تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     02-03-2015

سینٹ کے انتخابات:ایک کیس سٹڈی

سب ہی سینٹ میںلوٹ آئے ،ظفر علی شاہ صاحب کے سوا۔یہ فیصلہ اراکینِ اسمبلی نے نہیں، اُن کی سیاسی جماعت نے کیا ہے۔سیاسی جماعتوں کا تونام ہی ہے، دراصل یہ چند افراد ہیں جو فیصلے کرتے ہیں۔ جماعتیں تو ان کی خادم ہیں۔ اسمبلیوں کے اراکین اپنے مفادات کا تحفظ کریں تو بدترین القاب سے نوازے جائیں۔سیاسی جماعتوں کی قیادت اگر اپنے مفادات کو مرکز بنائے تو معصوم۔کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟
اس سیاسی کلچر کو سمجھنے کے لیے ،ظفر علی شاہ صاحب کو 'کیس سٹڈی‘ بنا نا چاہیے۔شاہ صاحب کی سیاست ایک کھلی کتاب ہے۔صاف ستھری،ہر مالی اور اخلاقی سکینڈل سے پاک۔ جرأت جیسی نایاب خوبی اپنی جگہ جس کا مظاہرہ انہوں نے مشرف عہد میں کیا۔جب ن لیگ اسلام آباد میں کہیں جلسہ کرنے پر قادر نہیںتھی تو اُن کے گھر کا صحن جلسہ گاہ بن گیا۔میں ایک ہی بار ان کے گھر گیا۔یہ وہی دن تھے اور موقع بھی ایک جلسے کا تھا۔جماعت کے اندر وہ حریتِ فکر کے علم بردارہیں۔انہیںمنصب سے محرومی یا قیادت کی ناراضی جیسا کوئی خوف دامن گیر نہیں ہوتاجب وہ اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔اس سیاسی اثاثے کی کیاقیمت لگی؟سینٹ کی نشست سے محرومی۔سوال یہ ہے کہ جب ان اوصاف کی ناقدری ہو تو پھر کون سا اثاثہ قابلِ قدر رہتا ہے؟ پیسہ اور مفاداتی وابستگی؟اگر سینٹ کے انتخابات میں یہی سکہ رائج الوقت ہے تو واویلا کس بات کا؟ بائیسویں ترمیم کیوں؟
اس طرح کے کیس اور بھی مل جائیں گے اگر کوئی انہیں مطالعے کا موضوع بنا نا چاہے۔ ایسے چہرے بھی ہیں جو مشرف صاحب کے قریب تھے۔ پھر عمران خان کی قربتوں کے لیے بے تاب رہے۔ جب دروازہ نہیں کھلا تو ن لیگ کی حکومت میں اہم مناصب پر فائز ہو گئے۔یہ صرف ایک جماعت کی کہانی نہیں ہے۔فوزیہ قصوری کو دیکھ لیجیے۔ تحریکِ انصاف میں ایک عمر گنوادی۔نیک نامی،ایثار اور اخلاص ان کا سیاسی اثاثہ ہیں۔آج وعدوں کی گٹھڑی سر پر اٹھائے ہوئے ہیں جو عمران خان اور پارٹی نے کیے۔ پہلے قومی اسمبلی سے دور رکھا گیا۔اب سینٹ کے انتخابات آئے تو ان کا نام کسی فہرست میں نہیںتھا۔فیصلے ان کے حق میں ہوئے جن کے پاس پیسہ ہے۔رکھ رکھاؤ والی ہیں۔ سرِعام پارٹی قیادت کے خلاف بات نہیں کرتیں۔آج دوستوں اور اپنے آپ سے سوال کرتی ہیں: میں کہاں جائوں؟اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ دوست صرف دلاسہ دے سکتے ہیں۔
بارِ دگر عرض ہے کہ سماج میں جزیرے نہیں بنتے۔جمہوریت صرف ووٹ دینے کا نام نہیں۔اگر برادری کلچر اپنی جگہ مو جود ہے۔دھڑے کی سیاست غالب ہے۔قبیلے کی عصبیت برقرار ہے توپھر صرف ووٹ دینے سے جمہوریت نہیں آتی۔جمہوریت ایک کلچر کا نام ہے۔ووٹ دینا تو اس کا ایک مظہر ہے۔جمہوریت اختلاف رائے کو برداشت کرنے، متنازع امور میںاکثریت کی رائے کو فیصلہ کن ماننے،آزادی اظہار کو بطور قدر قبول کرنے اور انسانی حقوق کو بلا امتیازِ رنگ و مذہب تسلیم کرنے کا نام ہے۔اسی طرح اگر سیاسی جماعتیں اپنے داخلی نظام میں اخلاقی قدروں کو نظر انداز کریں گی۔ شخصی اوصاف پر روپے پیسے کو ترجیح دیں گی۔ خاندانی آ مریت قائم کریں گی۔میرٹ کو نظر انداز کریں گی تو یہ ممکن نہیں کہ وہ سینٹ وغیرہ کے انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کو روک پائیں۔سیاسی ماحول کی تشکیل میں سیاسی جماعتوں کا کردار بنیادی ہے۔پارلیمان جیسے سیاسی ادارے اُس کلچر کاپرتو ہیں، جو سیاسی جماعتوں کے داخلی نظام میں غالب ہے۔ 
ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے لیے یہ بات قابلِ غورہونی چاہیے کہ لوگ تحریک انصاف یا جماعت اسلامی جیسی جماعتوں کی بات کرتے وقت، اخلاقیات کو زیر ِ بحث لاتے ہیں لیکن جب بات ان جماعتوں کی ہوتی ہے تو کوئی اخلاقیات کا سوال نہیں اٹھاتا۔آخر کیوں؟ کیا لوگ ان سے اخلاقیات کے حوالے سے کوئی توقع نہیں رکھتے؟شریف خاندان کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ وہ ہماری سماجی اخلاقیات کا نمائندہ ہے۔ دیگر سیاست دانوں سے کہیں زیادہ۔ایک روایت سے وابستہ جس میں حفظِ مراتب بہت اہم ہے۔خاندان، رشتے اور ان کا احترام۔چھوٹے بڑے کی تمیز۔نمازروزے کی پابندی اور اس طرح کی بہت سی باتیں جو اس بات کاا علان ہیں کہ وہ سماجی اخلاقیات کے باب میں حساس ہیں۔ یہ سماجی اخلاقیات، سیاسی اخلاقیات میں نہیں ڈھل سکیں۔ اس کا ظہور ن لیگ کی سیاست میں نہیں ہوا۔کم از کم تاثر یہی ہے۔یہی معاملہ پیپلزپارٹی کا بھی ہے۔ یہی سبب ہے کہ ان بڑی جماعتوں کی سیاست پر گفتگوکرتے وقت اخلاقیات کی بات نہیں ہوتی۔ میرا خیال ہے کہ اس کے اسباب پر ان جماعتوں کی قیادت کو ضرور غور کرنا چاہیے۔
اس کا ایک سبب تو واضح ہے۔سیاست اور اخلاقیات کا باہمی تعلق تاریخی طور پر ثابت نہیں ہے۔ہم اگربعض جماعتوں کا اخلاقیات کے حوالے سے ذکر کرتے ہیں،تو اس کا سبب یہ ہے کہ وہ اخلاقی برتری کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اگر ان کی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو ان کی سیاست کا اخلاقیات سے عملی تعلق اتنا ہی ہے جتنا ن لیگ اور پیپلزپارٹی کا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اخلاقیات کے بارے میں حساس رہ کر کوئی بڑی سیاسی کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ تحریکِ انصاف نے اس حقیقت کو جانا تو اس پر کامیابی کا دروازہ کھلا۔ جماعت اسلامی کو بھی اُس حد تک ہی سیاسی کامیابی ملی جس حد تک اُس نے اخلاقیات کے معاملے میں مصالحت کا رویہ اپنایا۔ اس سیاسی حقیقت کو اگر کوئی سب سے زیادہ سمجھتا ہے تو وہ مولانا فضل الرحمن ہیں۔ ان کی سیاسی کامیابیاں اسی ادراک ہی کی مرہونِ منت ہیں۔ اس اعتراف کے ساتھ،ہمارے لیے یہ ممکن نہیں کہ ہم اخلاقیات اور سیاست کے تعلق کو موضوع نہ بنائیں۔ سیاست اسی وقت اخلاقیات کے معاملے میں حساس ہوگی جب سماج میں اخلاقی قدار مستحکم ہوں گی۔ پوری طرح نہ سہی،اس سے ایک حد تک ممکن ہو تا ہے کہ لوگ سیاست میں اخلاقیات کو اہمیت دینے لگیں۔ اس کے لیے لازم ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اخلاقیات کے باب میں متنبہ کیا جاتا رہے۔ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو اس بارے میں تشویش ہونی چاہیے کہ لوگ ان کو اخلاقی پیمانے پر پرکھنا غیر ضروری کیوں سمجھتے ہیں۔
سینٹ کے انتخابات ہمارے سیاسی کلچر کا آئینہ ہیں۔اس میں اصلاح کسی قانون کے آنے یا کسی آئینی ترمیم کے لانے سے نہیں ہوگی۔اگر سیاسی جماعتوں میں منصب اورعہدے کے لیے پیسہ بنیادی کردار ادا کرے گا تو یہ نہیں ہو سکتا کہ سینٹ کے انتخابات میں پیسے کا کوئی کردار نہ ہو۔اگر سیاسی جماعتوں میں سکینڈل سے پاک افراد کی قدر افزائی نہیں ہوگی تو یہ ممکن نہیں کہ پارلیمنٹ جیسے اداروں کے اراکین سکینڈلز سے پاک ہوں۔جو غلطی نفاذِ شریعت کے باب میں مذہبی جماعتوں نے کی‘ وہی غلطی سیاسی کلچر کی اصلاح کے لیے سیاسی جماعتیں دُہرا رہی ہیں۔ ہر خرابی کا علاج نیا قانون۔ جس طرح محض اسلامی قانون منظور کر لینے سے سماج اسلامی نہیں بن سکا، اسی طرح آئینی ترمیموں سے بھی سیاست کو کرپشن سے پاک نہیں کیا جا سکتا۔بر طانیہ میں سرے سے کوئی تحریری آئین مو جود نہیں۔ سوچنا چاہیے کہ اس کے باوصف، سیاسی کلچران خرابیوں سے پاک کیوں ہے ہمیں آج جن کا سامناہے۔پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا جہاںضرورت سے زیادہ قوانین مو جود ہیں۔ہمیں قانون کی نہیں سیاسی کلچر میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
یہ تبدیلی کیسے آئے گی۔ میرا خیال ہے کہ اس کے لیے ظفر علی شاہ صاحب کو 'کیس سٹڈی‘ بنا نا چاہیے۔ سب لوٹ آئے، سوائے شاہ صاحب۔یہ چند اخلاقی اوصاف کی ناقدری کا اعلان ہے۔کیا سینٹ کے انتخابات کا میلہ یہی کمبل چرانے کے لیے منعقد کیا جا رہا ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved