پاکستانی کرکٹ میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ غیر منطقی نہیں۔ ابتدائی شکستوں کے بعد ‘ میں نے جو پہلا کالم لکھا تھا‘ اس میں یہی بیان کیا تھا کہ روبہ زوال اور انحطاط کے شکار معاشرے میں کوئی بھی چیز معمول کے مطابق نہیں رہ سکتی۔کہیں کہیں کوئی ستارہ چمکتا ہے لیکن تاریکیوں کی گہرائی فوراً ہی اسے نگل جاتی ہے۔ ہم خرابی کے جس پست درجے کو پہنچ چکے ہیں‘ اس میں اصلاح کی کوئی گنجائش نہیں۔ کھانا ایک بار جل جائے تو سارے کا سارا دوبارہ پکاناپڑتا ہے۔پانی میں سیاہی گھل جائے تو پھر اسے واپس اصلی حالت میں لانا ممکن نہیں رہتا۔پاکستان کاگدلا معاشرہ بھی اپنے انجام کی طرف گامزن ہے اور سچی بات ہے‘ مجھے پاک فوج بھی مشکل میں نظر آتی ہے۔بندوق سے بال نہیں سنوارے جا سکتے۔ ہر چیز کا اپنا اپنا ایک کام ہوتا ہے۔ بندوق ‘ دشمن کو تو ختم کر سکتی ہے لیکن بیماری کا علاج بندوق سے نہیں‘ دوا سے ہوتا ہے۔ہم‘1958ء میں جمہوریت کے خاتمے کے فوراً ہی بعد‘اناڑی ڈاکٹروں کے تجربوں کی زد میں آگئے تھے اور یہ زندگی کا بہت ہی مشکل مرحلہ ہوتا ہے جب کوئی معاشرہ‘ نا اہل اور طب کے فن سے نا واقف جعلی ڈاکٹروں کے ہتھے چڑھ جائے۔ا یسی صورت میں یہی ہوتا ہے‘ جو ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔ایک غلط دوا دے کر جعلی ڈاکٹر‘ مریض کی حالت دیکھ کر بوکھلا جاتا ہے اور اس بوکھلاہٹ میں وہ‘ دوسری غلط دوائیں دے کر مریض کی حالت کو مزید خراب کر دیتا ہے۔ عمران خان نے گزشتہ دنوں ایک دکھ بھری بات کی تھی کہ ''ہمیں تو کوئی ڈکٹیٹر بھی کام کا نہیں ملا‘‘۔ ڈکٹیٹر ‘بہر حال کوئی نہ کوئی تصور یا نظریہ لے کرآتے ہیں اور اس کے تحت اپنی دنیا کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ سنگل ٹریک لوگ ہوتے ہیں۔ اگر ان کا مطمحِ نظر ترقی ہو‘ تویہ اپنی تمام صلاحیتیں اسی پر مرتکز کر دیتے ہیں۔ اس عمل میں وہ معاشرے کی باقی ضروریات کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اگر وہ اقتدار کی طاقت کا لطف اٹھانے لگیں تو پھر معاشرے کو تباہ و برباد بھی کر دیتے ہیں۔
پاکستان میں ہم دونوں مثالیں دیکھ چکے ہیں۔ایوب خان کے ساتھ‘ جنرل اعظم خان بھی آئے تھے ۔ ایوب اقتدار کی ہوس میں مبتلا تھے جبکہ جنرل اعظم خان‘ کچھ نہ کچھ اچھائی کر دینے کا عزم رکھتے تھے۔ان کا پہلا تصادم‘ کراچی میں ہزاروں کی تعداد میں‘ چھوٹے مکانات تعمیر کر کے بے گھروں کوآباد کرنے کی سکیم پر ہوا۔ایوب خان کے ماتحت ساری حکومتی ادارے روایتی انداز میں سازشوں اور اقربا پروری کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے جبکہ اعظم خان نے پوری کالونی بساتے ہوئے نہ تعمیر کی رفتار میں کمی آنے دی ‘ نہ معیار پر سمجھوتہ کیا اور نہ ہی مکان دیتے وقت‘ کسی کی جائز ناجائز مدد کی۔کرپٹ انتظامیہ کے تحت رہنے والے‘ غریب شہریوں کو جب غیر متوقع طور پر اچھے گھر بغیر کسی رشوت اور سفارش کے مل گئے‘ تو فطری ردعمل یہ ہوا کہ عوام ان کی بے پناہ عزت کرنے لگے۔ ایوب خان نے اس مقبولیت کو اپنے لئے خطرہ سمجھا اور انہیں مشرقی پاکستان کا گورنر بنا کر‘ مغربی پاکستان سے دور کر دیا لیکن اعظم خان کام کے دھنی تھے۔ انہوں نے اپنے گھر سے ہزار میل دور جا کر‘ ایک مشتعل آبادی کے مسائل سمجھنے کی کوشش کی اور ایک صوبائی انتظامیہ کا سربراہ ہونے کے باوجود‘ انہوں نے متوسط اور نچلے درجے کے تاجروں کو آسان شرائط پر قرضے اور زمینیں دے کر کام پر لگا دیا۔ جو لوگ بڑی صنعتیں قائم کر سکتے تھے‘ انہیں ضابطوں کی ساری رکاوٹیں توڑتے ہوئے بھاری قرضے جاری کرنا شروع کر دئیے۔ترقی ‘اتنی تیز رفتاری سے ہوئی کہ صرف ایک سال کے اندر اندر‘ مشرقی پاکستان کی معیشت ترقی کرتے ہوئے کہیں سے کہیں پہنچ گئی۔ ظاہر ہے جب لوگوں کو روزگار ملا اور منڈی میں تیزی آئی تو مغربی پاکستانیوں سے نفرت کرنے والے بنگالی‘ اعظم خان کے پرستار بن گئے۔یہ محبت اس وقت مزید بڑھ گئی جب سیلابوں کے دوران‘ گورنر صاحب اپنے رتبے اور لباس کی پروا نہ کرتے ہوئے‘ مفلوک الحال لوگوں کی آبادیوں میں گندے پانیوں کے اندر گھس کر‘ان کے مطالبات سنتے اور پورے کرتے رہے۔ایسا واقعہ پاکستان میں ایک ہی بار ہوا۔ اسی لئے میں بار بار اس کا حوالہ دیتا ہوں اور وہی مشرقی پاکستان تھا‘ جہاں یحییٰ خان نے بھوک‘ بدامنی اور کساد بازاری کا علاج گولیوں سے کرنے کی کوشش کی۔عوام بھی مزید برباد ہوئے۔ پاکستان بھی ٹوٹ گیا اور پاک فوج کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ میرے ذہن میں اور بھی کئی مثالیں آرہی ہیں لیکن جنوبی کوریا کے ری سنگ من ‘سنگاپور کے لی کوان یو اور ملائشیا کے مہاتیر محمد‘ انتظامی سائنس کے مختلف طریقوں پرعمل کرتے ہوئے‘ اپنے ملکوں کو معاشی اور سماجی بحرانوں سے کامیابی کے ساتھ‘ نکال گئے اور مفلوک الحال معاشرو ں کو ترقی کے راستوں پر گامزن کر دیا۔
نظام خواہ کوئی بھی ہو‘ یہ اس کے چلانے والوں پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ عوام کی خدمت کرتے ہوئے‘ ان کی زندگی بہتر بنائیں یا ہوس اقتدار کی تسکین کے لئے ‘ ان کی زندگی میں مشکلیں پیدا کر کے‘ اسے زیادہ سے زیادہ دشوار بنا دیں۔ہماری بد نصیبی یہی رہی ہے کہ حکمرانوں میں ایک کے سوا‘ کوئی بھی معاشرے کو سنوارنے کا پختہ عزم لے کر نہیں آیا۔ہر نئے آنے والے نے‘ جانے والوں سے زیادہ تباہی پھیلائی اور آج حالت یہ ہو گئی ہے کہ جو بھی حکومت آئی‘ اس نے خود بھی لوٹ مار کو اپنی منزل بنایا اورسرکاری مشینری کو بھی کرپشن کی انتہائی نچلی سطح تک لے گئے۔عوام نے جب بھی حالات کی تبدیلی کے لئے‘ منظم اور متحرک ہونے کی کوشش کی‘ ان پر گولیاں اور لاٹھیاں چلائی گئیں۔ ملائوں کو بے تحاشہ نواز کر‘ ان کو فرقہ وارانہ منافرتیں پھیلانے
پر لگا دیا۔ انہیں مختلف بہانوں سے مسلح کیا۔ سائیکلوں پر پھرنے والے مولویوں کو لینڈ کروزروں میں بٹھا دیااور وہ بسوں اور ریلوں سے نکل کر‘ ہوائی جہازوں میں سفر کرنے لگے۔جب کوئی حکومت‘ اپنے مخالف عناصر کو کرپٹ کر کے انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتی ہے تو پھر معاشرے میں دیانت‘ فرض شناسی اور محنت سے کام کرنا تکلیف دہ ہو جاتا ہے۔ ایمانداری‘ ا یسے شخص کے بیوی بچوں کو غریبی اور تکلیف دہ زندگی میں دھکیل دیتی ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ وہ بھی کرپشن کے بہتے پانی میں کود جاتا ہے۔
ہم سب‘ کرپشن کے دھارے میں ایک ہی بہائو کے ساتھ بہتے چلے جا رہے ہیں۔ یہاں کوئی ایمانداری کی طرف مائل نہیں ہوتا۔پرانی کہاوت ہے کہ جہاں کے حکمران چور ہوں‘ وہا ں کی رعایا بھی ڈاکہ زنی میں مصروف ہوجاتی ہے اور اس وقت ہمارے ساتھ یہی ہو رہا ہے۔میں کرکٹ کے کھلاڑیوں کو مظلوم سمجھتا ہوں۔ انہیں کیپسول میں بند کر کے نہیں رکھا جا سکتا اور نہ حب الوطنی کا کوئی ایسا ٹانک موجود ہے‘ جسے پی کر انسان ذاتی خواہشوں کو کچل کر ایمانداری کی تکلیف دہ زندگی گزارنا پسند کرے۔کرکٹ کھیلنے والے ملکوں میں اچھے کھلاڑیوں کے دن‘ دیکھتے ہی دیکھتے پلٹ جاتے ہیں۔ جب ہمارے کھلاڑی دیکھتے ہیں کہ بنگلہ دیش اور سری لنکا کے کھلاڑی بھی اچھا کھیل پیش کر کے‘ شاندار زندگی گزارتے ہیں تو ہمارے کھلاڑی کوئی سادھو سنت نہیں کہ ذاتی خواہشوں کو کچل کر‘ مشکل زندگی کا انتخاب کریں اور یہی ان کے ساتھ ہو رہا ہے۔دنیا میں ایسا کوئی نسخہ نہیں کہ ساری کی ساری بگڑی ہوئی ٹیم کو ایک فرد راہ راست پر لا سکے۔ترغیبات طاقتور ہوتی ہیں اور مزاحمت کی قوتیں کمزور۔ہمارے جتنے بھی کھلاڑی‘ کھیل میں بے ایمانی اور جوئے کی آمدنی میں شہرت رکھتے ہیں‘ ان سب کا ایک ہی المیہ ہے۔ ان کے معاشرے‘ انہیں ایمانداری ‘ اچھے کھیل اور نیک نیتی کا کوئی صلہ نہیں دیتے جبکہ سازشی‘ گروہ بندی کرنے والے یا انتظامیہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے ماہر کھلاڑی‘ ان کے سامنے زندگی کے مزے اڑاتے اور ان کے حوصلے پست کرتے ہیں۔سینکڑوں میں دو چار کرکٹر ہی ایسے ہوتے ہیں‘ جو عوام میں شہرت اور مقبولیت حاصل کر کے ‘ مختلف تجارتی اشتہاروں میں کام کر کے‘ خوش حالی کی زندگی گزارتے ہیں اور جو شہرت اور مقبولیت سے بھی محروم رہتے ہیں‘ انہیں خوش حال کرکٹروں کا مقابلہ کرنے کے لئے‘ نا پسندیدہ طریقے اختیار کرنا پڑتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ خواہشیں تو پیدا کرتا ہے‘ انہیں پورا کرنے کے ذرائع مہیا نہیں کرتا۔ یہ ہمارا اجتماعی المیہ ہے۔مجھے علم نہیں کہ معین خان نے کوئی بد عنوانی کی ہے یا نہیں؟ وہ دونوں صورتوں میں مظلوم ہے۔ کرکٹ میں اس کا ریکارڈ دیکھیں اور اس کے بدلے میں جو معیار زندگی‘ ہمارے معاشرے نے اسے دیا ہے‘ وہ کیا ہے؟اگر وہ بے گناہ ہے‘ تو ہم اس کی کردار کشی کر کے‘ ظلم ڈھا رہے ہیں۔ اگر وہ گناہ گار ہے‘ تو مجھے اس سے ہمدردی ہے کہ معاشرے نے اسے وہ کچھ نہیں دیا‘ جس کا وہ حقدار ہے۔