تحریر : افضل رحمٰن تاریخ اشاعت     01-03-2015

اجتماعی شعور کی توہین

بھارتی اداکار نصیرالدین شاہ کئی مرتبہ پاکستا ن آ چکے ہیں‘ لیکن اس مرتبہ لاہور لٹریری فیسٹول میں ایسا لگتا ہے کہ شغل لگانے آئے تھے۔
ہمارے ایک دوست کہا کرتے تھے کہ انسان کو ہر وقت ذہن میں عجیب عجیب خیال آتے رہتے ہیں لیکن دماغ میں ایک ایسا سسٹم موجود ہے کہ انسان اُن خیالات کو سنسر کر سکتا ہے اور جب کبھی شغل لگانا ہو تو آپ وہ سنسر ہٹا دیں اور جو کچھ خواہشوں‘ بدمزگیوں اورکمینگی کی شکل میں موجود ہو اس کو اُگل دیں تو بس‘ ہر طرف پھلجھڑیاں دکھائی دینے لگیں گی۔ یہی کام اپنے حالیہ دورے میں نصیر الدین شاہ کر گئے ہیں۔
نصیر الدین شاہ آواز کے آرٹسٹ ہیں۔ ان کو متوازی سینما میں جتنی بھی کامیابی ملی ہے اس میں بہت بڑا حصہ ان کی آواز کا ہے۔ موصوف نے جو انتہائی طاقتور کردار ادا کر رکھے ہیں اور جن کو شہرت بھی مل چکی ہے‘ ان میں سے کسی ایک آرٹ فلم میں نصیر الدین شاہ کے کردار پر کسی عام آرٹسٹ کی آواز ڈب کر کے اس آرٹ فلم کو دیکھیں تو آپ کو ابکائیاں آنے لگیں گی ۔ پونا انسٹی ٹیوٹ میں تربیت حاصل کرنے کے بعد بھی نصیر الدین شاہ کبھی اپنے چہرے سے یا اپنے بدن سے وہ کام نہیں لے سکے جو ایک اچھے ایکٹر کو لینا چاہیے۔ یہ ان کا المیہ ہے۔ ان کے پاس محض آواز ہے اور بس۔
وہ بھارت میں ایک زمانے میں جو شہرت حاصل کر سکے‘ اس کے پس منظر میں اہم وجہ یہ ہے کہ پاکستان ٹیلی وژن کے ڈرامے بھارت کی شوبز انڈسٹری کو اپنے منہ پر ایک طمانچہ محسوس ہوتے تھے۔ ہمارے ٹی وی پروڈیوسروں نے انتہائی کم قیمت پر چھوٹے
چھوٹے سیٹ لگا کر اور ای این جی کے ذریعے آئوٹ ڈور شوٹنگ کر کے اور پاکستانی آرٹسٹوں کی صلاحیتوں کو استعمال کر کے پورے بھارت کو ہلا کے رکھ دیا تھا۔ پاکستان کے ٹی وی ڈراموں کی کامیابی کا راز لکھنے والوں اور فنکاروں کی ریڈیو پر ہونے والی ٹریننگ تھی۔ اشفاق احمد‘ بانو قدسیہ‘ سلیم احمد‘ انور سجاد‘ ممتاز مفتی‘ اے حمید‘ انتظار حسین‘ سلیم چشتی‘ جمیل ملک اور درجنوں دوسرے لکھنے والے اگر لمبے لمبے مکالمے تحریر کیا کرتے تھے تو اُن کو عظمیٰ گیلانی ‘ عابد علی‘ شجاعت ہاشمی‘ فردوس جمال‘ محمد قوی خان‘ طلعت حسین سمیت ہمارے صف اول کے فنکار ریڈیو پر تربیت یافتہ آواز کے ذریعے ادا کر کے سماں باندھ دیا کرتے تھے۔ پھر حسینہ معین کے خوبصورت ڈراموں میں اگرچہ مکالمے مختصر ہوتے تھے مگر فنکاروں کی آوازیں بھی ان ڈراموں کی کامیابی کا راز تھیں۔ انور مقصود کے مزاحیہ اور سنجیدہ ڈراموں میں بھی فنکاروں کی آوازوں کا بہت کردار تھا ۔ اکیلے معین اختر ہی ایک انجمن تھے۔ بہرحال اس طرح بات بہت طویل ہو جائے گی۔ کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ ہمارے کامیاب ٹی وی ڈراموں نے اس دور میں بھارت میں پیغام یہ دیا کہ ان کے بالی وڈ نے آواز کو Exploit نہیں کیا ہے۔ اس خلا کو محسوس کر کے‘ جب ان کے دانشور آرٹ فلموں کی شکل میں آواز کو استعمال کرنے نکلے تو اس دوران جو لوگ دریافت
ہوئے ان میں نصیر الدین شاہ ایک اہم نام ہے۔ شبانہ اعظمی بھی ان کے ساتھ ہی آرٹ فلموں میں مصروف ہوئیں۔ موصوفہ بھی کمرشل سینما میں وہ شہرت نہ پا سکیں جو صف اوّل کی ہیروئنز کو حاصل ہوتی ہے۔نصیر الدین کا اس لحاظ سے مین سٹریم بھارتی سینما میں کوئی خاص مقام بنتا نہیں ہے لہٰذا ان کی کسی بات کو سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے۔
اب اگر بالی ووڈ میں ان کے پاس آواز کے سوا اور کچھ نہیں ہے تو پھر ایسے بیانات کہ شمی کپور اور دارا سنگھ ان کے پسندیدہ فنکار ہیں‘ احتجاج کی ایک انوکھی شکل معلوم ہوتے ہیں۔پیغام ان کے اس بیان میں یہ موجود ہے کہ اگر بالی وڈ نے مجھے بڑا ایکٹر نہیں مانا تو میں پھر بڑے ایکٹر کا معیار ہی تبدیل کر دونگا۔ظاہر ہے یہ محض ایک مجذوب کی بڑ ہے۔ وہ کر تو کچھ بھی نہیں سکتے۔ جو کچھ کر سکتے تھے‘ وہ کر گئے ہیں۔
مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ اس بحث میں دلیپ کمار کا ذکر کیوں آیا‘اس فضول سی گفتگو میں دلیپ کمار کا ذکر ہونا ہی نہیں چاہیے تھا۔
میرا تعلق اس نسل سے ہے جو دلیپ کمار کی فلمیں دیکھ دیکھ کر جوان ہوئی ہے۔لہٰذا ممکن ہے میری رائے کچھ زیادہ ہی دلیپ کمار کے فن کے حق میں جھکی ہوئی ہو لیکن جنوبی ایشیا میں دلیپ کمار کے بعد کی دو نسلوں کے سب سے بڑے اداکار یعنی امیتابھ بچن اور شاہ رخ خان بھی دلیپ کمار کو ایکٹنگ کے فن کا بادشاہ مانتے ہیں۔
اب اگر امیتابھ بچن کہے کہ شمی کپور یا دارا سنگھ ان کے پسندیدہ ترین فلمی اداکار ہیں تو پھر تو اس بارے میں غور کرنا ہو گا کہ آخر فن کی وہ کون سی باریکیاں ہیں جو ہمیں دکھائی نہیں دے رہیں۔ یا پھر اگر شاہ رخ خان ایسا کوئی بیان داغ دے تو اس پر بھی کم از کم سنجیدگی سے غور تو ہو سکتا ہے‘ کیونکہ ان فنکاروں کا فلم کی دنیا میں ایکٹنگ کے حوالے سے اونچا مقام ہے‘ لیکن نصیر الدین شاہ اگر ایسا بیان دے تو اس کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا سکتا۔
ہمارے لوگ اچھے ہیں۔ بھارتی فنکاروں کے بارے میں کوئی تعصب نہیں رکھتے۔ بھارت میں تھوڑا بہت تعصّب ملتا ہے لیکن جس نوعیت کے تعصّب کا اظہار نصیر الدین شاہ کی زبانی سننے میں آیا ہے یہ تعصّب کم اور ایک شکست خوردگی کا احساس زیادہ معلوم ہوتا ہے۔لوگ کہتے ہیں کہ ان کو حق پہنچتا ہے کہ جو رائے مرضی ہے رکھیں۔ اسی اصول کے تحت ہمیں بھی حق پہنچتا ہے کہ نصیر الدین شاہ کی ذہنی سطح کے بارے میں جو مرضی اندازے لگائیں۔ اس سے پہلے بھی وہ پاکستان آتے رہے ہیں مگر انہوں نے اپنے دماغ کے سنسر سے کام لیتے ہوئے اس نوعیت کی گفتگو سے گریز کیا‘ لہٰذا ان کی بے مثال پذیرائی ہوتی رہی ہے۔
اس مرتبہ انہوں نے خود ہی پہل کر کے اپنے آپ کو ایک تنازع کا مرکزی کردار بنا لیا ہے۔ اس کے نتیجے کے طور پر غالب امکان ہے کہ اب ان کا ادھر آنا جانا بھی کم ہو جائے گا‘ کیونکہ اب اگر دوبارہ ادھر کا رخ کریں گے تو یہ تنازعہ پھر ان کا پیچھا کرے گا۔
نصیر الدین شاہ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر انہوں نے ایسا کیا جرم کر دیا ہے کہ ہر کوئی پیچھے پڑ گیا ہے تو اُن کو سمجھانے کے لیے میں عرض کروں کہ اس دنیا میں بعض شخصیات ایسے مقام تک پہنچ جاتی ہیں کہ اُن کی عزت و ناموس کو کسی ملک کی سرحد روک نہیں پاتی۔ جیسے سیاسی میدان میں نیلسن منڈیلا کی شخصیت ہے۔ سوشل ورک کے ضمن میں مدرٹریسا کی شخصیت ہے۔ قوالی کے میدان میں نصرت فتح علی اور موسیقی کی دنیا میں لتا اور نورجہاں کی شخصیات ہیں۔ اسی طرح ایکٹنگ کے شعبے میں دلیپ کمار کی شخصیت ہے۔
ایسی شخصیات کی عزت و ناموس کی حفاظت کرنا اجتماعی انسانی شعور کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ لہٰذا نصیر الدین شاہ یا کوئی اور اگر ہمارے اجتماعی شعور کی توہین کرے گا تو پھر اس کا ردعمل تو ہو گا۔ میری رائے میں نصیر الدین شاہ نے اپنے بیان سے جنوبی ایشیا کے عوام کے اجتماعی شعور کی توہین کی ہے۔ اظہار رائے کی آزادی ایسی توہین کی اجازت نہیں دیتی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved