تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     02-03-2015

’’نیلی نیند کے سپنے‘‘… عصمت حنیف کی نظمیں

اگرچہ میں سمجھتا ہوں کہ نظم اور خاص طور پر نثری نظم مستقبل کی شاعری ہے یا شاعری کا مستقبل۔ لیکن غزل اپنی جگہ چھوڑتی نظر نہیں آتی جس کی وجہ غالباً اس کا اختصار و ایجاز ہی ہے کہ یہ دو مصرعوں ہی میں اپنا طلسم قائم کر دیتی ہے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ آج کے قاری کے پاس شاعری کو دینے کے لیے کچھ زیادہ وقت بھی نہیں بچتا اور اختصار ہی اس کی ترجیح کی بھی حیثیت رکھتا ہے۔ اگرچہ نظم اور غزل دونوں کے الگ الگ مسائل ہیں اور جہاں تک نظم کا تعلق ہے تو پچاس مصرعوں والی بات دس مصرعوں میں بھی کہی جا سکتی ہے اور نظم گو اس پر قادر بھی ہوتا ہے چنانچہ مثلاً پانچ سات مصرعوں پر مشتمل نظم قاری کو اپنی طرف زیادہ راغب کرتی نظر آتی ہے۔ 
میرے سمیت ایک غزل اوریئنٹڈ قاری کا نظم سے تقاضا یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ تازگی‘ تاثیر اور لطفِ سخن بھی ارزانی کرے‘ اگرچہ نظم کو غزل کی طرح نہیں پڑھا جاتا۔ میں یہ بات پہلے بھی کہیں لکھ چکا ہوں کہ غزل کو اگر دل سے پڑھنا ہوتا ہے تو نظم کے مطالعہ کے لیے دل اور دماغ دونوں ہی کام میں لانا پڑتے ہیں۔ پھر‘ جہاں غزل کا کسی دوسری زبان میں ترجمہ کرنا مشکل ہے وہاں نظم کا ترجمہ آپ نسبتاً آسانی سے کر سکتے ہیں‘ شاید اسی لیے پاکستان‘ بھارت اور ایران کے علاوہ غزل کا کہیں نشان نہیں ملتا بلکہ مغربی ممالک تو اس سے یکسر ناواقف ہیں؛ تاہم یہ بات خوش آئند ہے کہ اب صرف نظموں کے مجموعے بھی آنے لگے ہیں جبکہ پہلے بالعموم نظموں کے ہمراہ غزلیں بھی ٹانک دی جاتی تھیں۔ 
عصمت حنیف کا مجموعہ ''نیلی نیند کے سپنے‘‘ صرف اور صرف نظموں پر مشتمل ہے۔ اس کے فلیپ لکھنے والوں میں محمد اظہار الحق‘ نصیر احمد ناصر اور وحید احمد شامل ہیں۔ محمد اظہار الحق اگرچہ نظم بھی لکھتے ہیں لیکن ان کی اصل پہچان غزل ہے۔ نصیر احمد ناصر کا کام بھی ملا جلا ہے البتہ وحید احمد خالص نظم کے آدمی ہیں جبکہ دیباچہ نگار ضیا المصطفیٰ ترک کی ابھی تک غزلیں ہی نظر سے گزری ہیں جن کی تحسین میں کہیں پہلے کر چکا ہوں۔ ان جغادری شعراء نے کتاب کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے اس کے بعد کسی اور تبصرے یا رائے کی گنجائش نہیں رہتی۔ کیونکہ میرؔ کی طرح ان کا فرمایا ہوا بھی مستند ہے؛ تاہم میری رائے ہمیشہ ایک قاری کی رائے ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ قاری کی اپنی
مشکلات و مسائل بھی اپنی جگہ پر موجود ہوتے ہیں۔ اور‘ میں اپنی رائے کو بوجوہ مستند بھی نہیں سمجھتا۔ 
نصیر احمد ناصر اپنے فلیپ میں لکھتے ہیں کہ یہ ای میل‘ آئی ڈی‘ آئی کان نیٹ ورک اور گاڈ پارٹیکل کا زمانہ ہے جس میں جذبے بھی پاس ورڈ کے محتاج ہو کر رہ گئے ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے ہمارے شاعروں کو قراطیس کی بجائے سکرین کی ضرورت زیادہ ہے۔ محمد اظہار الحق رقم طراز ہیں کہ وقت کو اس نے قاشوں میں کاٹ کر اپنی پلیٹ میں رکھ لیا ہے اور کائنات کے اسرار پر جس قدر غور کرتا ہے‘ رموز مٹھی میں چلے آتے ہیں‘ پھر اس ازلی موضوع کو وہ کمال چابکدستی سے کمپیوٹر کی پوشاک پہناتا ہے۔ وہ لمحوں کے بھاگتے گھوڑے پر سوار ہو کر ''کرسر‘‘ کو پولو کی گیند کی طرح ''ڈیلیٹ‘‘ اور ''شفٹ‘‘ سے نکالتا‘ ان دیکھے فولڈروں کے جہان میں روپوش ہو جاتا ہے اور جب طویل مسافت طے کر کے لوٹتا ہے تو نم آنکھوں سے ہمیں بتاتا ہے کہ خواب ای میل نہیں ہو سکتے!! نہیں معلوم ہم میں سے کتنے God particle سے اور Higgs boson سے آشنا ہیں لیکن عصمت حنیف نے جس قدرتِ کلام سے اور نرم آہنگ سے اس پیچیدہ موضوع کو شاعری میں سمویا ہے اس کی وسعتِ ذہن کی بھی داد دینا پڑتی ہے اور اس کی حرف آشنائی پر بھی منہ سے شاباش نکلتی ہے۔ سو‘ اس کتاب سے پوری طرح لطف اندوز ہونے کے لیے ضروری ہے کہ قاری کمپیوٹر کے جملہ اسرار و رموز سے مکمل طور پر واقف ہو اور ہمیں امید کرنی چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ قارئین یہ جانکاری حاصل کرنے میں جلد از جلد کامیاب ہو جائیں گے۔ اگرچہ ان میں کوئی آئوٹ سٹینڈنگ نظم نہیں ہے جس کا بطور خاص حوالہ دیا جا سکے؛ تاہم یقینا یہ اچھی نظمیں ہیں‘ اپنے اشکال کے باوجود۔ لیکن کیا شاعری کا محض اچھا ہونا ہی کافی ہے؟ جبکہ میرے نزدیک اچھی شاعری بری شاعری ہوتی ہے اور اچھا شاعر ایک بُرا شاعر‘ جبکہ شاعری کو غیر معمولی اور زبردست ہونا چاہیے اور شاعر کو یگانہ و یکتا۔ 
یہ کتاب مثال پبلشرز فیصل آباد نے چھاپی ہے اور قیمت 200 روپے رکھی ہے۔ ان کی یہ خوبصورت نظم دیکھیے جو آپ کمپیوٹر کی مدد کے بغیر بھی پڑھ سکتے ہیں: 
عرصۂ ہجر میں 
کیسی وارفتگی ہے... کہ جو سینچتی ہے مجھے سربسر... اور میں بھرتا چلا جا رہا ہوں... اذیت بھرے چین سے... کیسا راحت بھرا درد ہے... ہُر بنِ مُو میں ٹھہرا ہوا... کیسی ناگفتنی ہے... جو اندر ہی اندر... اترتی چلی جا رہی ہے... بدن کے مکاں میں... کہیں گونجتی ہے... یہاں آسمانوں تلے... ایک ہی دکھ پنپتا چلا آ رہا ہے ازل سے... کبھی ختم ہونے میں آتا نہیں۔ جس کے ٹین پر... تیز بارش کی بوندیں گری تھیں کبھی... اور میں اب تک... اسی شور میں بھیگتا ہوں۔ 
آج کا مقطع 
میں ایک قطرے کو دریا بنا رہا ہوں‘ ظفر 
اور اس کے بعد اسے میں نے پار کرنا ہے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved