تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     02-03-2015

یادیں

برائر لین میں اپارٹمنٹس کے چار بلاک ہیں۔ ہر بلاک تین منزلہ ہے ۔ دو بلاک چوبیس چوبیس اپارٹمنٹس والے ہیں اور دو بلاک اٹھارہ اٹھارہ اپارٹمنٹس پر مشتمل ہیں۔ اس طرح کل چوراسی اپارٹمنٹس ہیں۔ پہلا اور دوسرا بلاک ایک دوسرے سے تھوڑے فاصلے پر ہیں‘ یہی بیس تیس گز دور‘ جبکہ تیسرا اور چوتھا بلاک تقریباً آمنے سامنے ہیں‘ درمیان میں پارکنگ ہے۔ میری بیٹی چوتھے بلاک میں رہتی ہے۔ اس بلاک میں اٹھارہ اپارٹمنٹس ہیں۔ تین منزلیں اس طرح ہیں کہ ایک منزل سات سیڑھیاں نیچے اتر کر ہے یعنی نیم تہہ خانہ سا ہے۔ دوسری منزل صرف سات سیڑھیاں چڑھ کر ہے۔ عموماً اس منزل کو ''میزانائن فلور‘‘ (Mezzanine)یعنی دو چھتی یا مچان کہا جاتا ہے۔ تیسری منزل مزید چودہ سیڑھیاں اوپر ہے۔ کچھ اپارٹمنٹس ایک بیڈ روم پر مشتمل ہیں‘ کچھ دو اورکچھ تین بیڈ رومز والے ہیں۔ ا ن چوراسی گھرں میں اکیلے دو کیلے بھی رہائش پذیر ہیں اور فیملیز بھی رہتی ہیں۔ سردی اور برف کی وجہ سے بچے باہر گرائونڈ میں کہیں کھیلتے نظر نہیں آتے‘ صرف چار چھ بوڑھے اور بوڑھیاں اپنے کتوں کے ساتھ چہل قدمی کرتے نظر آتے ہیں اور بس۔ اگر کتوں کو باہر ٹہلانے کی مجبوری نہ ہوتی تو یہ چند بوڑھے بھی گھر کے اندر ہوتے اور ساری برائرلین مزید ویرانہ بن جاتی۔
میری بیٹی کا اپارٹمنٹ درمیان والی منزل پر ہے۔ اس کے نیچے دو اپارٹمنٹ ہیں۔ دو اوپر ہیں اور ایک سامنے۔ ہر بلاک میں ایک داخلی دروازے کے اندر چھ اپارٹمنٹس ہیں۔ دو نیچے‘ دو درمیان میں اور دو اوپر۔ دو بلاکس میں چار چار دروازے ہیں اور دو بلاکس میں تین تین داخلی دروازے ہیں۔ انیس بیس دن میں ہر روز چار چھ بار باہر آنے جانے کے دوران کسی ہمسائے سے ٹاکرا نہیں ہوا۔ صرف ایک دن نیچے رہنے والی گوری چار منٹ کے لیے آئی۔ ایک گفٹ پیک میری بیٹی کے حوالے کیا۔ جھولے میں لیٹے ہوئے سیفان کو دیکھا۔ اس کی خوبصورتی کی تعریف کی‘ میری بیٹی کو مبارکباد دی اور یہ جا وہ جا۔ پورے بیس دن کے دوران کسی ہمسائے سے یہ پہلی اور آخری ملاقات تھی۔ کہیں کوئی شور نہیں۔ سیڑھیوں پر کوئی ''دبڑ دبڑ‘‘ نہیں ہوتی۔ باریک باریک دیواریں ہیں مگر کسی ہمسائے کا کوئی شور سنائی نہیں دیتا۔ چھتیں کنکریٹ کی نہیں لکڑی کی ہیں مگر اوپر سے کوئی ٹھک ٹھک تنگ نہیں کرتی۔ بڑا سکون ہے‘ مگر انسان بھی عجیب مخلوق ہے ۔ اسے سکون بھی چاہیے اور رونق بھی درکار ہے۔ ارسطو نے اسی لیے انسان کو معاشرتی جانور کہا ہے۔ یہاں معاشرتی جانور معاشرے کے آخری کونے میں لگا ہوا ہے‘ جہاں اس کا انسانوں سے رابطہ بس مجبوری والا رہ گیا ہے۔ موج میلے والا رابطہ چوک شہیداں کی گلیوں میں کہیں رہ گیا ہے۔
میں اب زکریا ٹائون میں رہتا ہوں مگر ایمانداری کی بات ہے کہ میں زکریا ٹائون میں رہتے ہوئے بھی چوک شہیداں کو اپنے اندر بسائے ہوئے ہوں۔میرا بچپن ‘لڑکپن اور نوجوانی‘ ساری کی ساری چوک شہیداں کے محلہ غریب آباد میں گزری۔ جماعت اسلامی سے نکلنے والوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی شخص جماعت اسلامی سے نکل بھی جائے تو جماعت اسلامی اس کے اندر سے نہیں نکلتی۔ اسی طرح چوک شہیداں میرے اندر سے نہیں نکلتا۔میونسپل پرائمری سکول چوک شہیداں ۔اس کے بالکل سامنے گلو نائی کی دکان۔ ساتھ چاچا جان محمد کی چھوٹی سی سٹیشنری کی دکان۔ کونے پر میونسپل کمیٹی کی ڈسپنسری ۔اندر گلی میں داخل ہوتے ہی ادریس کا صابن کا کارخانہ ۔ ساتھ میونسپل گرلز مڈل سکول۔ سامنے ٹکر پر اسلم منزل۔ حکیم سرور کی سرور بلڈنگ‘ جس میں آٹھ دس سرخ اینٹوں والے گھر تھے جو سب کے سب کرائے پر دیے جاتے تھے۔ ساتھ رانا کی دکان۔ مشتاق کا کھوکھا اورباغ والی گلی۔ باغ والی گلی تو موجود ہے 
مگر باغ کب کا پلاٹ بن کر بک چکا ہے‘ اور اب وہاں اینٹوں کا جنگل ہے۔ درخت خواب و خیال ہو گئے۔ کبھی یہاں حاجی بٹے کا باغ ہوتا تھا۔ اس کے بیٹے کا نام کریم بخش بھٹہ تھا۔ ان کے گھر ایک کچے ٹیلے پر تھے اور سامنے باغ تھا‘ جس میں امرود کے درخت ہوتے تھے۔ ایک دو بڑے بڑے دیسی آموں کے درخت۔ باغ کی دیوار کے ساتھ لسوڑے کا درخت تھا۔ جب بارش میں کبھی ''پوڑے‘‘ بنتے تھے تو دوہرے کئے ہوئے لسوڑے کے پتے کے ساتھ پتلا میدہ توے پر پھیلایا جاتا تھا۔ اس میں کیا سائنس تھی آج بھی سمجھ نہیں آئی۔ درمیان میں ایک قطعہ گھروں پر مشتمل تھا۔ ہمارا گھر‘ چچا رئوف کا گھر‘ تایا عزیر کا گھر ‘چچا غنی اور چچا بشیر کا گھر۔ ساتھ والی گلی میں چچا عاشق کا گھر۔ چاچاغلام محمد کا گھر‘ محمد دین پٹواری کا گھر اور اسی طرح اور بہت سے گھر۔ کچھ بوجہ رشتہ داری چچا تھے اور کچھ اعزازی چچا تھے۔ تب دو تین رشتے ہی ہوتے تھے۔ چاچا ‘چاچی اور ماسی۔
گھروں کے دوسری طرف نکلیں تو ایک اور کھلا میدان۔ کھیت اور ساتھ کنواں اور رہٹ۔ اس پر چلتا ہوا بیل ۔ آنکھوں پر چمڑے کے کھوپے باندھے مسلسل چلتا ہوا چتکبرا صحت مند بیل۔یہ ماسی حجانی کا کھوہ تھا۔ اوپر ٹیلے پر وسیع احاطے والا کچا گھر۔ تھوڑے فاصلے پر شہیدوں کی قبریں اور ساتھ گوندی کی جھاڑیں ۔ کھیت میں جوار اور مکئی لگتی تھی‘ جو چارے کے لیے استعمال ہوتی۔ کبھی برسین اور کبھی لوسرن اگتی تھی۔ جن دنوں جوار یا مکئی لگتی تھی تب ہم چھپن چھپائی کے لیے اونچائی فصل میں چھپتے تھے۔ ساتھ چا چا یاری کی دودھ دہی کی دکان۔ سامنے چچا ملنگ کی کریانے کی دکان۔ دوسری طرف چچا امیر علی اور فقیر علی کی دکان۔ یہ عجیب و غریب جوڑی تھی۔ امیر علی گورا چٹا دبلا پتلا‘ ہمہ وقت سفید شلوار قمیض میں ملبوس بالکل اسم بامسمیٰ۔ فقیر علی‘ سانولا رنگ‘ چیچک زدہ چہرہ اور پرانی سی دھوتی اور سلوکے میں ملبوس ۔ سلوکا بنیان نما بغیر بازو کی واسکٹ نما چیز جس میں آٹھ دس جیبیں اوپر‘ نیچے اندر باہر بنی ہوتی تھیں۔ دونوں شاید رشتہ دار تھے‘ یا دوست ۔ بہرحال بھائی نہیں تھے۔ درمیان میں غلام رسول چھولے والے کا پھٹہ۔ صبح سویرے دال مونگ اور شام کو ڈولی روٹی۔کیا عجب کلچر تھا۔ سرائیکی گھروں سے صبح صبح کوئی بچہ چھابہ (تنکوں کی چنگیر) لے کر آتا اور کہتا: چا چا گاماں ! آنے آنے والے (تب روپے میں سولہ آنے ہوتے تھے اور ہر آنے کی اپنی اہمیت ہوتی تھی) پانچ دال مونگ دینا۔ ایک میرا‘ ایک ابے کا ‘ ایک اماں کا‘ ایک بھائی کا(نام بتا کر) اور ایک بہن کا(اس کا بھی نام لیا جاتا)۔ چاچا گاماں ساتھ رکھے ہوئے لسوڑے کے پتے کواٹھاتا۔ اپنے زانوں پر رکھے ہوئے میلے کپڑے سے اس پتے کو بزعم خود صاف کرتا اور اس پر ایک ڈوئی بھر کردال مونگ کی ڈالتا اوربچے کے چھابے میں رکھ دیتا۔ اسی طرح پانچ پتوں پر پانچ جگہ دال مونگ ڈالی جاتی۔ پنجابی گھروں سے ایک ڈونگہ یا بڑا پیالہ آتا اور اس میں اکٹھے چار آنے یا آٹھ آنے کے چھولے یا دال مونگ ڈلوائی جاتی۔ ہدایت اللہ ٹھیکیدار کے گھر کے سامنے چا چا غلام رسول عرف چا چا سولی کی دکان تھی اور اس دکان کے ساتھ ہی ایک کمرے کا اس کا گھر تھا۔ اولاد نہیں تھی۔ بس اس کی بیوی تھی‘ جس کا ایک ہاتھ کہنی سے آگے کٹا ہوا تھا۔ خدا جانے کسی ایکسیڈنٹ میں کٹا یا بچپن سے ہی ایسا تھا‘ کچھ پتہ نہ تھا۔ چاچا سولی بڑا سخت مزاج تھا۔ سب بچے اس سے ڈرتے تھے۔ سیاسی گفتگو کا شوقین اور اخبار کا رسیا۔ کبھی نماز پڑھتے کم از کم ہم نے تو نہیں دیکھا تھا مگر عاشق رسول ایسا کہ خدا کی پناہ‘ سید عطا اللہ شاہ بخاری کا فدائی۔ تحریک نظام مصطفی میں پیش پیش ۔ مرنے کے بعد اپنا مکان اور دکان ختم نبوت والوں کے نام وصیت کر گیا۔ چچا شیر محمد دکاندار اور جلال دود ھ دہی والا۔ سب عجیب و غریب لوگ تھے۔ دکاندار کم اور رشتے دار زیادہ لگتے تھے۔
سارا محلہ ایک دوسرے کو جانتا تھا۔ غمی خوشی تو مشترک تھی ہی‘ روز مرہ کی زندگی بھی ایک دوسرے کے ساتھ الجھی ہوئی ڈور کی مانند گندھی ہوئی تھی۔ ساری عورتیں کانا پردہ کرتی تھیں۔ گلی کو پار کرنے کے لیے چادر سے ایک طرف سے منہ کو چھپاتی تھی تو دوسری طرف بالکل کھلی ہوتی تھی۔ ایک طرف کے مردوں سے مکمل پردہ ہوتا اور دوسری طرف سے لاپروائی۔ پردہ ہو بھی رہا ہے اور نہیں بھی۔ دروازوں کے باہر کوئی کال بیل نہیں تھی۔ سب دروازے کھلے ملتے تھے۔ بڑے کنڈا کھٹکھٹاتے تھے اور بچے بلا دھڑک پٹ کھول کر اندر چلے جاتے تھے۔ اب حالت یہ ہے کہ برسوں ہو جاتے ہیں ایک ہی شہر میں ہونے کے باوجود غریب آباد جانا نہیں ہوتا۔ جاننے والے بزرگ رخصت ہو گئے۔ ہم عمر اب ادھیڑ عمری کی منزلیں طے کر رہے ہیں۔ جب کبھی جانا ہوتا ہے‘ گاڑی کھڑی کر کے گلی میں سے گزرتے گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ ہر چار قدم بعد ایک سٹاپ۔ پچھلے دنوں میرا بیٹا بڑے عرصے بعد میرے ساتھ چوک شہیداں گیا۔ اس کے لیے یہ ایک ناقابل تصور اور حیران کن تجربہ تھا۔
وہ گرینڈ ریپڈز آئے تو شاید اسے کچھ بھی عجیب نہ لگے۔ ہزاروں میل دور ‘ نئے ملک اور نئی تہذیب میں اس کے لیے اتنی حیرانی پوشیدہ نہیں جتنی اس کے گھر سے چند میل دور چوک شہیداں میں چھپی ہوئی تھی۔ مجھے اس روز شرمندگی ہوئی کہ وہ اس خوبصورت تحیر سے اتنا عرصہ محروم کیسے رہا؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved