تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     26-02-2015

اُمید سلامت رہے

23 فروری کا عام سا دن چند پُرعزم اور حوصلہ مند نوجوانوں سے ملنے کے بعد بہت خاص اور بہت خوب صورت ہو گیا تھا۔ فضیلہ‘ انعم‘ سحرش‘ جنید‘ عبدالرحمن‘ بختاور اور رمشہ۔ ان کی عمریں سولہ سال سے بیس بائیس سال کے درمیان تھیں اور ان سے باتیں ہو رہی تھیں ان کی زندگی کے بارے میں‘ ان کے خوابوں اور خواہشات کے حوالے سے۔ ایک اور اہم موضوع پر بھی گفتگو ہوئی جس کا تعلق ان تمام نوجوانوں کی زندگی سے تھا۔ اس سے پہلے کہ اس موضوع پر بات کریں بہتر ہے کہ میں تھوڑا سا تعارف ان طلباء کا آپ سے کروا دوں۔
انعم پنجاب یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کرنے کے بعد اب ایم فل کر رہی ہے۔ سحرش‘ پنجاب یونیورسٹی سے ہی ڈاکٹر آف فارمیسی کی مشکل تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ رمشہ فرسٹ ایئر میں ہے‘ جنید بی کام کا طالب علم ہے۔ عبدالرحمان نے گریجوایشن کیا ہے اور اپنا بزنس کرتا ہے۔ جبکہ چلبلی سی‘ ہنستی مسکراتی بختاور نے حال ہی میں میٹرک کیا ہے اور اب کسی ایسے کورس میں داخلہ لینے کا ارادہ رکھتی ہے‘ جو اسے ہنرمند بنا سکے۔
زندگی کے حوالے سے ان سب کے ارادے اور خواب الگ الگ ہیں مگر ایک بات جو ان سب میں مشترک ہے‘ وہ یہ کہ یہ خوبصورت سوچ اور خوب صورت چہروں والے نوجوان خون کی موروثی بیماری تھیلیسمیا کا شکار ہیں۔ جی ہاں یہ سب تھیلیسمیا کے مریض ہیں مگر ان کو دیکھ کر لگتا نہیں کہ یہ زندگی کو اتنی بڑی بیماری کے ساتھ جی رہے ہیں۔ ان میں سے کوئی تھیلیسمیا میجر ہے تو کوئی انٹر میڈیا لیول پر
ہے۔ ان کی زندگی اس زندگی سے مختلف ہے جو ہم جی رہے ہیں۔ یہ نوجوان اس حقیقت کو صحیح طور پر جانتے ہیں۔ اس لیے کہ انہیں ہر دس‘ پندرہ دن یا مہینے بعد اس کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ ایک ماہ میں تین سے چار بار صاف اور صحت مند خون کی ٹرانسفیوژن ان کے لیے آکسیجن کی مانند ہے اور پھر بیماری کی دوسری پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے دوائیں اور خون میں فولاد کی مقدار کم کرنے والے ڈیسفرال انجکشن ان کی روزمرہ کی روٹین کا حصہ ہیں۔ اگر انہیں خون کی بروقت منتقلی نہ ہو تو ان کی زندگی کی سانسیں بحال رکھنا بہت مشکل ہے۔ وہ بلڈ ٹرانسفیوژن کو بھی معمول کی دوسری سرگرمیوں کی طرح لیتے اور ہنستے مسکراتے بیماری کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
ان بہادر نوجوانوں سے میری ملاقات سندس فائونڈیشن میں ہوئی‘ جو گزشتہ 16 برس سے تھیلیسمیا کے مریضوں کو صاف اور صحت مند خون مہیا کر رہا ہے۔ منو بھائی اس ادارے کے روح و رواں ہیں اور صرف اس ادارے میں پانچ ہزار تھیلیسمیا کے مریض بچوں کو صاف اور صحت مند خون فراہم کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ تھیلیسمیا کے مریضوں کے لیے صحت مند خون کی فراہمی کس قدر ضروری ہے اس کا اندازہ لگانا ہو تو کچھ عرصہ پیشتر‘ ایک دل دہلا دینے والی خبر کو یاد کر لیجیے۔ جس میں بتایا گیا کہ خون کی ناقص سکرینگ کی وجہ سے تھیلیسمیا کے
بچوں کو ایسا خون لگا دیا گیا جس کی وجہ سے معصوم بچے ایچ آئی وی کے موذی مرض کا شکار ہو گئے۔ کیا یہ بچوں کے ساتھ کھلا ظلم نہیں کہ وہ تو پہلے ہی تھیلیسمیا جیسی لاعلاج بیماری سے نبردآزما ہیں کہ متعلقہ افراد کی مجرمانہ غفلت سے وہ ایک اور موذی مرض کا شکار ہو گئے۔ سندس فائونڈیشن کے یٰسین صاحب نے بتایا کہ ناقص بلڈ سکرینگ کی وجہ سے بہت سے مریض بچے بدقسمتی سے ہیپاٹائٹس کا شکار بھی ہو رہے ہیں اور ایسا ان سنٹرز میں ہوتا ہے جہاں بلڈ سکرینگ کا جدید سسٹم موجود نہیں ہے۔ مروجہ طریقِ کار میں صرف 50 فیصد سکرینگ ممکن ہوتی ہے جبکہ جدید طریقے میں‘ یہ شرح 99.9 فیصد تک ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ بلڈ سکرینگ کا جدید سسٹم ہر ہسپتال میں موجود ہو۔
بات ہو رہی تھی ان بہادر نوجوانوں کی جو تھیلیسمیا جیسی لاعلاج بیماری کے ساتھ ہنستے مسکراتے زندگی گزار رہے ہیں۔ ان میں سے کوئی تین سال کی عمر سے یہ بیماری جھیل رہا ہے تو کوئی 6 ماہ کی عمر میں ہی تھیلیسمیا کا شکار ہو گیا۔ یقینا ایسے بچوں کے والدین کے لیے بھی یہ ایک بڑی آزمائش ہوتی ہے خصوصاً ماں کے لیے ایک بیمار بچے کی تکلیف کو سہنا ایک کٹھن مرحلہ ہے۔ ایسی مائوں کو بھی سلام ہے جو اپنے درد کو چھپا کر ایسے بچوں کو جینے کا حوصلہ دیتی ہیں۔ انعم نے کہا کہ میں پریشان ہونے لگوں تو یہ سوچ کر خود کو حوصلہ دیتی ہوں کہ یہ بیماری ایک آزمائش ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کو ہی کسی آزمائش میں ڈالتا ہے۔ ایم فل کرنے والی یہ طالبہ مہینے میں دوبار بلڈ ٹرانسفیوژن کے لیے یہاں آتی ہے۔ انعم کی خواہش ہے کہ وہ پی سی ایس کرے اور اچھی سی ملازمت حاصل کرے۔ اسی گروپ میں بیٹھی ہوئی سلکی بالوں کی لمبی سی پونی ٹیل بناتے ہوئے ایک لڑکی بات بے بات قہقہے لگا رہی تھی۔ اس وقت میں نے سوچا کہ شاید اس کی بیماری کی نوعیت اتنی شدید نہ ہو‘ یعنی یہ انٹر میڈیا لیول کی مریض ہو‘ جنہیں مہینے میں ایک بار بلڈ کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ بختاور تھی۔ میں نے سوال کیا تو وہ بھرپور قہقہہ لگاتے ہوئے بولی‘ ان سب میں سب سے زیادہ پیچیدہ کیس میرا ہے۔ آپ کو پتہ ہے ایک ماہ میں کتنی بار مجھے خون لگوانے کی ضرورت پڑتی ہے اور پھر خود ہی بولی‘ چار دفعہ۔ ہر ہفتہ دس دن کے بعد یہاں آتی ہوں۔ میں اس کا مسکراتا چہرہ دیکھ کر اور اس کا جواب سن کر حیران تھی کہ وہ بولی۔ جب بھی میری طبیعت ڈائون ہونے لگتی ہے‘ ہیموگلوبن لیول گر جاتا ہے تو میں خود ہی وین پر بیٹھتی ہوں اور یہاں آ جاتی ہوں ''تم کبھی اس سفر میں حوصلہ ہارتی ہو‘ کبھی رب سے کوئی شکوہ کرتی ہو؟‘‘ جواب میں اس نے ایک اور قہقہہ لگایا ''کبھی بھی نہیں۔ آپ کو پتہ ہے اس بیماری کی وجہ سے‘ میں سب گھروالوں کی زیادہ لاڈلی ہوں‘‘۔ وہ معصومیت سے بولی۔ اور سچی بات ہے میں اس کے اس حوصلے پر ابھی بھی حیرت میں ہوں۔ رب کی رضا کو شکر سے قبول کرنے کا یہ مقام کوئی عام بات نہیں اور خصوصاً ہمارے معاشرے میں۔ ہم میں سے ہر شخص شکایتوں اور شکوئوں کا ایک دفتر کھولے بیٹھا ہے‘ وہاں ایسے حوصلہ مند نوجوانوں سے ملنا جو ناشکرے لوگوں کے لیے ایک مثال ہیں‘ ایک خوب صورت اور یادگار تجربہ تھا۔ یہ نوجوان اس بات کا بھی ثبوت ہیں کہ اگر تھیلیسمیا کی بیماری میں صاف اور صحت مند خون مریض کو ملتا رہے اور دوسری پیچیدگیوں کا علاج ہوتا رہے تو جینے کی امید اور زندہ رہنے کی توقع بڑھ جاتی ہے۔ ایک وقت تھا کہ اس بیماری کا شکار بچے بچپن کی دہلیز بمشکل پار کرتے اور موت کے منہ میں چلے جاتے۔
جہاں ایسے تمام اداروں کی سپورٹ کی ضرورت ہے جو بلڈ ٹرانسفیوژن جیسا کارِعظیم سرانجام دے رہے ہیں‘ وہیں تھیلیسمیا کا شکار پڑھے لکھے نوجوانوں کو بھی پرائیویٹ اور سرکاری دونوں سطح پر تعاون کی ضرورت ہے تاکہ وہ عملی زندگی میں اپنے پائوں پر کھڑے ہو سکیں۔ سحرش‘ انعم اور بختاور کے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے پورے معاشرے کو ساتھ دینا چاہیے تاکہ امید ہمیشہ سلامت رہے!!
خزاں کے زرد ہاتھ میں ہو پیرہن بہار کا
یہ معجزہ بھی اب کے میرے موسموں کو دان ہو

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved