میاں نوازشریف نے کراچی کی ایکسپو نمائش میں ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو مژدہ سنایا کہ پاکستان سیاحت اور کاروبار کے لیے محفوظ ملک ہے۔ کسی عامی کی کیا مجال کہ وزیراعظم کے بیان میں مین میخ نکال سکے مگر امر واقعہ یہ ہے کہ مملکت خداداد سیاحت اور کاروبار سے زیادہ حکمرانی کے لیے موزوں اور مفید ہے جس کی گواہی معین قریشی اور شوکت عزیز بآسانی دے سکتے ہیں جو اس بدنصیب ملک میں سیاحت اور حکمرانی کے مزے لوٹنے کے بعد اطمینان سے اپنے وطن مالوف امریکہ لوٹ گئے ؎
میاں خوش رہو‘ ہم دعا کر چلے
معین قریشی اور شوکت عزیز محض استعارہ اور علامت ہیں، گزشتہ کئی عشروں سے پاکستان الا ماشاء اللہ ان حکمرانوں ، عوامی نمائندوں اور بیورو کریٹس کی گرفت میں ہے جو پاکستان میں حکمرانی کے شغل سے لطف اندوز ہوتے‘ قومی خزانے میں جمع ہونے والی عوام کے خون پسینے کی کمائی پر اندرون و بیرون ملک خوب سیرو سیاحت کرتے اور بالآخر امریکہ ، برطانیہ ، امارات اور سعودی عرب سدھار جاتے ہیں کیونکہ یہ ملک اپوزیشن کے لیے ہرگز سازگار نہیں اور اپوزیشن کے دنوں میں رہنے کے قابل بھی نہیں۔
سابق صدر آصف علی زرداری نے جب سے ایوان صدر چھوڑا بیشتر وقت بیرون ملک گزارتے ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی لندن میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ البتہ '' باشعور‘‘ عوام نے انہیں جب کبھی وزارت عظمیٰ پیش کی‘ بخوشی وہ پاکستان میں قدم رنجہ فرمائیں گے۔ حکمران خاندان کے صاحبزادگان کے بیرون ملک کاروبار پر پاکستان کے صابر و شاکر عوام تو معترض نہیں البتہ سیاسی مخالفین کو یہ کہنے کا موقع ضرور ملتا ہے کہ اگر پاکستان واقعی کاروبار کے لیے محفوظ ملک ہے تو پھر وزیراعظم ، وزیراعلیٰ اور ان کے دیگر ساتھی اس محفوظ ملک میں سرمایہ کاری کیوں نہیں کرتے اور اگر یہ حکمرانوں کے لیے محفوظ نہیں تو کوئی دوسرا رسک کیسے لے سکتا ہے۔
ابن خلدون نے جب یہ رائے قائم کی کہ تاجروں کو امور ریاست و حکومت نہ سونپے جائیں تو عام طور پر سمجھا گیا کہ یہ Conflict of interest(تعارض مفادات) کا معاملہ ہے مگر پاکستان میں تاجروں کی حکمرانی آئی تو عظیم ماہر سماجیات کے وضع کردہ اصول کی تفہیم ہوئی کہ سرمایہ کار، تاجر اور صنعتکار صرف قانون سازی کے موقع پر اپنے نفع و نقصان کو ہی مدنظر نہیں رکھیں گے اور ریاستی اختیارات ناجائز منافع خوری کے لیے ہی استعمال نہیں ہوں گے بلکہ یہ دوسرے ممالک میں اپنے کاروبار کے ذریعے اپنے ملک کے سرمایہ داروں ، صنعتکاروں اور تاجروں کو عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا کردیں گے اور ان کی دیکھا دیکھی دوسرے لوگ اپنے وطن کو چھوڑ کر ان جگہوں کا رخ کریں گے جہاں بہتر منافع اور زیادہ تحفظ ان کا منتظر ہوگا۔
بجا کہ ماضی میں نیشنلائزیشن اور غیر عادلانہ قوانین کی بنا پر پاکستان سرمایہ کاروں اور صنعتکاروں کے لیے قابل رشک خطہ نہیں رہا۔ شریف خاندان دوبار غیر منصفانہ قوانین اور رویوں کا نشانہ بنا۔ 1972ء کی صنعت دشمن نیشنلائزیشن اور 1999ء میں فوجی آمریت نے جابرانہ اور ظالمانہ ہتھکنڈوں سے ان کی عزت نفس اور اعتماد کو مجروح کیا مگر یہ افتاد اکیلے ان پر نہیں پڑی ۔سیاستدانوں میں سے اکثر و بیشتر نے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ جائیدادیں ضبط کرائیں ،مولانا عبدالستار خان نیازی، سید ابوالاعلیٰ مودودی کو سزائے موت ہوئی اور خان عبدالولی خان سمیت نیشنل عوامی پارٹی کے رہنمائوں نے حیدر آباد جیل میں مقدمہ بغاوت کا سامنا کیا جس کی سزا موت تھی مگر رہائی کے بعد ان میں سے کسی نے ملک چھوڑا ،بیرون ملک رہائش اختیار کی نہ اپنی جائیدادیں، اثاثے اور کاروبار منتقل کیے۔
دور ابتلا گزرا تو یہ سب ماضی کو بھلا کر نئے سرے سے جدوجہد میں مصروف ہوگئے ۔ ولی خان کے خاندان کو تو پھر بھی اقتدار مل گیا مگر ایوب خان ، یحییٰ خان ، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے دور میں جمہوری جدوجہد کے صلے میں آہنی زنجیروں کو چومنے والوں میں سے بیشتر کے حصے میں دشتِ سیاست کی آبلہ پائی آئی ۔ وہ بے خوف و خطر آگے بڑھتے رہے۔ شاید اس لیے کہ ان کی ترجیح اول وطن اور نظریہ تھا یا اس کے مجبور ، مظلوم ، بے بس اور مفلس عوام ؎
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
وزیراعظم جب سرمایہ کاروں کو یقین دہانی کراتے ہیں کہ پاکستان سرمایہ کاری کے لیے محفوظ ہے تو لوگ منہ سے کچھ کہیں نہ کہیں دل میں ضرور سوچتے ہیں ؎
بھولی باتوں پہ تیری، دل کو یقیں
پہلے آتا تھا اب نہیں آتا
بہت سوں کو 1997ء میں وزیراعظم میاں نوازشریف اور وزیر خزانہ سرتاج عزیز کی یقین دہانیاں یاد آتی ہیں جو قرض اتارو، ملک سنوارو سکیم کے موقع پر کرائی گئیں مگر 1998ء میں ایٹمی تجربات ہوئے تو یہ ساری یقین دہانیاں سارے وعدے وعید چاغی کی پہاڑیوں پر اٹھنے والے شعلوں کی نذر ہوگئیں اور ملکی خوشحالی کے لیے جمع کرایاگیا سرمایہ بحق سرکار منجمدکرلیاگیا البتہ حکمرانوں کے دوست احباب کا سرمایہ محفوظ رہا۔ حیلوں بہانوں سے ساری منجمد رقم انہیں واپس مل گئی جن کی اعلیٰ ایوانوں تک رسائی نہ تھی وہ شریف برادران کی جلاوطنی کے بعد بھی در درکی ٹھوکریں کھاتے رہے۔ کئی صدمے کی تاب نہ لاکر ملک عدم کو سدھار گئے۔
پاکستان میں سرمایہ ممکن ہے محفوظ ہو مگر سرمایہ کار کو تحفظ آج تک نہیں ملا۔ حکومت کسی فوجی آمر کی ہو یا جاگیردار و سرمایہ دار منتخب حکمران کی‘ سرمایہ کار سے سوتیلی ماں جیسا سلوک کرتی ہے۔ ایوان اقتدار کی راہداریوں میں موجود چیلیں اور گدھیں ان کی بوٹیاں نوچنے کے لیے بے تاب رہتی ہیں اور سرکاری اداروں کے رشوت خور اہلکار ان کی گھات میں ہوتے ہیں۔ رہی سہی کسر نسلی، لسانی، فرقہ وارانہ اور علاقائی دہشت گردوں نے پوری کردی ہے جو انہیں اغوا نہ کرسکیں تو جان سے مار دیتے ہیں اور ریاست ان اغوا کاروں ، ٹارگٹ کلرز، بھتہ خوروں ، دہشت گردوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ جس کراچی میں کھڑے ہوکر میاں صاحب نے یہ بات کہی ہے کہ اس کے تاجر اور صنعتکار پچھلے دور میں صدر ، وزیراعظم، وزیراعلیٰ اور پولیس افسران سے مایوس ہوکر جی ایچ کیو حاضر ہوئے اور با جماعت تحفظ فراہم کرنے کی درخواست کی جس کے بعد کراچی میں آپریشن شروع ہوا مگر وہاں تحفظ کا احساس تاحال مفقود ہے۔ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں۔
وزیراعظم کی نیت پر کسی کو شک ہے نہ ارادوں کے حوالے سے بدگمانی مگر لوگ اب ارادوں اور بیانات سے آگے سوچتے ہیں۔ عملی اقدامات اور کردار کی گواہی مانگتے ہیں۔ ایک صوفی بزرگ شیخ ابو محمد یٰسین فرماتے ہیں ''میں نے شیخ احمد بن یحییٰ الحلاء ؒسے فقر کے بارے میں سوال کیا۔ آپ خاموش رہے، لوگ اٹھ کر چلے گئے، آپ بھی تھوڑی دیر کے لیے اندر گئے اور پھر باہر آکر فقرکی تشریح کی۔ میں نے پوچھا‘ حضور ! توقف کیوں فرمایا ،اس وقت بتادیتے۔ کہنے لگے میرے اپنے گھر میں چند درہم پڑے تھے‘ مجھے شرم آئی کہ میں فقر کے بارے میں بات کروں اب وہ میں بانٹ آیا ہوں ‘‘۔
پاکستان کسی زمانے میں سیاحت اور کاروبار کے لیے واقعی آئیڈیل ملک تھا، ہر طرح سے محفوظ اور نفع رساں ۔ مگر اس زمانے میں حکمران کاروبار نہیں کرتے تھے اور ان کی بیرون ملک جائیدادیں، اثاثے ، بینک بیلنس نہیں ہوتے تھے۔ سرمایہ کار ان کی باتوں پر آنکھیں بند کرکے یقین کرتے اور انہیں دہشت گردوں ، بھتہ خوروں ، اغوا کاروں کا خوف رہتا نہ طاقتوروں سے اندیشۂ زیاں۔ اب یہ صرف سیاحت اور حکمرانی کے لیے موزوں ہے محفوظ پھر بھی نہیں ۔ محفوظ ہوتا تو رینجرز ، پولیس، ایلیٹ فورس اور دیگر ریاستی ادارے حکمرانوں کی حفاظت پر مامور نہ ہوتے۔ سرکاری دفاتر و رہائشی علاقے قلعوں میں تبدیل کرنے کی ضرورت نہ تھی۔مگر جو اقتدار کو کاروبار سمجھتے اور کاروبار کو حصولِ اقتدار کی آزمودہ سیڑھی انہیں کیا پروا، ان کی بلا سے بوم بسے یا ہُما رہے۔