۔ پارٹی ذرائع کے مطابق مفتی سعید جو پی ڈی پی میں فیصلہ لینے کا اختیار رکھتے ہیں ،کا کہنا ہے کہ' اْن کی شبیہ دائو پر ہے اسلئے وہ اس کو تباہ کرنے کا کوئی موقعہ فراہم نہیں کریں گے اور نہ ہی ماضی میں نیشنل کانفرنس کی طرف سے کی گئی غلطیوں کو دہرائیں گے۔ ادھر بی جے پی اس نقطہ نظر کی حامی ہے کہ پاکستان کے ساتھ بات چیت خارجی معاملہ ہے۔لہٰذا اب یہ دیکھنا ہے کہ یہ معاملہ کیسے حل ہوگا۔ فوج کے زیر قبضہ اراضی کی واپسی بھی اتحاد کے ایجنڈا میں شامل ہے کہ فوج اور نیم فوجی دستوںکے زیر قبضہ اراضی اور تعمیرات کو خالی کیا جائے۔واضح رہے کہ گزشتہ سال سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے قانون ساز اسمبلی میں کہا تھا کہ ریاست میں فوج کے زیر قبضہ 66690کنال اور دس مرلہ زمین ہے۔ پی ڈی پی نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ بجلی پروجیکٹ نیشنل ہائیڈل پاور کارپوریشن (این ایچ پی سی) بشمول اوڑی اور سلال واپس کئے جائیں۔پارٹی نے پاور پروجیکٹس کیلئے ورلڈ بینک اورایشین ڈویلپمنٹ بینک جیسے مالیاتی اداروں کی طرف سے قرضوں کیلئے حکومت ہند سے متوازی ضمانت فراہم کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے ۔پی ڈی پی نے لوگوں کی آزادانہ نقل و حرکت اورکشمیر اور مظفر آباد کے درمیان آزادانہ کاروبار پر بھی زور دیا ہے۔اس کے ساتھ ہی بیرون ریاستوں میں مقید کشمیری قیدیوں کی واپسی کے علاوہ سرینگر اور جموں کو سمارٹ سٹی بنانے کیلئے رقومات کی واگذاری اور جھیل ڈل کو عالمی ثقافتی درجہ دینے کے مطالبے بھی پیش کئے ہیں۔