نصیرالدین شاہ نے اِس بار پاکستان پہنچ کر دِل کی بھڑاس یُوں نکالی کہ لوگ دانتوں تلے اُنگلیاں داب کر رہ گئے۔ آنے کا مقصد لکھی اور چَھپی ہوئی باتوں یعنی آپ بیتی کا اجراء تھا مگر اِس ایجنڈے کو اُنہوں نے ایک طرف ہٹایا اور مُلّا نصیرالدین بننے کی کوشش کرتے ہوئے ایسی باتیں شروع کردیں کہ پہلے ہی سے فریفتہ میڈیا اُن پر مزید نچھاور ہوگیا۔
نصیرالدین شاہ نے لاہور میں اپنی آپ بیتی ''اینڈ دین ون ڈے‘‘ کی تقریب رونمائی میں جو لَب کُشائی کی وہ بہت سوں کا بھلا کرگئی۔ ہمارا بھی کہ ہم اِس وقت یہ کالم سُپردِ قرطاس و قلم کر رہے ہیں۔
نصیرالدین شاہ کہتے ہیں۔ ''بالی وُڈ پر فخر نہیں کرتا۔ گلزار صاحب کے سیریل میں غالبؔ کا کردار محض اتفاق سے اچھا ہوگیا۔ وہ یہ کردار سنجیو کمار سے کرانا چاہتے تھے۔ اِس کے بعد اُن کی نظر پنکج کپور اور فاروق شیخ پر پڑی۔ میں نے گلزار صاحب کو خط لکھا کہ غالبؔ کا کردار ادا کرنے کا سب سے زیادہ اہل میں ہوں کہ میں میرٹھ میں پیدا ہوا، دِلّی میں غالبؔ کے مکان کے سامنے سے ہوکر اسکول جایا کرتا تھا اور اُن کے اشعار اور فلسفے کو سمجھتا ہوں۔ غالبؔ کا کردار تو مل گیا مگر برسوں بعد گلزار صاحب نے بتایا کہ اُنہیں میرا کوئی خط نہیں ملا تھا۔‘‘
''میں نے غالبؔ کا کردار ادا کیا تب تک بھارت کے لوگ بھارت بُھوشن ہی کو غالبؔ سمجھتے تھے حالانکہ اُنہوں نے یہ کردار خاصے روایتی فلمی انداز سے ادا کیا تھا۔ لوگوں نے غالبؔ کی تصویر دیکھی ہے نہ آواز سُنی ہے مگر گاندھی جی کو تو سب دیکھ اور سُن چکے ہیں اِس لیے جب میں نے 'ہے رام‘ میں گاندھی کا کردار ادا کیا تو بھرپور کوشش کرنی پڑی کہ اُن جیسا دکھائی دوں۔‘‘
ہم سمجھ نہیں پائے کہ نصیرالدین شاہ کیا کہنا چاہتے تھے۔ یہ کہ غالبؔ کا کردار اُنہیں آخری چوائس کے طور پر ملا؟ یا یہ کہ گلزار جیسے رائٹر اور ڈائریکٹر کو بھی اندازہ نہ تھا کہ غالبؔ کا کردار کون ڈھنگ سے ادا کرسکتا ہے؟ اگر نصیرالدین شاہ کے بقول گلزار یہ کردار سنجیو کمار یا پنکج کپور سے کرانا چاہتے تھے تو ہم گلزار صاحب کے لیے دُعا ہی کرسکتے ہیں! سنجیو کمار کا لہجہ بہت اکھڑ، کُھردُرا اور غُرّاتا ہوا تھا جبکہ پنکج کپور کی آواز میں ہریانوی لہجہ صاف جھلکتا ہے۔ اگر پنکج کپور کو منتخب کیا جاتا تو ہمیں تسلیم کرتے ہی بنتی کہ غالبؔ راجپوت تھے اور یُوں ہم اُنہیں ''بلبلِ میوات‘‘ کا لقب دینے پر مجبور ہوتے!
اگر میرٹھ میں پیدا ہونا اور غالبؔ کے مکان کے سامنے سے گزرنا اِس کردار کے لیے بنیادی اہلیت میں شُمار ہوسکتا ہے تو پھر ہم بھی غالبؔ کا کردار ادا کرسکتے ہیں کیونکہ ہم میرٹھ میں بھلے ہی پیدا نہ ہوئے ہوں، بَلّی ماراں کی گلی قاسم جان میں غالبؔ کے مکان کے سامنے سے تو کئی بار گزرے ہیں۔ میرٹھ کا ذکر مکمل طور پر ناموزوں نہیں کہ جس ناکام ''جنگِ آزادی‘‘ نے غالبؔ سمیت پوری دِلّی کو تباہی اور مایوسی کی غلامی میں دے دیا وہ میرٹھ کی چھاؤنی ہی میں پیدا ہوئی تھی!
ہاں، غالبؔ کے اشعار اور فلسفے کو سمجھنے کا دعوٰی کرنے کی ہمت ہم اپنے اندر نہیں پاتے۔ یہ جُرأتِ نایاب نصیرالدین شاہ ہی کو مبارک ہو!
نصیرالدین شاہ نے باتوں ہی باتوں میں ''شعلے‘‘ کو بھی چھیڑا۔ کہتے ہیں کہ یہ ہالی وُڈ کی 25 فلموں کا چربہ ہے۔ اور یہ کہ اِسے بالی وُڈ کی سب سے بڑی فلم قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ''شعلے‘‘ کے ذکر پر ''یوں کہ یہ کون بولا‘‘ والی کیفیت سے دوچار ہوکر جاوید اختر بھی چونکے بغیر نہ رہ سکے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اگر ''شعلے‘‘ چربہ ہے تو نصیرالدین شاہ بھی دلیپ کمار کی نَقّالی بند کریں!
''شعلے‘‘ کے دفاع میں کچھ کہنے سے قبل ہم جاوید صاحب سے التماس کریں گے کہ نصیرالدین شاہ پر دلیپ صاحب کی نَقّالی کا الزام عائد کرکے دلیپ صاحب کو اِس شدید بُڑھاپے میں جان لیوا اذیّت سے دوچار نہ کریں!
جن 25 فلموں کی مدد سے، نصیرالدین شاہ کے بقول، ''شعلے‘‘ بنائی گئی وہ تو اوروں نے بھی دیکھی ہوں گی۔ اُنہیں اِن 25 فلموں کو ملاکر ''شعلے‘‘ جیسی فلم لکھنے کا خیال کیوں نہ آیا؟ اور چربہ بھی تو ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ یہ ''انگور کھٹّے ہیں‘‘ والا معاملہ ہوا۔ ناصرؔ کاظمی خوب یاد آئے ؎
کہتے ہیں غزل قافیہ پیمائی ہے ناصرؔ
یہ قافیہ پیمائی ذرا کرکے تو دیکھو!
''شعلے‘‘ میں وہ سبھی کچھ تھا جو عوام کو بھاتا ہے۔ سادہ کہانی، جاندار مکالمے، حیران کردینے والی اداکاری، مَن کو لُبھانے والی موسیقی، مسحور کردینے والے سیٹ، چونکانے والی سنیماٹوگرافی اور اُس سے بھی زیادہ چونکانے والی ایڈیٹنگ۔ بس ایک نصیرالدین شاہ کی کمی رہ گئی۔ اگر وہ بھی فلم میں کہیں ہوتے تو آج جاوید صاحب اور رمیش سِپّی کو یہ تمام باتیں نہ سُننا پڑتیں!
جاوید صاحب کہتے ہیں کہ نصیرالدین شاہ تضادات کا شکار رہے ہیں۔ وہ جتیندر بننا چاہتے تھے۔ جب نہ بن سکے تو کمرشل ازم اور اسٹارڈم کو لتاڑنے پر تُل گئے۔ جاوید صاحب نے درست کہا۔ کمرشل سنیما اور نصیرالدین شاہ کے درمیان ''چَھتّیس کا آنکڑا‘‘ ہے! جب وہ متوازی سنیما میں تھے تو اسٹارڈم کو بُرا کہا کرتے تھے۔ ''تری دیو‘‘ کے گانے ''اوئے اوئے‘‘ سے اُن کے کیریئر کو نئی زندگی ملی، بلکہ خود اُنہی کے بقول کیریئر میں دس سال جُڑگئے، تو اُنہوں نے متوازی سنیما میں کام کرنے کو وقت کا ضیاع قرار دیا!
نصیرالدین شاہ نے اصل ہنگامہ اپنی پسند و ناپسند بتاکر برپا کیا ہے۔ کہتے ہیں۔ ''میرے پسندیدہ اداکار شَمّی کپور اور دارا سنگھ ہیں۔ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ میں اِن دونوں کا ذکر طنزاً کرتا ہوں۔ (چور کی داڑھی میں تِنکا!) میں واقعی اِن دونوں فنکاروں کو پسند کرتا ہوں۔ 'مغلِ اعظم‘ اور 'پیاسا‘ میری پسندیدہ فلمیں ہیں۔‘‘
بات عجیب سی ہے کہ پسندیدہ فلم ''مغل اعظم‘‘ قرار پائے اور دلیپ کمار یا پرتھوی راج کپور کی اداکاری کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شَمّی کپور اور دارا سنگھ کو پسندیدہ اداکار بتایا جائے۔ شَمّی کپور کا ذکر تو گوارا کیا جاسکتا ہے مگر دارا سنگھ؟ یہ تو دِل کی بھڑاس نکالنے والی بات ہوئی۔ ایسا لگتا ہے کہ نصیرالدین شاہ نے دارا سنگھ کا گُرز گُھماکر دلیپ صاحب کے چاہنے والوں کو دے مارا ہے!
دلیپ صاحب کا ذکر گول کر جانے پر پاکستان کے جہاں دیدہ فنکاروں نے نصیرالدین شاہ کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ فردوس جمال کہتے ہیں۔ ''نصیرالدین شاہ احساسِ کمتری کا مارا ہوا انسان ہے۔ میں تو اُسے اداکار ہی نہیں مانتا۔ 'کرما‘ میں دلیپ صاحب کے مقابل رعایتِ لفظی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اُس نے بُغض نکالا تھا تب سے اُس کی پرفارمنس سے برکت اُٹھ گئی ہے۔ نصیرالدین شاہ نے غالبؔ کے اشعار بھی غلط پڑھے۔ پسندیدہ اداکاروں میں دلیپ صاحب کا نام نہ لینا منافقت ہے۔‘‘
فردوس بھائی! دلیپ صاحب کا نام نہ لینا منافقت نہیں بلکہ آپ ہی کے بقول بے برکتی ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ کچھ لوگ دلیپ صاحب کے خلاف جاکر خبروں میں جگہ بنانے پر یقین رکھتے ہیں۔ نصیرالدین شاہ اُنہی میں سے ہیں۔ آپ غالبؔ کے اشعار غلط پڑھنے کی بات کرتے ہیں، نصیرالدین شاہ لہجے میں ملائمت بھی پیدا نہ کرسکے۔ غالبؔ آگرہ میں پیدا ہوئے اور عنفوانِ شباب سے آخری دم تک زندگی دِلّی میں جامع مسجد کے آس پاس اُن گلیوں میں گزری جہاں اُردو پروان چڑھی مگر نصیرالدین شاہ کے ادا کئے ہوئے کردار میں آگرہ کی جھلک دکھائی دی نہ دِلّی کی۔ کئی مقامات پر اُن کا مکالمہ سُن کر لگا کہ غالبؔ شاید حیدر آباد دکن کے تھے!
فردوس بھائی کہتے ہیں۔ ''نصیرالدین شاہ کو سُبحانی بایونس کی سی ڈی دی جائے تاکہ دوسرے درجے کا یہ اداکار دیکھے کہ غالبؔ کس طور بنا جاتا ہے۔‘‘ ہم فردوس بھائی کی تجویز مُسترد کرتے ہیں کیونکہ سُبحانی بایونس کو غالبؔ کے کردار میں دیکھ کر بے چارے نصیرالدین شاہ احساسِ کمتری کا مزید شکار ہوجائیں گے! اور اِس کے بعد اگر اُنہوں نے مُنہ کی توپ کا رُخ سُبحانی بایونس مرحوم کی طرف کردیا تو وہ بے چارے ''مرکے بھی چین نہ پایا تو کِدھر جائیں گے‘‘ والی کیفیت سے دوچار ہوجائیں گے!
''تری دیو‘‘ کے ''اوئے اوئے‘‘ سے کیریئر کو نئی اُٹھان ملی اور اب ''ڈرٹی پکچر‘‘ کے ''اُو لالہ، اُو لالہ‘‘ نے نصیرالدین شاہ کے دام بڑھائے ہیں۔ ایسے میں مناسب یہی ہے کہ بے سَر و پا باتوں سے اپنے امیج کو ڈرٹی پکچر میں تبدیل نہ کریں!