تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     27-02-2015

… باتوں سے ’’خوشبو‘‘ آئے!

ایک زمانہ تھا جب داستان گو جہاں تہاں بیٹھ کر اپنی باتوں سے سُننے والوں پر سِحر طاری کردیا کرتے تھے۔ لوگ گھنٹوں بیٹھ کر داستانیں سُناکرتے تھے۔ تب فراغت زیادہ تھی۔ داستان گو کو بُلاکر بڑے بڑے کمروں میں یا پھر سرِ راہ بیٹھک جمائی جاتی تھی۔ لوگ محض سونے کے لیے نہیں بلکہ داستانیں سُننے کے لیے بھی گھوڑے بیچ دیا کرتے تھے! داستان گو کا بُنیادی کام یہ تھا کہ کسی بھی واقعے میں اپنی طرف سے مرچ مسالہ شامل کرے یعنی بھرپور چرب زبانی کا مظاہرہ کرے۔ پیسے ہی اِس بات کے مِلتے تھے کہ سیدھی سی بات کو بھی ''ون ٹو کا فور‘‘ بناکر بیان کرے۔
اچھا ہے کہ داستان گو نہ رہے۔ اگر ہوتے بھی تو بے چارے کیا کرلیتے؟ اینکرز کے آگے اُن کی دال کیا گَلنی تھی؟ اور اِس سے بڑا سِتم یہ ہے کہ سُننے والے بھی داستان گوئی کی راہ پر گامزن ہیں!
جب سے ''ہَتھ بولا‘‘ یعنی موبائل فون سیٹ عام ہوا ہے، جسے دیکھیے وہ رات دن بَتیانے میں جُتا ہوا ہے۔ سارے مشاغل ایک انگوٹھے کی نذر ہوگئے ہیں۔ سُنتے آئے ہیں کہ حرکت میں برکت ہے۔ اب صرف انگوٹھے کی حرکت میں برکت ہے۔ ماہرین نے اپنی سی کوشش کرکے نتیجہ دیکھ لیا۔ اس سے پیدا ہونے والی ریڈیائی لہروں کے مُضِر اثرات کے بارے میں طرح طرح کی خبریں چلائی گئیں مگر مجال ہے کہ ہم ٹَس سے مَس ہوں۔ فون کو کان سے لگاکر تادیر بات کرنے والوں کو کینسر کی وعید سُناکر بھی ڈرانے کی کوشش کی گئی مگر یہ حربہ بھی کچھ دنوں میں دم توڑ گیا۔ اب اِس نوعیت کی خبریں آتی ہیں تو لوگ ہنستے ہنستے بے حال ہوجاتے ہیں۔
کم و بیش ایک عشرے سے قوم کا یہ حال ہے کہ اپنا سب کچھ موبائل فون میں سَموئے بیٹھی ہے۔ بات کرنا اِنسان کی فِطری صلاحیتوں کا اظہار اور اُس کی نَفسی ساخت کی ضرورت ہے، مگر اہلِ پاکستان نے فِطرت کے دیگر تمام تقاضوں کو نظر انداز کرکے صرف بولنے کو زندگی سمجھ لیا ہے۔ کوئی کتنا ہی کہے اور کہتا رہے کہ ہر وقت فون پر باتیں کرتے رہنا جسم اور ذہن دونوں کی صحت کے لیے اچھا نہیں، اور یہ کہ کبھی کبھی دِل و دِماغ کو بھی تھوڑی سی فراغت عطا کرنی چاہیے۔ علامہ اقبالؔ بھی کہہ گئے ہیں ؎
اچھا ہے دِل کے پاس رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اِسے تنہا بھی چھوڑ دے!
مگر کون سُنتا ہے؟ کام کی باتیں سُننے والے کان اب ہیں کہاں؟ اِس جہانِ فانی میں آزادی کے ساتھ پدھارنے والے کانوں کو فون کی غلامی سے آزادی نصیب ہو تو کچھ سُنیں بھی۔
پچھلے کچھ عرصے سے ہم باتوں کے سمندر میں غرق ہوکر رہ گئے ہیں۔ ایک سیدھی سی حقیقت کو سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ وقت ختم نہیں ہوسکتا۔ بڑے بڑے دانا وقت کی نوعیت کو سمجھنے میں ناکام رہے ۔ ایسے میں ہم کیا اور ہماری بساط کیا؟ مگر صاحب، گستاخی معاف۔ ''چھوٹا منہ اور بڑی بات‘‘ کے مِصداق ہم یہ ''تھیوری‘‘ پیش کرنے کی جسارت کر رہے ہیں کہ وقت بھی کبھی نہ کبھی ختم ہوسکتا ہے، اِس قوم کی باتیں البتّہ ختم نہیں ہوسکتیں!
ناصرؔ کاظمی مرحوم نے کہا تھا ؎
آؤ، کچھ دیر رو ہی لیں ناصرؔ
پھر یہ دریا اُتر نہ جائے کہیں
یاروں نے اِس شعر کی عملی تعبیر یوں کی ہے کہ موبائل فون سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آؤ، جی بھر کے بتیاتے رہیں۔ مگر لوگ خواہ مخواہ خوفزدہ ہیں۔ موبائل فون نے ایک ایسا کلچر متعارف کرایا ہے جس میں ہر طرف تفصیل ہی تفصیل ہے۔ دُنیا بھر میں اختصار کو گلے لگایا جارہا ہے اور ہم نے طے کرلیا ہے کہ ہر بات کو اِتنی تفصیل سے بیان کریں گے کہ خود وہ بات بھی پناہ مانگے گی۔
دُنیا بھر کے ماہرین نفسیات کو بھی ٹاسک دیا جائے تو جان نہیں پائیں گے کہ ہمارے ہاں رات بھر کیا باتیں ہوتی ہیں! جب ہم اوروں کو اور بالخصوص نئی نسل کو رات بھر محوِ گفتگو دیکھتے ہیں تو وہ ہمیں کسی اور کائنات کے لوگ دکھائی دیتے ہیں۔ وہ جس انداز سے موبائل فون پر پوری تفصیل سے باتیں کر رہے ہوتے ہیں اُس سے یہ گمان گزرتا ہے کہ وہ کسی ایسی کائنات سے تعلق رکھتے ہیں جس میں ہر دن ہمارے 48 گھنٹے کے مساوی ہے! جس کا دن 48 گھنٹوں کا ہو وہی تو ذرا سی بات کو باتوں ہی باتوں میں کچھ کا کچھ بناسکتا ہے یعنی جان لیوا تفصیل سے بیان کرسکتا ہے۔
قتیلؔ شِفائی مرحوم کہتے ہیں ؎
مِل کر جُدا ہوئے تو نہ سویا کریں گے ہم
اِک دوسرے کی یاد میں رویا کریں گے ہم
نئی نسل نے اِس کیفیت کا بھی علاج دریافت کرلیا ہے۔ دِل کو ملال تو تب ہوگا جب مِلن ہوگا۔ مِلن کی ضرورت ہی کیا ہے؟ رات بھر جی بھر کے باتیں کیجیے یعنی صوتی ملاپ کا مزا لیجیے اور صبح کے آثار نمودار ہوتے ہی سب کچھ بُھول جائیے۔ گویا ع
شب کو مے خوب سی پی، صبح کو توبہ کرلی!
نئی نسل کا معاملہ تو پھر بھی سمجھ میں آتا ہے کہ چڑھتی ہوئی عُمر کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں اور صنفِ مخالف سے ملنا ممکن نہ ہو تو آگ پر باتوں کا ٹھنڈا پانی ڈال لینا بھی کچھ بُرا یا مہنگا سَودا نہیں۔ مگر خواتینِ خانہ! اب وہ بھی شام کو کام سے فارغ ہونے کے بعد سونے سے پہلے ایران تُوران کی ہانک کر دِل و دِماغ کا بوجھ ہلکا کرتی ہیں! محترم اسلمؔ کولسری نے خوب کہا ہے ؎
یوں تو چار قدم پر میری منزل تھی
لیکن چلتے چلتے جیون بیت گیا!
خواتینِ خانہ کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ گھر میں دِن بھر جو کچھ ہوتا رہا ہے اُس کی رپورٹ کا تبادلہ ایک گھنٹے کی گفتگو میں کرلیا جاتا ہے۔ گھنٹہ بھر کی جانے والی گفتگو کا ''ایجنڈا‘‘ عام طور پر طے نہیں ہوتا۔ آج کیا پکایا، بڑے والے کی پیچش ختم ہوئی یا نہیں، منجھلے کا بُخار اُترا یا نہیں، چھوٹے کو نیپیز سے پڑنے والے ریشز ختم ہوئے یا نہیں، جو ماسی تین دن سے نہیں آئی وہ آج بھی آئی یا نہیں ... یہ تمام باتیں تمام ممکنہ تفصیلات کے ساتھ یُوں بیان کی جاتی ہیں جیسے کسی دو بڑی طاقتیں کسی خفیہ عالمی ایجنڈے کی جُزئیات طے کر رہی ہوں! باتوں ہی باتوں میں خواتینِ خانہ ٹی وی ڈراموں کی بھی خبر لیتی جاتی ہیں۔ رائٹرز کی خامیوں کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ اُنہیں مشوروں سے بھی نوازا جاتا ہے کہ کہانی میں کون کون سے موڑ ڈال کر وہ ڈرامے کو زیادہ جاندار بناسکتے ہیں! خواتینِ خانہ عام طور پر سیاست پر گفتگو سے پرہیز کرتی ہیں۔ سبب اِس کا یہ ہے کہ سیاست پہلے ہی بہت بے ڈھنگی ہے۔ اِسے مزید بے ڈھنگی بنانے سے متعلق کوئی رائے نہیں دی جاسکتی!
ضیاءؔ جالندھری مرحوم کے زمانے میں رنگ باتیں کرتے تھے اور باتوں سے خوشبو بھی آیا کرتی تھی۔ مگر آپ نے بھی سُنا ہوگا کہ ع
قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا
گفتگو کبھی کبھار ہو تو مزا دیتی ہے اور باتوں سے خوشبو بھی آتی ہے۔ روز روز تو محض ''خوشبو‘‘ ہی آسکتی ہے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved