تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     27-02-2015

کراچی میں امن و امان کی صورت حال

کچھ عرصہ پیشتر جب سپریم کورٹ آف پاکستان میں کراچی میں امن و امان کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورت حال زیر بحث جاری تھی‘ تو عدالتِ عظمیٰ نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ شہر میں فوج کو بلائے بغیر سول انتظامیہ کی مدد سے بھی حالات پر قابو پایا جا سکتا ہے‘ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ پولیس کو سیاست سے پاک کیا جائے۔ اسی دوران ایک سینئر پولیس آفیسر نے بھی ایک بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ کراچی کے حالات بہتر بنانے میں پولیس کامیاب ہو سکتی ہے‘ بشرطیکہ پولیس میں سیاسی مداخلت بند کی جائے۔ یہی بات حال ہی میں صوبہ سندھ کی اپیکس کمیٹی کے کراچی میں منعقدہ اجلاس میں کہی گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صوبائی حکومت کے دعووں کے باوجود شہر میں حالات پوری طرح نارمل نہیں ہوئے۔ اسی لیے ستمبر 2013ء میں شروع کیے گئے پولیس اور رینجرز کے مشترکہ آپریشن کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اعلیٰ ترین سطح پر یہ محسوس کیا گیا ہے کہ آپریشن کے مطلوبہ مقاصد جلد از جلد اور پوری طرح حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی بلاامتیاز جاری رکھی جائے بلکہ صاف اور شفاف طریقے سے ہو‘ تو یہ مطالبات سامنے آتے رہیں گے کہ پولیس سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر اپنے فرائض منصبی خصوصاً دہشت گردی کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھے؛ تاہم اس اہم بات کو یقینی بنانا اور اس پر عمل کرنا صوبائی حکومتوں کا کام ہے کیونکہ آئینی اور قانونی طور پر امن و امان کا مسئلہ صوبائی دائرہ اختیار میں شامل ہے۔ خود وزیر اعظم متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی بنیادی ذمہ داری صوبوں پر عائد ہوتی ہے‘ بلکہ وزیر اعظم نے گلہ بھی کیا کہ بعض صوبے اس پلان پر عمل درآمد میں سستی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ کوئٹہ میں اپیکس کمیٹی کے اجلاس کے موقع پر بھی انہوں نے اپنا مؤقف دہرایا اور اس بات پر زور دیا کہ صوبوں کو نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے سلسلے میں اپنی رفتار میں اضافہ کرنا چاہیے۔
سبھی جانتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے لیے صوبوں کے پاس اگر کوئی فورس ہے تو وہ صرف پولیس ہے لیکن صوبائی پولیس ایک آدھ نہیں بلکہ بیسیوں مسائل سے دوچار ہے۔ ایک تو تعداد ضرورت سے بہت کم ہے۔ دوسرے دیگر سرکاری اہلکاروں کے مقابلے میں ان کی تنخواہیں کم ہیں۔ کچھ عرصہ تک ایک صوبے کی پولیس مراعات کے مقابلے میں دوسرے صوبوں کی پولیس سے بہت پیچھے تھی۔ تیسرے ہماری پولیس کو دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے تربیت حاصل نہیں۔ چوتھے پولیس کے پاس جدید ترین ہتھیار نہیں؛ تاہم اس سلسلے میں ضروری اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے خصوصی پولیس کمانڈو فورس قائم کی جا رہی ہے۔ پنجاب میں اس سمت کافی پیش رفت ہوئی ہے۔ باقی صوبے بھی اس نوع کی سپیشل فورس قائم کر رہے ہیں۔ کوئٹہ میں حال ہی میں وزیر اعظم نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ہمراہ 200 جوانوں پر مشتمل کمانڈوز کے ایک دستے کی تربیت کا افتتاح کیا تھا۔
ان تمام اطلاعات سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کے تمام صوبے وفاقی حکومت کی ہدایات کے مطابق اپنے محدود وسائل بروئے کار لاتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف عملی اقدامات میں مصروف ہیں۔ وفاقی حکومت بھی صوبوں کی مدد کر رہی ہے اور جہاں کہیں ضرورت ہے‘ وہاں صوبائی حکومتوں کی امداد کے لیے سکیورٹی اور انٹیلی جنس امداد فراہم کی جا رہی ہے۔ کراچی اشتراک اور تعاون کی سب سے نمایاں اور کامیاب مثال ہے۔ یہاں صوبائی پولیس اور رینجرز‘ جو ایک وفاقی سکیورٹی ایجنسی ہے‘ مل کر آپریشن میں مصروف ہیں۔ اب تک دونوں میں اشتراک اور تعاون کے راستے میں کسی رکاوٹ کی شکایت نہیں آئی۔ کراچی آپریشن نے اب تک جو متاثر کن کامیابیاں حاصل کیں اور جن کا اعتراف خود وزیر اعظم نے ایک سے زائد بار کیا‘ اسی بات کا ثبوت ہیں کہ سندھ‘ بالخصوص کراچی میں صوبائی پولیس اور رینجرز‘ دونوں ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کر رہے ہیں۔ اس سے یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ کراچی کے آپریشن کو اسی حال میں جاری رہنے دیا جائے‘ صوبائی حکومت سے مزید مستعدی کا ضرور مطالبہ کیا جائے‘ لیکن اس پر پورا اعتماد کرنا چاہیے۔
جب کراچی آپریشن شروع کرنے کا سوچا جا رہا تھا‘ تو بعض حلقوں کی طرف سے یہ مطالبہ بڑی شد و مد سے پیش کیا گیا کہ رینجرز اور پولیس کے بجائے شہر میں امن و امان کے قیام کے لیے فوج کو بلایا جائے اور آپریشن کی باگ ڈور صوبائی حکومت کے ہاتھ میں دینے کے بجائے وفاقی حکومت کے سپرد کی جائے‘ لیکن وفاقی حکومت نے دانشمندی سے کام لیتے ہوئے ایسی آوازوں پر کان نہ دھرا اور وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کو اس آپریشن کا انچارج بنا دیا۔ گزشتہ ڈیڑھ سال سے جاری اس آپریشن کی کارکردگی تسلی بخش رہی۔ اس کا اعتراف وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کر چکے ہیں۔ حال ہی میں سندھ کے انسپکٹر جنرل پولیس نے بھی اعداد و شمار کے ذریعے کراچی میں جرائم کی شرح میں کمی کا دعویٰ کیا۔ ان کے علاوہ عام حلقے‘ جن میں تجارتی اور کاروباری حلقے بھی شامل ہیں‘ کراچی کی صورت حال کو پہلے سے بہتر بتا رہے ہیں۔ اگر ان اطلاعات میں صداقت ہے تو صوبائی حکومت شاباش کی مستحق ہے اور اس کی کارکردگی کو سراہا جانا چاہیے۔
لیکن کچھ حلقے‘ جن کو ابتدا میں اپنے عزائم کی تکمیل میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا‘ اب سندھ میں پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کے در پے ہو گئے ہیں۔ اس مہم کی بنیاد ان حلقوں کا یہ دعویٰ ہے کہ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ صوبائی حکومت خصوصاً پولیس کی کارکردگی سے مطمئن نہیں‘ بلکہ وہ اسے کراچی میں امن و امان کی خراب صورتحال کا ذمہ دار گردانتے ہیں۔ یہاں تک کہ چند تجزیہ نگاروں اور کالم نویسوں نے سندھ پولیس کے مبینہ سیاسی مداخلت کی بنیاد پر صوبائی حکومت کی برطرفی اور گورنر راج کے نفاذ کے اندیشہ ظاہر کیا ہے۔ یہ تک کہا گیا کہ وزیر اعظم نواز شریف پر‘ جو کھلے عام کراچی میں صوبائی حکومت کی کمان میں جاری پولیس اور رینجرز کے آپریشن پر ناصرف اطمینان کا اظہار کر چکے ہیں بلکہ وزیر اعلیٰ کو اس کامیابی پر شاباش بھی دے چکے ہیں‘ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے صوبائی حکومت کے خلاف سخت اقدام کے لیے دبائو ہے۔ وزیر اعظم گورنر راج جیسا انتہائی
اقدام نہیں کرنا چاہتے‘ لیکن اگر صوبائی حکومت متعلقہ حلقوں سے فہم کے مطابق پولیس کو سیاسی اثر و رسوخ سے پاک کرنے میں ناکام رہتی ہے‘ تو ایسی صورت میں گورنر راج کا نفاذ ناگزیر ہو جائے گا۔
اگر وفاقی حکومت اس منطق کی قائل ہو کر سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کا بوریا بستر گول کر دیتی ہے تو جیسا کہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ نے کہا ہے‘ یہ ناصرف سندھ بلکہ پوری قومی سیاست کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا‘ اس لیے کہ ایسا اقدام ناصرف مسلم لیگ ن کی مرکزی حکومت کی وفاق اور صوبوں کے درمیان مفاہمت اور تعاون پر مبنی پالیسی کے منافی ہو گا‘ بلکہ اس سے پاکستان کی سیاست میں 1990ء کی دہائی کا دور ایک دفعہ پھر پلٹ آئے گا‘ جس کے تحت پاکستان کو ایک وفاقی ریاست کی بجائے عملاً وحدانی ریاست کے طور پر چلایا جاتا تھا۔ پاکستانی سیاست کی سب سے بڑی فالٹ لائن صوبوں اور مرکز کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے۔ اگر محض پولیس میں مبینہ طور پر سیاسی اثر و رسوخ کی آڑ میں ایک صوبے کی منتخب حکومت کو ہٹایا گیا تو اس سے پہلے سے موجود عدمِ اعتماد کی خلیج مزید وسیع ہو گی اور اس کا دیگر شعبوں کے علاوہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پر بھی منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ مرکزی حکومت کو حق حاصل ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف صوبائی حکومتوں کی بہتر کارکردگی کا مطالبہ کرے اور اس پر اصرار جاری رہنا چاہیے لیکن یہ صرف آئین اور قانونی حدود میں رہتے ہوئے کرنا چاہیے۔ اگر ان حدود کی خلاف ورزی کی گئی اور آئینی اور جمہوری طریقوں کے برعکس غیر سیاسی فورم کو استعمال کیا گیا تو اس سے صرف دہشت گردی کے خلاف مرکز اور صوبوں کے درمیان تعاون متاثر نہیں ہو گا‘ بلکہ قومی ترقی کے دیگر شعبوں پر بھی اس کا بُرا اثر پڑے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved