جب تک آگے بڑھ کر ان کی بساط ہم الٹ نہیں دیتے‘ یہی بے کسی ہم پر مسلط رہے گی۔
عبث ہے شکوۂِ تقدیرِ یزداں
تو خود تقدیرِ یزداں کیوں نہیں ہے؟
خدا خدا کر کے ٹیلی فون سموں کی تصدیق کا سلسلہ شروع ہوا۔ پانچ برس ہوتے ہیں‘ اخبار نویسوں نے جب واویلا شروع کیا تھا۔ لاہور سے اسلام آباد جاتے ہوئے‘ ایک منظر دیکھا‘ سر سے پائوں تک‘ جس نے مسافر کو لرزا دیا۔ ایک چادر پر مختلف موبائل کمپنیوں کی سمیں پھیلا دی گئی تھیں۔ سرہانے ایک بورڈ آویزاں تھا۔ اپنی پسند کی کمپنی کا کنکشن حاصل کیجے‘ فوراً۔
پانچ کروڑ سموں کی تصدیق ہو چکی اور پانچ کروڑ ہی باقی ہیں۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق 70 لاکھ منسوخ کر دی گئی ہیں۔ پاکستانی عوام دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ موبائل استعمال کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ سب سے زیادہ باتونی واقع ہوئے ہیں۔ دنیا میں ہم سب سے کم بچت کرنے والی قوم ہیں۔ گپ شپ‘ تفریحات اور دکھاوے کے لیے ہمارے پاس بہت سا وقت ہوتا ہے‘ رائیگاں کرنے کے لیے۔
اچھی خصوصیات بھی ہیں۔ آمدن کے تناسب سے دنیا میں سب سے خیرات کرنے والا معاشرہ۔ دلی میں 25 بھوکوں کی لاشیں ہر روز اٹھائی جاتی ہیں‘ اندازہ کیجیے کہ پورے بھارت میں کس قدر۔ لاہور کے ہسپتالوں میں تمام مریضوں کو کھانا مفت ملتا ہے اور ان کے لواحقین کو بھی‘ نہایت اعلیٰ معیار کا۔ ظاہر ہے کہ کئی دوسرے شہروں میں بھی۔
پاکستانی قوم کے مزاج کا ایک پہلو یہ ہے کہ دنیا بھر میں شاید وہ قانون کی سب سے کم پاسداری کرنے والی ہے۔ معاشروں کی
عادات صدیوں میں تشکیل پاتی ہیں۔ اس طرزِ عمل کا سبب غالباً یہ ہے کہ ہم اس سرزمین کے آقا رہے یا غلام۔ سات سو برس تک ہندوستان پر ہم نے حکومت کی‘ پھر خانہ جنگی کے طویل ادوار اور اس کے بعد انگریزوں کی غلامی۔ قانون کا احترام ہمارے دلوں میں کبھی نہیں اترا اور اس کے اسباب ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے شمشیر کے بل پر ہمارے حکمران رہے۔ ہمارے قومی لاشعور میں یہ احساس بہت گہرا ہے کہ یہ ایک زنجیر ہے‘ جو مجبوراً ہمیں پہننا پڑتی ہے۔ ہماری آزادی اور اس کے نتیجے میں خوش دلانہ زندگی کے امکانات کو جو محدود کرتی ہے۔
معاملے کی حقیقت مختلف ہے۔ قانون دراصل آزادی کی ضمانت دیتا ہے‘ ایک خاص دائرۂ کار کے اندر۔ آدمی کا عمومی اندازِ فکر یہ ہوتا ہے کہ اپنا طرزِ زندگی مرتب کرنے کے لیے وہ طاقتور لوگوں کی طرف دیکھتا ہے۔ عربوں کا محاورہ یہ ہے ''الناس علیٰ دین ملوکم‘‘۔ لوگ اپنے بادشاہوں کے دین پر ہوتے ہیں۔ جس طرح وہ کھاتے پیتے اور پہنتے ہیں۔ سلمان بن عبدالمالک کے زمانے میں خلق خدا کھانے پینے کی طرف راغب تھی تو ولید کے زمانے میں عمارتوں کی تعمیر کا ولولہ تھا۔ عمر بن عبدالعزیز کا دور آیا تو قوم زہد اور سخاوت کی طرف مائل تھی۔
قائد اعظم نے ایثار اور نظم کا درس دیا تھا۔ وہ خود اس کی ایک روشن مثال تھے۔ حمید نظامی سے کے ایچ خورشید تک کتنے ہی ''نوجوانوں‘‘ کو دیکھا گیا کہ محمد علی جناح سے وہ نظریاتی طور پر ہی متاثر نہ ہوئے بلکہ رہن سہن اور بات چیت کے انداز میں بھی۔ ان کے بعد قوم کو کوئی ایسا لیڈر نہ ملا‘ قوم جس کی تقلید کر سکتی۔
یہ معاملے کا صرف ایک پہلو ہے۔ قبائلی سماج کو متمدن معاشرے میں تبدیل کرنے کا عمل ہمیشہ دشوار ہوتا ہے۔ مدینہ منوّرہ میں کسی سے پیمان شکنی کا اندیشہ کم ہی ہوتا تھا اور عزت نفس کا شعور بہت گہرا تھا۔ رحمۃ اللعالمینؐ‘ اہلِ بیت اور اصحاب رسول کو انہوں نے دیکھا تھا۔ امام مالکؒ اسی بنا پر یہ ارشاد کیا کرتے کہ اہلِ مدینہ کا اجماع بجائے خود حجّت ہے۔ اس کے برعکس جوق در جوق ایمان لانے والے بدّوئوں کا دین کیسا تھا؟ قرآن کریم نے متنبہ کر دیا تھا کہ ایمان ان کے دلوں میں نہیں اترا۔ ایک دن جبریل امین تشریف لائے اور سرکارؐ کی خدمت میں عرض کیا: دائمی عمر اور دنیا کے سب خزانوں کی کنجیاں۔ فرمایا ''مگر وہ میرا اعلیٰ رفیق‘‘۔ اس دنیا سے وہ تشریف لے گئے تو وہ بدلنے لگی۔ مکہ مکرمہ‘ مدینہ منوّرہ اور طائف کے سوا‘ پورے کے پورے جزیرہ نما عرب نے مرکز سے منہ پھیر لیا۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی لافانی عظمت کا راز یہ ہے کہ معاملے کی سب جہات کا عالی جناب کو ادراک تھا اور اللہ کے قانون کو نافذ کر دینے کا عظیم الشان ولولہ بھی۔ اس وقت جب سیدنا فاروقِ اعظمؓ سمیت‘ کتنے ہی لوگوں نے نرمی اختیار کرنے کا مشورہ دیا‘ انہوں نے عہد کیا: خدا کی قسم‘ اگر کوئی شخص اونٹ کی ایک رسی بھی دینے سے انکار کرے گا‘ جو وہ دیا کرتا تھا‘ تو میں اسے معاف نہ کروں گا۔
اگلے چند عشروں میں جو سلطنت تین براعظموں تک پھیل گئی‘ وہ اسی اندازِ فکر کا اعجاز تھا۔ باایں ہمہ اس معاملے کا ایک اور بھی پہلو ہے‘ جو اتنا ہی اہم ہے۔ حکمرانی قانون کی تھی‘ افراد کی نہیں۔ زمامِ کار سنبھالتے ہوئے جناب ابوبکرؓ نے خود ارشاد کیا تھا کہ اگر وہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی پیروی کریں تو ان کی اطاعت کی جائے ورنہ انکار کر دیا جائے۔
عمر فاروقِ اعظمؓ کو مسلمہ تاریخ کا سب سے زیادہ جلیل القدر حکمران سمجھا جاتا ہے۔ فاتح لشکروں کو دی گئی جاگیریں واپس لینے کے لیے ایک طویل بحث سے انہیں گزرنا پڑا‘ درآں حالیکہ وہ قرآن مجید سے استدلال کر رہے تھے۔ معروف واقعہ ہے کہ کس طرح ایک بزرگ خاتون نے انہیں حقِ مہر مقرر کرنے سے روک دیا تھا‘ جب منبر سے وہ اس کا اعلان کرنے والے تھے۔ اپنے حاکموں اور اولاد کے ساتھ وہ سخت گیر تھے اور عام لوگوں کے ساتھ نرمی برتنے والے۔ بھوکے بچوں والی خاتون کے لیے‘ نواحِ مدینہ میں جو بے یارومددگار پڑی تھی‘ اناج اپنی پیٹھ پر لاد کر لے گئے تھے۔ غلام نے آگے بڑھ کر اٹھانا چاہا تو کہا: قیامت کے دن میری بجائے کیا تم جواب دہی کرو گے؟ صاحبزادے عبداللہ بن عمر نے سوال کیا کہ حسینؓ اور حسن بن علیؓ کا وظیفہ ان سے زیادہ کیوں ہے۔ فرمایا: اے جانِ پدر‘ اس لیے کہ اس کی ماں تمہاری ماں سے اور اس کا باپ تمہارے باپ سے افضل ہے۔ (وہ ہم سے پہلے اسلام لائے تھے‘ انہوں نے ہم سے زیادہ زخم سہے)
حیرت ہوتی ہے اور بہت حیرت‘ لوگ جب میاں محمد نواز شریف کی حب الوطنی کے گیت گاتے ہیں۔ اپنے کارخانے انہوں نے کس طرح تعمیر کیے؟ زورِ بازو سے؟ وہ تو قومیا لیے گئے تھے‘ پھر کیا بینکوں نے اس لیے ان پر قرضوں کی بارش نہ کی جب کہ وہ وزیر اعلیٰ ہوئے اور وزیر اعظم ہو گئے؟ سندھ میں 18 عدد شوگر ملوں کے مالک۔ دبئی‘ فرانس‘ برطانیہ اور امریکہ سمیت دنیا کے متعدد ممالک میں کھربوں روپے کی عمارتیں رکھنے والے آصف علی زرداری کیا تب بھی ارب پتی تھے‘ جب محترمہ بے نظیر بھٹو سے ان کی سگائی ہوئی۔ خود محترمہ بے نظیر بھٹو؟ کوئی جائے اور لندن میں محترمہ صنم بھٹو کے حالات کا مشاہدہ کرے۔ فخر افاغنہ جناب اسفند یار ولی خاں؟ حضرت مولانا فضل الرحمن مدظلہ العالی؟ وہی کیا ہزاروں کا لشکر ہے‘ اس غریب ملک کے عوام اپنے خون پسینے کی کمائی سے جسے پالتے ہیں۔ خدا کی پناہ‘ اس ملک کے وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کے کاروبار کا بیشتر حصہ بیرون ملک ہے۔ قصیدہ نگاروں کا زورِ بیان انہیں صلاح الدین ثابت کرنا چاہتا ہے۔ لغت میں لفظ نہیں کہ ان چھچھوروں کے کردار کا احاطہ کر سکے۔ بھکاری تو صرف زندہ رہنے کے لیے دستِ سوال دراز کرتا ہے۔ یہ لوگ اپنی قوم کو پست اور غلام بنانے کی قیمت پر آسودہ زندگی کی آرزو کرتے ہیں۔
ہوسِ لقمہ تر کھا گئی لہجے کا جلال
اب کسی حرف کو حرمت نہیں ملنے والی
بارہا عرض کیا اور بارِ دگر عرض ہے کہ سیاسی لیڈر‘ افواج اور اشرافیہ ملک کی حفاظت نہیں کیا کرتے۔ ملک کا پرچم باشعور عوام سرفراز کیا کرتے ہیں۔ جب تک آگے بڑھ کر ان کی بساط ہم الٹ نہیں دیتے‘ یہی بے کسی ہم پر مسلط رہے گی۔
عبث ہے شکوۂِ تقدیرِ یزداں
تو خود تقدیرِ یزداں کیوں نہیں ہے؟