تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     28-02-2015

’’پیار‘‘ سے ڈر لگتا ہے!

منظور وسان صاحب وزیر تو اُس محکمے کے ہیں جو قید خانوں کی دیکھ بھال پر مامور ہے مگر یہ بھی اُنہی کا کمال ہے کہ لوگوں کو اُداسی کی قید سے نجات دلاتے رہتے ہیں۔ جب کبھی لوگوں کو ہر معاملے میں بیزاری سی محسوس ہونے لگتی ہے، وہ تیار ہوکر میڈیا کے سامنے آتے ہیں اور چند ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو دُکھی دِل والوں کے ہونٹوں پر مُسکراہٹ بکھیر دیتی ہے۔ ہم نے کئی بار ان کے خوابوں سے استفادہ کیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ جب کبھی ہم نے اپنے اندر مزاح کے سَوتے خُشک ہوتے محسوس کیے‘ انہوں نے آگے بڑھ کر ہماری رہنمائی کی اور چند ایسے خواب بیان فرمائے ہیں کہ ہمارے لیے کچھ سوچنے اور لِکھنے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ بقول جاوید اخترؔ ؎
تم کو دیکھا تو یہ خیال آیا
زندگی دھوپ، تم گھنا سایا
کچھ عرصہ قبل منظور وسان صاحب نے ٹریک بدلنے کی کوشش کی تھی۔ اُن کے مزاج کی ٹرین خوابوں کو ترک کرکے اچانک پیش گوئی کے ٹریک پر چلی گئی تھی۔ خدا جانے کِس حاسد کا مشورہ تھا جس پر عمل کرکے منظور وسان میڈیا سے آؤٹ ہوگئے۔ شاید کسی نے سمجھایا کہ اِس ملک میں پیش گوئی سے بڑا احمقانہ کرتب کوئی نہیں! خوابوں کو بیان کرنے میں کسی کو کبھی کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی۔ اگر خواب کے مطابق کوئی واقعہ رونما ہوجائے تو خواب سَچّا ثابت ہوا سمجھیے۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو خواب کی تعبیر ڈھونڈیے اور ایک خواب کے سو معنی بیان کرکے لوگوں کی تفریحِ طبع کا مزید سامان کیجیے۔ پیش گوئیاں البتّہ اِنسان کو تماشا بنادیتی ہیں۔
2013ء کے عام انتخابات کے موقع پر منظور وسان نے پیش گوئی کی تھی کہ سندھ کا آئندہ وزیر اعلیٰ جواں سال ہوگا۔ جب لوگوں نے سید قائم علی شاہ ہی کو وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز دیکھا تو حیران رہ گئے۔ ہم بھی حیران ہونے والوں میں سے تھے۔ سمجھ میں نہ آیا کہ منظور وسان صاحب کی پیش گوئی غلط نکلی یا پھر اب تک ہم ہی اندھے تھے کہ سید قائم علی شاہ کو بوڑھا سمجھتے رہے!
اس کے بعد پیش گوئی کی گئی کہ پیپلز پارٹی کے چند بڑے نام اِدھر اُدھر ہونے والے ہیں۔ کسی کو ایسا کچھ بھی دکھائی نہ دیا۔ پرنالہ اب تک وہیں بہہ رہا ہے۔ ہمیں پھر گمان گزرا کہ ممکن ہے کچھ ہوا ہو مگر ہمارے پاس دیکھنے والی آنکھیں ہی نہ ہوں!
خیر گزری کہ منظور وسان صاحب پیش گوئی سے احتراز برتنے لگے۔ خواب دیکھنا اُنہوں نے البتّہ نہیں چھوڑا۔ پیش گوئی فرمانا بھی چاہنے والوں کا دِل بہلانے کی ایک شکل تھی اور خواب دیکھتے رہنا بھی ہم جیسوں پر مہربانی ہی کی ایک صورت ہے۔
قوم کرکٹ کے ہاتھوں اپنے دِل و دِماغ کا حشر نشر بھگت رہی تھی کہ منظور صاحب کو کچھ رحم آیا اور اُنہوں نے ایک ہلکی پُھلکی بات کہہ کر مایوس ہونٹوں کو مُسکان بخشنے کی کوشش کی ہے۔ سندھ اسمبلی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں سندھ کے وزیر جیل خانہ جات نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کا کام ایک دوسرے کے بغیر نہیں چلتا۔ اُن کے الفاظ ہیں: ''متحدہ کو ہمارے بغیر چین پڑتا ہے نہ ہمیں اُس کے بغیر نیند آتی ہے۔‘‘
اِسی کیفیت کو مرزا غالبؔ نے کچھ اِس طرح بیان کیا ہے ؎
محبت میںنہیں کچھ فرق جینے اور مرنے کا
اُسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے!
منظور وسان صاحب نے پیپلز پارٹی اور متحدہ کے درمیان کسی نہ کسی طرح ہر دور میں پنپتے کَھٹّے میٹھے رشتے کو کِس خوبصورتی سے صرف ایک جُملے میں بیان کردیا۔ نفرت اور محبت کے حسین امتزاج پر مبنی یہ تعلق دو ڈھائی عشروں سے اہلِ سندھ اور بالخصوص اہلِ کراچی کے پوری طرح علم میں ہے۔ آج بھی یہ کیفیت برقرار ہے۔ منظور صاحب نے پیپلز پارٹی اور متحدہ کے درمیان ہمیشہ سے چلی آرہی سرد جنگ کو بیان کرتے وقت بھی اپنے ذاتی مفاد سے صرفِ نظر نہیں کیا۔ اُن کے جُملے پر غور کیجیے۔ ''متحدہ کو ہمارے بغیر چین نہیں پڑتا اور ہمیں اُس کے بغیر نیند نہیں آتی۔‘‘ نیند اور خواب! منظور وسان صاحب کے کہنے کا مفہوم یہ ہے کہ متحدہ سے بات بگڑی ہوئی ہو تو پیپلز پارٹی والوں کی نیند اُڑ جاتی ہے۔ نیند نہیں ہوگی تو خواب کہاں سے آئیں گے؟
ویسے سوچنے والی بات یہ ہے کہ جب پیپلز پارٹی اور متحدہ میں گاڑھی چَھن رہی ہوتی ہے تب بھی دونوں میں سے کسی کو چَین پڑتا ہے نہ ڈھنگ سے نیند آتی ہے۔ بلکہ ہمارا مشاہدہ تو یہ ہے کہ جب یہ دونوں جماعتیں اِتحادی ہوتی ہیں تب بھی نہ صرف اِن دونوں کی جان پر بنی ہوتی ہے بلکہ سندھ کے عوام وسوسوں کی زد میں رہتے ہیں اور دَھڑکا سا لگا رہتا ہے ؎
مُحبّتوں میں عجب ہے دِلوں کو دَھڑکا سا
نہ جانے کون کہاں راستہ بدل جائے!
عوام کے وسوسے بھی بلا جواز اور غیر منطقی ہرگز نہیں۔ پیپلز پارٹی اور متحدہ کا معاملہ تو بیشتر معاملات میں یہ رہا ہے کہ ع
ہم سے تو تم کو ضِد سی پڑی ہے
سب کچھ ٹھیک ہو رہا ہوتا ہے اور پھر اچانک، بظاہر کسی ٹھوس اور قابلِ قبول سبب کے بغیر، بنتی بات بگڑنے لگتی ہے، بہتا دریا رُکنے اور سُوکھنے لگتا ہے۔ دونوں کی صفوں میں ایک دوسرے کے لیے سوتیلا پن سَر اُٹھانے لگتا ہے۔ سندھ کے عوام کو اچانک سب کچھ ٹھکانے لگتا دکھائی دینے لگتا ہے۔ جھاگ کی طرح بیٹھ جانے والے وسوسے پھر بُلبلوں کی صورت اُبھرنے لگتے ہیں۔ دونوں کے درمیان مفادات کا تصادم تھوڑی سی کمی بیشی کے ساتھ برقرار رہتا ہے۔ صوبائی حکومت میں دونوں جماعتیں مل کر چلنے کی قسم کھاتی ہیں مگر عوام کو عملاً ایسا کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ دونوں جماعتیں فطری اور ناگزیر حلیف ہوکر بھی ایک دوسرے کو پوری طرح نہیں اپناتیں۔ اپنے اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے ہی سے فُرصت نہیں ملتی۔ ایسے میں عوام کے مفاد کا کوئی کیا سوچے؟ ؎
اپنے ہی غم سے نہیں ملتی نجات
اِس بِناء پر فکرِ عالم کیا کریں!
پیپلز پارٹی اور متحدہ کا معاملہ ہر دور میں عجیب و غریب انتہاؤں کو چُھوتا رہا ہے۔ کبھی یہ تعلق ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے والا ثابت ہوتا ہے۔ کبھی سب کچھ بہت تیزی سے حرکت کرنے لگتا ہے اور کبھی اچانک standstill کا بٹن دَب جاتا ہے! ''کبھی خوشی، کبھی غم‘‘ ٹائپ کے اِس تعلق کو بیان کرنے بیٹھیے تو مثالیں ختم ہوجائیں گی، اِس تعلق کی نیرنگی ختم نہیں ہوگی۔
پیپلز پارٹی اور متحدہ ایک بار پھر کابینہ کے پلیٹ فارم پر ایک ہو رہی ہیں۔ معاملات ایک بار پھر طے پاگئے ہیں۔ چند ایک اُمور کو حتمی شکل دینا رہ گیا ہے۔ ایسا پہلے بھی کئی بار ہوا ہے کہ دونوں نے ایک پلیٹ فارم پر چلنے کا عہد کیا‘ مگر نتیجہ وہی نکلا یعنی ڈھاک کے تین پات۔ اب ایک بار پھر یہ دونوں جماعتیں ہیں اور اہلِ سندھ کی دُعائیں ہیں۔ سیاست ہو یا کرکٹ، اب تو دُعائیں ہی رہ گئی ہیں۔
تھوڑی سی تشویش پیدا کرنے والی بات ہے تو یہ کہ منظور وسان صاحب نے پیپلز پارٹی اور متحدہ کے درمیان منصۂ شہود پر آنے والے اِس نئے پیچ اپ کے بارے میں کوئی پیش گوئی کی ہے نہ کوئی خواب بیان کیا ہے۔ اللہ اللہ! پی پی پی متحدہ مفاہمت وہ ''استھان‘‘ جس پر منظور وسان صاحب کی خواب دیکھنے یا پیش گوئی فرمانے کی صلاحیت بھی قُربان ہوجاتی ہے! اور سندھ میں بسنے والوں کا یہ حال ہے کہ فِطری اتحادیوں میں نئی مفاہمت پنپتی دیکھ کر دم بَخود ہیں۔ ایسے میں ہمیں ''دبنگ‘‘ یاد آرہی ہے جس میں سوناکشی نے سلمان خان سے کہا تھا: ''تھپّڑ سے ڈر نہیں لگتا صاحب، پیار سے لگتا ہے!‘‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved