بھارت میں دہشت گردی کے دو واقعات رونما ہوتے ہیں ۔ ممبئی حملوں کے بارے میں بھارت پروپیگنڈا کے زور پر عالمی برادری کو باور کرا دیتا ہے کہ پاکستانی دہشت گرد ان میں ملوّث تھے ۔ عالمی سطح پر بھارت ایک طوفان کھڑا کردیتا ہے ۔ ایک ایسا خوفناک دبائو پیدا کیا جاتاہے ، برسوں بعد آج بھی جس کے اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں ۔ دوسری طرف سمجھوتہ ایکسپریس سانحے کا کُھرا سبکدوش بھارتی فوجی افسر کی طرف نکلتاہے ۔ جاں بحق ہونے والے افراد کی اکثریت مسلمان ہے ۔ یہاں ہمیں کوئی غیر معمولی صورتِ حال دکھائی نہیں دیتی ۔ اور تو اور ، گجرات میں مسلم کش فسادات کی وجہ سے جن نریندر مودی صاحب پر برسوں امریکہ داخلے کی پابندی عائد رہی ، آج وہ پردھان منتری بنے بیٹھے ہیں ۔ کیا حافظ سعید صاحب کے وزیرِ اعظم پاکستان بننے کا ایک ذرا سا امکان بھی ہمارے یہاں موجود ہے ؟
جنرل مشرف کے دور میں غیر معمولی لچک اور پسپائی اپنی جگہ ، کشمیر پہ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں آج بھی اپنی جگہ موجود ہیں ۔ یہ کہ خطے کے لوگوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کا موقع دیا جائے گا۔9/11کے بعد پیدا ہونے والی غیر معمولی صورتِ حال میں باڑ سمیت، کشمیر میں لائن آف کنٹرول پہ بھارت غیر معمولی حفاظتی اقدامات کر لیتا ہے۔ ان اقدامات کا مقصد تحریکِ آزادی کو کچلنا ہے ۔ لاکھوں بھارتی جوان وہاں موجود ہیں۔ 90ہزار بے گناہوں کے قتل سمیت، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اس قدرخوفناک ہیں کہ اپنے ضمیر کے سامنے شرمسار 120بھارتی جوان ہر سال خودکشی کر رہے ہیں ۔ 2008ء سے 2013ء کے پانچ برسوں میں 597 فوجی۔ ساتھیوں کی فائرنگ سے زخمی ہونے والے اس میں شامل نہیں۔ اس تمام پسِ منظر میں پاکستانی حکام کی کشمیری سیاسی قیادت سے ملاقات کو ایک غیر معمولی اقدام بلکہ گناہِ کبیرہ قرار دیتے ہوئے مہینوں کے لیے مذاکراتی عمل ملتوی کرنے کا بھارتی طرزِ عمل دیکھیے ۔حامدکرزئی کے افغانستان سے اس کے عظیم الشان سکیورٹی روابط دیکھیے ۔ بلوچستان میں اس مداخلت پہ غور کیجیے ،عسکری حلقوں کے بعد پاکستانی سیاسی قیادت بھی اب جس کا ذکر کر نے پر مجبورہے ۔یہ دیکھ چکیں تو آپریشن ضربِ عضب کے دوران مشرقی سرحد پہ شدید گولہ باری کو دیکھیے ، جس نے آدھی پاکستانی فوج کو مصروف (Engage)کر لیا تھا۔ یہ سب دیکھنے کے بعد بالآخر بھارتی سیکرٹری خارجہ کی پاکستان آمد پہ خود کو بغلیں بجاتے دیکھیے اور شرمسار ہو جائیے ۔ جی ہاں ، نشستند، گفتند اوربرخاستند کے ایک نئے دور کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو جائیے ۔
بھارتی طرزِ فکر کو درست طور پر آپ سمجھنا چاہیں تو نریندر مودی کی تقریبِ حلف برداری میں تمام سارک وزرائے اعظم بشمول میاں محمد نواز شریف کو مدعو کرنا دیکھیے ۔ اپنے تئیں وہ علاقے کا تھانیدار ہے ۔ پاکستان سمیت، پڑوس کی چھوٹی بڑی ریاستوں کو ہرصورت جس کا باجگزار رہنا چاہیے۔ سری لنکا میں بڑی چینی سرمایہ کاری کے موقع پر بھارت سری لنکا جوہری معاہدہ دیکھیے ۔ یہ سب دیکھ چکیں تو پھر اپنی فوج کو دیکھیے ، جس کے دو لاکھ جوان افغان سرحد سمیت شمالی وزیرستان میں مصروفِ عمل ہیں ۔ جو 7ارب ڈالر کے ننھے سے بجٹ کے ساتھ 47ارب والی بھارتی فوج کے خلاف سینہ سپر ہے ۔ اس کے بعد ان ''محب وطن‘‘ ہستیوں کو دیکھیے‘ جن کا فرمان یہ ہے : سارا بجٹ فوج کھا جاتی ہے !
میاں محمد نواز شریف نے اقتدار سنبھالا تو بھارت کے بارے میں وہ بڑی خوش فہمی کا شکار تھے ۔ غیر معمولی رفتار سے وہ اس کے ساتھ روابط کی بحالی ، بالخصوص تجارت کے خواہشمند تھے ۔ وزیراعظم کی تقریبِ حلف برداری سے قبل ہی جنرل کیانی ان سے ملے ۔ یہ کہا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی معمول کے سفارتی ذرائع سے ہونی چاہیے ۔ یہ بھی کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی ایک مدّت مقرر کی جانی چاہیے ۔ وزیر اعظم نے کیا کیا اور نتیجہ کیا نکلا، یہ ہم سب جانتے ہیں ۔ قصہ مختصر یہ کہ سکیورٹی کے معاملات پہ فوج کا موقف ٹھوس زمینی حقائق پر مبنی تھا ؛چنانچہ سیاسی قیادت کو بالآخر اسے قبول کرنا پڑا۔
وزیرِ اعظم کو اقتدار سنبھالے چند ماہ ہی ہوئے تھے کہ جنرل راحیل شریف نے یہ کہا : کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے ۔ اس موقع پر ایک بڑے تجزیہ کار سے گفتگو ہوئی تو اس نے یہ کہا: معاملہ (Initiative)اب سول کے ہاتھ سے نکل کر ملٹری کے پاس جا رہا ہے ۔آج عین اس وقت ، جب بھارتی سیکرٹری خارجہ کی پاکستان آمد کی ''خوشخبری‘‘ پہ سیاسی قیادت خوشی کے شادیانے بجا رہی ہے ، سیالکوٹ ورکنگ بائونڈری کا دورہ کرتے ہوئے آرمی چیف نے یہ کہا ہے : بھارت کسی غلط فہمی میں نہ رہے ، سرحد پہ جارحیت کا منہ توڑ جواب دیں گے۔ یہ بھی کہ بھارتی گولہ باری کا مقصد آپریشن ضربِ عضب سے توجہ ہٹانا ہے ۔
اگر آپ کو یاد ہو تو کشمیر سمیت بھارت کے ساتھ تنازعات پر ایک اورآرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے بے انتہا لچک دکھائی تھی ؛حتیٰ کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں سے ہٹ کر کئی غیر معمولی حل تجویز کیے گئے ۔ نتیجہ ڈھاک کے تین پات۔ مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان کے راستے بلوچستان میں مداخلت ہو (جس کے سدّباب کے لیے بلوچستان کی افغانستان سے ملنے والی سرحدپر 470کلومیٹر طویل خندق کھود ی گئی ) یا مشرقی سرحد پہ گولہ باری ، بوجھ تو بالآخر فوج ہی کو اٹھانا ہے... اور بھارتی روّیے کو وہ ''بغل میں چھری، منہ میں رام رام‘‘ سے تعبیر کر رہی ہے ۔ یہ تعبیر نہ صرف یہ کہ درست ہے بلکہ رام رام کے کلمات بھی مہینوں کی سرحدی گولہ باری کے بعد بمشکل تمام نریندر مودی حکومت کے منہ سے پھوٹے ہیں ۔
خوش فہم دوستوں سے معذرت کے ساتھ ۔ موجودہ صورتِ حال اور موجودہ پسِ منظر میں پاک بھارت مذاکرات سے کسی غیر معمولی پیش رفت کا امکا ن نہ ہونے کے برابر ہے ۔ دوسری بات یہ کہ سرحدوں کے علاوہ اندرونی سکیورٹی کے تمام معاملات بھی فوج ہی کے ہاتھ میں ہیں ۔ وہی صورتِ حال کو قریب سے دیکھ رہی ہے۔ ان مسائل سے اسی کو نمٹنا ہے ۔ ایسے میں خارجہ پالیسی ، بالخصوص افغانستان ، انڈیا اور کشمیر پالیسی عسکری قیادت کے ہاتھ میں ہے تو تعجب کیسا؟ ذمّہ داری جس کے سپرد ہو ، اختیار بھی اسی کا ہوتاہے ۔ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی !