تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     27-02-2015

کرکٹ میں کمال حاصل کرو یا گھر جاؤ

گزشتہ دنوں میڈیا میں پاکستانی کرکٹ کے ہیرو‘ حنیف محمد کی طرف سے ایک اپیل آئی کہ انہیں اپنی بیماری کا علاج کرانے کے لئے حکومت کی طرف سے مالی امداد درکار ہے۔ مجھے علم نہیں کہ اس اپیل کے بعد کیا ہوا؟ لیکن یہ خبر پڑھ کر افسوس ہوا کہ اپنے دور میں پاکستانی کرکٹ کا سپر سٹار‘ آج کس حال میں ہے؟ کرکٹ‘ دنیا اور خصوصاً برصغیر میں کھلاڑیوں کی خوشحالی بلکہ امارت کا ذریعہ بن چکی ہے۔ بھارتی کھلاڑی ٹنڈولکر کی آمدنی کا جائزہ لیں تو یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ بھارتی فلم انڈسٹری کے وہ سپر سٹار‘ جو اربوں روپے میں کھیلتے ہیں‘ ٹنڈولکر کے سامنے ہیچ نظر آتے ہیں۔ انڈیا میں کئی کئی ہفتے سینکڑوں ون ڈے میچ کرائے جاتے ہیں‘ جن کے لئے مختلف کمپنیاں بولی دے کر اچھے سے اچھے کھلاڑی کی خدمات خریدتی ہیں اور یہ بولی ڈالروں میں ہوتی ہے۔ بھارت کے عام کھلاڑیوں کو بھی کئی کئی لاکھ ڈالر ون ڈے یا بیس اوورز کے میچ کھیلنے کے مل جاتے ہیں۔ کرکٹ کے اس طرح کے ٹورنامنٹ‘ متعدد نجی کمپنیاں‘ تجارتی بنیادوں پر منعقد کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے تحت قومی کرکٹ ٹیموں کے درمیان جو مقابلے ہوتے ہیں ان کی آمدنی علیحدہ ہے۔ یہ صرف گیٹ منی سے جمع نہیں ہوتی بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ درست ہو گا کہ دنیا بھر کے ٹی وی چینل اور نشریاتی ادارے ان میچوں کی رننگ کمنٹری کے حقوق خریدتے وقت‘ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر بولی دیتے ہیں‘ جو کروڑوں ڈالروں میں ہوتی ہے۔ میچز میں حصہ لینے والی ٹیموں کو ان کی مارکیٹ ویلیو کے مطابق معاوضہ دیا جاتا ہے‘ جس کا بڑا حصہ ملکی کرکٹ کنٹرول کے ادارے کھا جاتے ہیں جبکہ کھلاڑیوں کو جو رقم ملتی ہے وہ کم نہیں ہوتی‘ لیکن میچز سے ہونے والی آمدنی کی مناسبت سے بہت کم ہوتی ہے۔ مثلاً بڑے سے بڑے ٹورنامنٹ سے کمائی ہوئی رقم میں سے کھلاڑیوں کو ہونے والی آمدنی لاکھوں میں ہوتی ہے۔ صرف بعض ممتاز کھلاڑیوں کو معاوضہ کروڑوں میں ملتا ہے۔
قومی سطح کے کرکٹ میچوں سے ہونے والی آمدنی محض ٹی وی چینلز اور گیٹ منی سے نہیں آتی۔ آج کل اس کے ان گنت ذرائع دریافت کئے جا چکے ہیں‘ مثلاً سٹیڈیم کے چاروں طرف جو اشتہاری بینر لگتے ہیں‘ کمپنیاں ان کا بھاری معاوضہ ادا کرتی ہیں۔ مختلف کمپنیاں اپنا تجارتی نشان‘ کھلاڑیوں کی یونیفارم پر چھپواتی یا سلواتی ہیں۔ اس کا معاوضہ بھی کروڑوں میں لیا جاتا ہے۔ مثلاً کسی کھلاڑی کی کیپ پر ایک نشان لگے گا‘ تو دوسرے کی قمیض پر اس جگہ نشان لگایا جائے گا‘ جو سینے پر آتا ہو۔ میں نے صرف چند ذرائع بتائے ہیں۔ اگر آپ کرکٹ انڈسٹری سے ہونے والی آمدنی کا جائزہ لیں تو یہ کسی ملٹی نیشنل کی آمدنی سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہوتی۔ قوموں کے درمیان ٹیسٹ سیریز کی مجموعی آمدنی ٹورنامنٹ میں حصہ لینے والے ملکوں کے انتظامی اداروں کو دی جاتی ہے۔ اگر کرپشن کا جائزہ لینا ہو تو ان انتظامی اداروں کے ناجائز ذرائع آمدنی کو دیکھنا چاہیے۔ مختلف ملکی ادارے عموماً سرکاری محکموں کا حصہ ہوتے ہیں اور کئی ملکوں میں انہیں خود مختار حیثیت بھی حاصل ہوتی ہے۔ پی سی بی خود مختار ادارے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے پیٹرن انچیف وزیر اعظم خود ہوتے ہیں اور چیئرمین کا تقرر‘ وہ خود اپنی صوابدید پر کرتے ہیں۔ پاکستان میں یہ عہدہ لینے کے لئے ملک کی ممتاز شخصیتیں سر دھڑ کی بازی لگا دیتی ہیں۔ اتنی کوشش لوگ وزارتیں حاصل کرنے کے لئے نہیں کرتے‘ جتنی پی سی بی کی چیئرمین شپ کے لئے کرتے ہیں۔ اس عہدے میں کیا کشش ہے؟ اس کا اندازہ آسانی سے نہیں کیا جا سکتا۔ جائز ذرائع سے ہونے والی آمدنی باقاعدہ ریکارڈ میں ہوتی ہے‘ لیکن جتنا کچھ کالے کاروبار میں ملتا ہے‘ وہ جائز آمدنی کے مقابلے میں کسی بھی طرح کم نہیں ہوتا۔ مثلاً پاکستان میں کچھ دن پہلے‘ 35 پنکچروں کی شہرت یافتہ ایک ممتاز شخصیت نے‘ صوبائی وزیر اعلیٰ کا منصب لے کر ایک بڑی پارٹی کو انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے بھاری تعداد میں نشستیں حاصل کرنے میں مدد دی۔ مجھے ذاتی علم تو نہیں لیکن اپوزیشن کی طرف سے بڑی تکرار اور بڑے اعتماد کے ساتھ یہ الزام دہرایا گیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان کی منزل‘ صوبے کی وزارت اعلیٰ نہیں بلکہ پی سی بی کی چیئرمین شپ تھی۔ جیسے ہی نگران وزارت ختم ہوئی‘ انہیں پی سی بی کا چیئرمین بنا دیا گیا۔ اس کے بعد میڈیا میں جو سکینڈل آئے‘ ان کا شمار نہیں۔ ایک نجی ٹی وی چینل کو مختلف میچوں کی براہ راست نشریات کے حقوق دینے میں‘ پی سی بی کی اتھارٹی کروڑوں کا درپردہ لین دین کرتی ہے۔ بھارتی کرکٹ کنٹرول بورڈ کے سبکدوش ہونے والے چیئرمین‘ سری نواسن کو بدعنوانیوں کے الزامات میں سپریم کورٹ کے حکم پر برطرف ہونا پڑا۔ پاکستانی اور بھارتی جمہوریت میں یہی فرق ہے کہ وہاں احتساب کا عمل جاری رہتا ہے اور ہمارے ہاں اس کا رواج نہیں۔ ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کئی کئی سال محض اچھی تنخواہ حاصل کرنے کے لئے نوکری کی جائے۔ یہ نوکری صرف دکھاوے کی ہوتی ہے۔ اصل مقصد چیئرمین کی کرسی کے ذریعے حاصل ہونے والے اختیارات کو استعمال کر کے زیادہ سے زیادہ دولت کمانا ہوتا ہے۔ اسی طرح انتظامی ٹیم کے اعلیٰ عہدیدار‘ دونوں ہاتھوں سے دولت کماتے ہیں اور انہیں انتظامی اختیارات کی وجہ سے بے تحاشا سیر و سیاحت اور عیش و عشرت کے مواقع ملتے ہیں۔
ہمارا پی سی بی‘ بدعنوانیوں کے معاملے میں کافی بدنام ہے اور یہاں پی سی بی کے ملازمین‘ جو مختلف عہدوں پر فائز ہوتے ہیں‘ ایک دوسرے کے ساتھ اکثر زور آزمائی کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ زور آزمائی کرنے کے لئے دھڑے بندیاں ہوتی ہیں اور ایک گروپ‘ دوسرے کو اختیارات سے محروم کر کے‘ فوائد اٹھانے کے زیادہ مواقع حاصل کرنے کی کوشش میں رہتا ہے۔ اس کشمکش میں کھلاڑیوں کو بھی ملوث کر لیا جاتا ہے۔ پاکستان کی شاید ہی انٹرنیشنل ٹورنامنٹ میں حصہ لینے والی کوئی ٹیم میرٹ پر چنی گئی ہو۔ ایک وقت تھا حفیظ کاردار‘ فضل محمود‘ امتیاز احمد‘ جاوید برکی‘ حنیف محمد‘ سعید احمد‘ کپتان تھے تو ٹیموں کا انتخاب زیادہ تر میرٹ پر کیا جاتا تھا۔ انتخاب عالم آئے تو پاکستانی ٹیم کو پہلی مرتبہ ناجائز ذرائع اختیار کرنے کا تجربہ ہوا۔ بعد میں کپتان کی شخصیت کے مطابق ٹیمیں بنائی جاتیں‘ مثلاً جاوید برکی‘ حنیف محمد‘ فضل محمود‘ امتیاز احمد‘ بعد میں ماجد خان جیسے اچھے لوگ بھی آئے۔ جاوید میانداد عظیم کرکٹر تھے‘ لیکن اتنے ہی عظیم‘ شام کی سرگرمیوں کے معاملے میں بھی تھے۔ آصف اقبال نے باقاعدہ تجارتی طور طریقے استعمال کر کے دولت کمانے کو ترجیح دی۔ عمران خان نے اپنے دور میں ٹیموںکے انتخاب میں من مرضی کی۔ حد یہ کہ پاکستانی کرکٹ کے مایہ ناز کھلاڑی جاوید برکی کو اپنی ذاتی ناپسند کی وجہ سے ٹیم میں شامل نہ ہونے دیا‘ حالانکہ وہ ان کے کزن تھے۔ انہوں نے اپنی غیرجانبداری کا ثبوت دینے کے لئے اپنے کزن کی قربانی دے دی۔ مگر اس واقعہ کے بعد کسی کھلاڑی نے ذاتی تعلقات کی بنیاد پر ان سے مدد لینے کی کوشش نہیں کی۔
آج دنیا میں کسی ملک کی کرکٹ کو بے داغ نہیں کہا جا سکتا۔ اب کرپشن کرکٹ کا حصہ بن گئی ہے۔ نوجوان اسے شوق سے نہیں‘ کیریئر بنانے کے لئے کھیلنے آتے ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ پاکستان میں دولت کمانے کی دوڑ کتنی سخت ہو چکی ہے؟ باقی سب کے پاس ناجائز لین دین کی گنجائشیں موجود ہوتی ہیں‘ لیکن کھلاڑی کیا کرے؟ کرکٹ ٹیم کی اصل طاقت اس کے کھلاڑی ہوتے ہیں‘ لیکن دولت کمانے میں انہیں ہر طرح پیچھے دھکیلا جاتا ہے۔ شہرت کھلاڑیوں کے پاس ہوتی ہے۔ طاقت منتظمین کے پاس۔ کھلاڑی کے پاس اپنی فیس کے علاوہ پیسہ کمانے کا واحد ذریعہ کسی کمپنی کا نشان لگا کر گرائونڈ میں اترنا ہے اور اس کا پورا معاوضہ اسے نہیں ملتا۔ کھلاڑی کی آخری طاقت اس کا کھیل ہے۔ دولت کے پجاریوں نے اس کے کھیل کو بھی آلودہ کر دیا۔ تمام ملکوں میں ایسے بکی دستیاب ہیں‘ جو مختلف ذرائع سے کھلاڑیوں کو چوکا‘ چھکا لگانے‘ رن آئوٹ ہونے یا نو بال کرنے کے لئے بھاری رقوم کی پیش کش کرتے ہیں اور میچ کے دوران‘ لمحہ بہ لمحہ اس کے نئے ریٹ نکلتے ہیں۔ سب سے زیادہ جوا پاکستان اور بھارت کے باہمی مقابلوں میں ہوتا ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ان دونوں ملکوں کے باہمی مقابلوں کو دیکھنے کے لئے عوام انتہائی پرجوش اور جذباتی ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہر میچ کی آمدنی معمول کے میچوں سے کئی گنا بڑھ جاتی ہے اور کھلاڑیوں کو ایسی ایسی پیشکشیں کی جاتی ہیں کہ وہ صرف ایک گیند کا آرڈر پورا کر کے‘ زندگی بھر کے لئے آسودہ ہو جاتے ہیں۔ معین خان کا کرائسٹ چرچ کے کیسینو میں جانا‘ ان کے اناڑی پن کا ثبوت ہے‘ کیونکہ اصل کام دکھانے والے کبھی اس طرح نہیں پکڑے جاتے۔ معین خان بھی شاذ و نادر ہی پکڑے گئے ہیں۔ مجھے شک ہے کہ اس بار وہ بکیوں کے ہاتھ نہیں لگے اور انہیں دوستی کے چکر میں گھیر گھار کے کیسینو لے جا کر‘ سکینڈل بنا دیا گیا۔ اب وہ لاکھ وضاحتیں اور تاویلیں کریں‘ ان پر کون یقین کرے گا؟ ان کے لئے صرف ایک ہی راستہ رہ گیا ہے کہ بدنامی کا بوجھ اٹھا کر‘ بکیوں کے جال میں پھنسے رہیں اور عزت بے عزتی کی پروا کئے بغیر دن گزاریں۔ عزت کا بحال ہونا تو مشکل ہے‘ لیکن تائب ہو کر اسے بحال ضرور کیا جا سکتا ہے۔ میں آج بھی یہ سمجھتا ہوں کہ کرکٹ کے کھیل میں دولت کی ریل پیل نے کھلاڑیوں کو بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔ یا تو کھیل میں ٹنڈولکر کی طرح اعلیٰ مقام حاصل کر لیں۔ دولت بے تحاشہ برسے گی۔ ورنہ ان گنت کھلاڑیوں کی طرح سر جھکا کر میدان سے نکل جائیں۔ پیسہ کمانا ہو تو سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی طرح دیدہ دلیری سے کمائیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved