تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     01-03-2015

سینیٹ انتخابات سے پہلے

وزیراعظم محمد نواز شریف نے جناب عمران خان کے واویلے کے بعد سینیٹ کے الیکشن کے آئینی طریق کار میں ترمیم کرنے کے لئے تمام پارلیمانی جماعتوں کے رہنمائوں کا جو اجلاس طلب کیا تھا، وہ کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہو گیا۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ انہیں ایک شخص نے (خیبر پختونخوا سے) سینیٹ کا ٹکٹ حاصل کرنے کے لئے پندرہ کروڑ روپے ادا کرنے کی پیشکش کی، تو خیال گزرا کہ اگر اُن کے ساتھ یہ (حُسن ِ) سلوک کیا جا سکتا ہے، تو کسی دوسرے کو بھی اِس کا مستحق سمجھا جا رہا ہو گا۔ چونک کر اِدھر اُدھر جھانکا تو گرم بازاری دیکھی۔ کئی حلقہ بگوشوں نے خبر دی کہ ایک ایک ووٹ کے لئے لاکھوں کیا کروڑوں (طلب اور) پیش کیے جا رہے ہیں، سو انہوں نے ہنگامہ اُٹھا دیا اور خفیہ رائے دہی کا طریقہ ختم کر کے کھلی رائے شماری کو اپنانے کا مطالبہ کیا، تاکہ جو شخص اپنی جماعت کے ٹکٹ ہولڈر یعنی قیادت کے جگر گوشے کو نظر انداز کر کے اپنے جگر کا ٹکڑا کسی اور کو بنائے، اُسے رنگے ہاتھوں پکڑ کر اُس کی مُشکیں کَسی جا سکیں۔
وزیراعظم کو بلوچستان سے بھی ایسی خبریں موصول ہو چکی تھیں کہ وہاں مسلم لیگ(ن)کے بعض ارکان اپنی آزادی (بلکہ آزاد روی) کا مظاہرہ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں اس لیے مناسب یہی جانا گیا کہ سینیٹ کے انتخابات کو آلودگی سے بچانے کے لئے آئین میں فی الفور22ویں ترمیم کر ڈالی جائے۔ پیپلزپارٹی سندھ میں ایم کیو ایم کے ساتھ معاملہ کر کے مطمئن و مسرور تھی کہ وہاں ان دونوں کے مخالفوں کے ہاتھ کچھ نہیں آنے والا (پیر صاحب پگاڑا جو بھی کہیں، اور ان کے حاشیہ بردار جس جس طرح کے دعوے کریں، ہاتھ میں پتّے نہیں رہیں گے، تو ان کا کوئی ایک امیدوار بھی جیت نہیں پائے گا)، سو اُس نے اس معاملے میں کوئی سرگرمی دکھانے یا کسی سرگرمی کا ساتھ دینے سے کنارا کر لیا۔ پنجاب میں پیپلزپارٹی کے ہاتھ پہلے ہی خالی ہیں، خیبرپختونخوا میں بھی مضمون واحد ہے، بلوچستان کے پرندے بھی اِدھر اُدھر دانہ چُگ رہے ہیں۔ سو جب کہیں سے وصولی کی کوئی امید نہیں ہے تو اصولی موقف کیوں نہ اختیار کر لیا جائے؟ منطق بگھاری جائے کہ بات تو اگرچہ درست ہے، سینیٹ کے انتخابات کے طریق کار میں تبدیلی کی جا سکتی ہے، اصلاحات کا عمل مکمل ہونا چاہئے، لیکن شیڈول کا اعلان ہو چکا ہے‘ انتخابات میں چند روز باقی رہ گئے ہیں‘ اس لیے کرنے کا کام یہی ہے کہ کچھ نہ کیا جائے۔ فیصلہ درست سہی، وقت غلط ہے اور غلط وقت پر صحیح فیصلے نہیں کیے جانے چاہئیں، کیونکہ غلط فیصلے غلط وقت پر کرنا چاہئیں یا غلط فیصلے صحیح وقت پر کر لینا چاہئیں۔ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا؟ مولانا فضل الرحمن نے شرعی کمک فراہم کر دی۔ ان کا استدلال ہے کہ ارکانِ اسمبلی کا تاثر خراب نہیں کرنا چاہئے۔ گویا، کسی کو ناکردہ گناہی کی سزا فقہ حنفی کی رو سے نہیں دی جا سکتی۔ ووٹ کا استعمال جب کیا ہی نہیں گیا تو پھر یہ سوئِ ظن کیوں کیا جائے کہ کوئی رکن اسمبلی اپنا ووٹ، کسی امیدوار کو فروخت کرے گا۔ مسلمانوں کو تلقین کی گئی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے بارے میں حُسنِ ظن رکھیں، اچھا سوچیں‘ اچھا چاہیں۔ سو عوام کے کسی باقاعدہ منتخب نمائندے کے بارے میں بدگمانی کا اظہار تہمت زنی ہے اور تہمت لگانے والے پر ''حد ِقذف‘‘ جاری ہونی چاہئے۔ پس پیپلزپارٹی اور جمعیت علمائے اسلام نے خفیہ رائے شماری کو ختم کرنے کے لیے کسی آئینی ترمیم کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ معاملہ کھٹائی میں پڑ چکا ہے، لیکن اس کا یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ تحریک ِ انصاف کے ڈاکٹر عارف علوی اور محترمہ شیریں مزاری دن دیہاڑے کہہ گزرے ہیں کہ وزیراعظم مجوزہ آئینی ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش کریں، تاکہ قوم کو ڈنکے کی چوٹ پتہ چل سکے کہ کون ہارس (یا ڈنکی) ٹریڈنگ کو روکنا چاہتا اور کون اسے جاری رکھنا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے لئے قومی اسمبلی کابائیکاٹ ختم کر کے تحریک ِ انصاف کے کارکن اپنا ووٹ ڈالیں گے اور یوں اپنا نام ان لوگوں کی فہرست میں اونچا کریںگے جو سینیٹ کے انتخابات میں پیسے کی کارستانیوں کا قلع قمع چاہتے ہیں۔ یوں عام انتخابات میں قابلِ خرید و فروخت امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ دے کر اسمبلیوں میں پہنچانے کے گناہِ کبیرہ کا کفارہ بھی ادا ہو جائے گا۔
پیپلزپارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے علاوہ کسی نے(تادمِ تحریر) اس طرح کا موقف اختیار نہیںکیا، اس لیے امید کی جا سکتی ہے کہ قومی اسمبلی میں دوتہائی اکثریت کے ساتھ آئینی ترمیم منظور ہو جائے گی، لیکن سینیٹ میں پیپلزپارٹی اور جمعیت اس کے راستے میں رکاوٹ ہوں گی، اس لیے یہ بل وہیں کا وہیں رہے گا۔اس دوران میں انتخابات ہو جائیں گے اور ان میں جو ہونا ہو گا وہ بھی ہو جائے گا۔ اس سب کا ثواب ان کی روح کو پہنچتا رہے گا جنہوں نے ایسا ہونے کی اجازت دی۔
اگر سیاسی جماعتیں چاہیں تو وہ یہ عبوری انتظام کر سکتی ہیں کہ جس جماعت کے پاس ایک بھی سیٹ کے لئے مطلوبہ ارکان نہیں ہیں، وہ کسی کو ٹکٹ جاری نہ کرے۔ اگر جاری کر دیا ہے تو منسوخ کر دے۔ خیبرپختونخوا کی اسمبلی میں جس پارٹی کے چار یا پانچ ارکان ہیں، ان کے حصے میں تو آدھی نشست بھی نہیں آئے گی کہ وہاں کسی بھی امیدوار کو کامیابی کے لئے کم سے کم 17 ووٹ تو حاصل کرنا ہوں گے۔ جو جماعتیں فیاضی سے ٹکٹ جاری کر رہی ہیں اور ماضی کے شہرت یافتہ سوداگروں کو اپنے ہاتھ پیلے کرنے کی اجازت دے رہی ہیں، وہ اپنی پاکبازی کی دہائی کس طرح دیں گی؟ انہیں تو ''کاری‘‘ ہی قرار دیا جائے گا۔
اس سب سے قطع نظر، تحریک ِ انصاف کی واپسی پر بغلیںبجائی جانی چاہئیں، اس کے حامی تالیاں بھی بجا سکتے ہیں کہ اسے ایوان میں پہنچنا اور وہ کرنا نصیب ہو گیا کہ جس کے لئے انہوں نے ووٹ حاصل کیے تھے، یعنی ایوان کی کارروائی میں حصہ لینا۔ اگر انتخابات میں منظم دھاندلی کی تحقیقات کے لئے مجوزہ کمشن کا قیام بھی عمل میں آ جائے تو پھر راوی چین نہ لکھے، تو بھی بے چینی تو ختم ہو ہی جائے گی۔ جناب اسحاق ڈار اور جناب جہانگیر ترین ایک دوسرے کے جتنا قریب آ چکے ہیں، اس کے بعد تو انہیں کسی دھکے کی نہیں، بس ایک ہلکے سے دھپے کی ضرورت ہے، دونوں کی باچھیں مزید کھل جائیں گی۔
(یہ کالم روزنامہ '' دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved