تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     25-02-2015

کیسینو سے فوجی عدالت تک

دہشت اور وحشت میں مقابلہ ہے۔ اور اِن دونوں میں جو ٹھنی ہوئی ہے اُس سے قومی کرکٹ ٹیم کی جان پر بنی ہوئی ہے۔ جب اِنسان ڈرا ہوا بھی ہو اور بدحواسی سے بھی دوچار ہوتو ع
پاؤں رکھتا ہوں ... اور کہیں پڑتا ہے
والی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ ایسے میں کچھ اچھا بھی کرنے جائیے تو بُرا ہو جاتا ہے۔
ورلڈ کپ نے قوم اور قومی کرکٹ ٹیم دونوں کو خاصے جاں گُسل مراحل سے گزرنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ ابتدائی دونوں میچوں میں شکست نے ہمارے کرکٹرز کے گلے میں جن مُشکلات کا طوق ڈال دیا ہے اُس کے بوجھ سے گردنیں جُھکی جاتی ہیں۔ لوگ خُدا جانے کون سی دُنیا میں رہتے ہیں۔ ہر معاملے میں بھرپور فتح کو اپنا پیدائشی استحقاق سمجھ بیٹھے ہیں۔ کھیل کو کھیل کے طور پر ہی لینا چاہیے۔ اور کھیل میں ہار جیت تو ہوتی ہی رہتی ہے۔ کبھی ہم ہار گئے، کبھی وہ جیت گئے!
بات ہو رہی تھی دہشت اور وحشت کی۔ پہلے بھارت اور اُس کے بعد ویسٹ انڈیز سے مات کھانے کے بعد ہمارے کرکٹرز پر جو دہشت سوار ہوئی اُسی دہشت نے اب وحشت کو جنم دیا ہے۔
یہ بھی طُرفہ تماشا ہے کہ ہم ہر جان لیوا کیفیت سے لُطف کشید کرنے لگے ہیں۔ ہر مشکل کیفیت کی طرح اب ہمارے لیے وحشت کا بھی ایک اپنا ہی مزا ہے۔ اور کیوں نہ ہو کہ ؎
وحشت میں ہر اِک نقشہ اُلٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے، لیلیٰ نظر آتا ہے!
ہم چونکہ ہر معاملے میں خود کو عجیب ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں اِس لیے کرکٹ کو بھی ہم نے کچھ کا کچھ بنا ڈالا ہے۔ دنیا میں بھر میں کرکٹ کھیلی جاتی ہے۔ ہم نے کچھ ایسا اہتمام کیا ہے کہ کرکٹ ہم سے کھیل رہی ہے۔ پہلے روایتی و ازلی حریف سے مُنہ کی کھائی اور پھر ویسٹ انڈیز کو بھی پلیٹ میں رکھ کر میچ دے دیا تو قوم بِھنّا اُٹھی۔ ایسے میں چیف سلیکٹر کا کیسینو جانا آفت اور قیامت ڈھاگیا ہے۔ قوم مشتعل ہے کہ پہلا میچ ہارنے کے بعد ویسٹ انڈیز کے خلاف چیف سلیکٹر کا کیسینو جانا اہلِ وطن کے زخموں پر نمک چِھڑکنے کے مُترادف ہے۔
سبھی چیخ پڑے ہیں۔ میڈیا نے قسمت سے ہاتھ آنے والے رائی کے دانے کو پربت میں تبدیل کرنے کی ابھی ابتداء ہی کی تھی کہ قوم نے آوازے کسنا شروع کردئیے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ملک بھر میں ''صفِ ماتم‘‘ بِچھ گئی۔ آن کی آن میں ایسا شور اُٹھا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ شہریار خان کو میڈیا کا سامنا کرنا پڑا۔ اور اب اُنہوں نے کہا ہے کہ معین خان کو واپس بلایا جارہا ہے۔ اُن کی جگہ ٹیم مینیجر نوید اکرم سلیکشن کمیٹی کے چیئرمین ہوں گے۔ ایک دن قبل شہریار خان نے کہا تھا کہ ٹیم پر غیر معمولی دباؤ ہے۔ قوم کی توقعات بہت زیادہ ہیں اور اِس سے ٹیم کا کھیل بگڑ رہا ہے۔ ہوسکتا ہے شہریار خان صاحب غلط نہ کہہ رہے ہوں لیکن اِدھر قوم یہ سمجھتی ہے کہ ٹیم جان بوجھ کر بنا بنایا کھیل بگاڑنے پر تُلی ہوئی ہے۔ اُس کے غُصّے کی آگ کون سی وضاحت سے بُجھائی جاسکے گی؟
معین خان اچھے وکٹ کیپر تھے۔ مگر اِس بار وہ خود اسٹمپ ہوگئے ہیں ... اور وہ بھی وائڈ بال پر۔ چھوڑنے والی بال کو کھیلنے کی کوشش ایسے ہی گُل کِھلاتی ہے۔ ٹیم غلطیاں کر رہی ہے تو شاید معین خان نے سوچا کہ کہیں وہ پیچھے نہ رہ جائیں اِس لیے ایک آدھ غلطی کرنے میں کچھ ہرج نہیں۔ کیسینو جانے کی خبر جب جنگل کی آگ کی طرح پھیلی تو معین خان کی طرف سے یہ بیان سامنے آیا کہ وہ تو یہ دیکھنے گئے تھے کہ کہیں قومی ٹیم کا کوئی کھلاڑی تو کیسینو نہیں چلا گیا! اِسے کہتے ہیں عُذرِ گناہ بدتر از گناہ! کھلاڑیوں کے اخلاق دُرست رکھنا چیف سلیکٹر کی ذمہ داریوں میں کب سے شامل ہوگیا؟ کارپوریٹ کلچر کا تقاضا ہے کہ سب اپنے اپنے حصے کا کام کریں، دوسروں کے معاملات میں مداخلتِ بے جا کے مرتکب نہ ہوں!
مرزا تنقید بیگ بھی لَب کُشائی کیے بغیر نہ رہ سکے۔ اُن کا استدلال ہے کہ قوم اور قومی کرکٹ ٹیم جس مرحلے سے گزر رہی ہے اُس کا تقاضا ہے کہ چیف سلیکٹر بھی سب کے ساتھ مُصلّے پر بیٹھ کر دُعا کریں۔ مگر افسوس کہ ایسا کرنے کے بجائے اُنہوں کچھ ایسا کیا کہ اب لوگ کہہ رہے ہیں کہ وہ بس اللہ اللہ کریں!
مرزا بھی اِس بات پر سخت ناراض ہیں کہ معین خان نے کیسینو کا رُخ کرکے قوم کے زخموں پر مزید نمک چِھڑکا۔ مرزا کہتے ہیں : ''یہ کیسا چیف سلیکٹر ہے جو کھانے کے لیے ڈھنگ کا وینیو بھی منتخب نہیں کرسکتا؟ ایسے چیف سلیکٹر سے ہم ڈھنگ کی ٹیم منتخب کرنے کی کیا توقع رکھیں؟‘‘
مرزا کا اعتراض دُرست ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم وکھری ٹائپ کے لوگ ہیں۔ جہاں جو کرنا ہو وہاں وہ ہم کبھی نہیں کرتے۔ کرکٹ کے میدان میں ہم کرکٹ کے سِوا پتا نہیں کیا کیا کھیلتے رہتے ہیں۔ کیسینو میں جُوا کھیلا جاتا ہے اور معین خان وہاں پیٹ بھرنے پہنچ گئے۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ جہاں چولھوں پر دیگیں چڑھی ہوں وہاں بیٹھ کر جُوا کھیلا جائے! معین خان کو اگر پیٹ ہی بھرنا تھا تو نیوزی لینڈ میں کیا اِس نوعیت کے ''مقاماتِ آہ و فُغاں‘‘ کی کچھ کمی تھی؟
اب مطالبہ کیا جارہا ہے کہ معین خان کو واپس بلالیا جائے۔ یہ مطالبہ اگرچہ انتہا کا ہے مگر غلط بھی نہیں۔ چیف سلیکٹر کو ٹیم کے ساتھ جانا ویسے بھی نہیں بنتا۔ معین خان چلے ہی گئے تھے تو احتیاط برتتے۔ معاملہ ورلڈ کپ جیسے ایونٹ کا ہو تو ناقدین اور مخالفین ویسے بھی ہر معاملے کو چیتے کی سی نظر سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ رائی کا دانہ ہاتھ لگے تو لوگ پربت کھڑا کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ معین خان لاکھ صفائی پیش کریں کہ وہ ڈائننگ کیلئے گئے تھے مگر لوگ کہاں مانتے ہیں؟ اور خاص طور پر مخالفین تو معاملے کو کچھ کا کچھ ثابت کرنے پر ایڑی چوڑی کا زور لگا رہے ہیں۔ وہ تو یہی کہیں گے ؎
مَے خانے میں زاہد سے کوئی چُوک ہوئی ہے
جانے کے قدم اور تھے، آنے کے قدم اور!
سوال کیسینو جانے کا نہیں، موقع کی نزاکت کا ہے۔ ہم معین خان کی پاک دامنی پر یقین کرنے کو تیار ہیں مگر سوال یہ ہے کہ اگر قومی کرکٹ ٹیم کا کوئی کِھلاڑی کیسینو میں نظر آتا تو؟ ظاہر ہے اُس کے لیے تو وہ قیامت ہی کی گھڑی ہوتی۔ کیا اُسے معافی مِل جاتی؟ کیا وہ یہ کہتے ہوئے خود کو بے قصور قرار دے لیتا کہ جس دن میچ نہ ہو اُس دن وہ پریکٹس سیشن کے بعد کہیں بھی جانے کا اختیار رکھتا ہے؟ معین خان بہت نازک مرحلے پر براشاٹ کھیلا ہے۔ اب اگر وہ آؤٹ قرار دیئے گئے ہیں تو کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔
بھارت اور ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں شکست سے پیدا ہونے والے معاملے کو معین خان نے اپنی بے احتیاطی سے ایسا خراب کیا کہ سینیٹ میں بھی اِس کی گونج سُنائی دی ہے۔ کھیلوں سے متعلق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں قومی ٹیم کے خوب لَتّے لیے گئے۔ چیئرمین کامل علی آغا نے قومی ٹیم کے کڑے احتساب کی کال دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بورڈ کے ہر کونے میں جُواری بیٹھا ہے۔ اُن کا الزام یا دعوٰی ہے کہ کرکٹ بورڈ جواریوں کو پال رہا ہے۔ آغا صاحب یہ بھی کہتے ہیں قوم ''اللہ کرے‘‘ کہتے کہتے تھک گئی ہے۔ اب تو شاید ''خدا ناخواستہ‘‘ کہنے سے ٹیم فائنل میں پہنچے گی! کمیٹی کے رکن قیوم سومرو تو یہ کہتے ہیں کہ کرکٹ ٹیم کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔ اُن کا استدلال ہے کہ دہشت گردی کی طرح کرکٹ گردی ہو رہی ہے۔ سیاست دانوں کا فوجی ٹرائل ہوسکتا ہے تو کرکٹ ٹیم کا کیوں نہیں؟
2007ء میں تو باب وولمر جان سے گئے تھے۔ اِس بار بھی آثار کچھ اچھے نہیں۔ فائنل تک پتا نہیں دِل و نظر پر کیا کیا گزر جائے گی۔ معاملہ معین خان کی ایک ذرا سی بے احتیاطی سے چلا اور فوجی عدالت تک آپہنچا ہے۔ ؎
نہ جانے یہ شبِ غم صُبح تک کیا رنگ لائے گی؟
نَفَس کے ساتھ اِک تلوار سی چَلتی ہے سینے میں!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved