تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     02-03-2015

ہارس ٹریڈنگ

محسن لغاری 2008ء کے عام انتخابات میں ق لیگ کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے رکن تھے۔ جب ان کی جماعت ٹکڑے ٹکڑے ہوکر ادھر ادھر گر رہی تھی تو اس وقت بھی انہوں نے گوارا نہیں کیا کہ کسی ٹکڑے کے ساتھ مل کر پنجاب حکومت کا غیراعلانیہ حصہ ہوجائیں اور آئندہ کے لیے ن لیگ کا ٹکٹ پکا کرلیں۔ ان کے اسی کردار کی وجہ سے پنجاب اسمبلی کا ہر رکن ان کا احترام کرتا اور ان سے دوستی کا خواہا ں رہتا۔2012ء میں جب سینیٹ کے انتخابات کا اعلان ہوا تو محسن لغاری نے سیاسی جماعتوں کے راہنماؤں کی ٹکٹ نوازیوں پر احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ سیاسی جماعتوں کو سینیٹ کا ٹکٹ دیتے ہوئے اپنے اراکین ِ صوبائی اسمبلی سے بامعنی مشاورت کرنی چاہیے۔ انہوں نے اسمبلی کی راہداریوں میں، ایم پی اے ہاسٹل میںاور لوگوں کے گھروں میں جا جا کر انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ سینیٹ کے انتخابات میں ٹکٹ بانٹنے کا اختیار صرف سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کا نہیں ہے۔ ایک دن محسن لغاری نے حامد ناصر چٹھہ کو اسمبلی کی سیڑھیاں چڑھتے دیکھا تو ان کے پاس گئے اور اسی موضوع پر گفتگو شروع کردی ۔ محسن لغاری اپنے دلائل ختم کرکے پُرجوش انداز میں بولے ، ''چٹھہ صاحب ، میرا خیال ہے کہ پنجاب اسمبلی کے کسی رکن کو بطور آزاد امیدوار سینیٹ کا الیکشن لڑنا چاہیے‘‘۔ چٹھہ صاحب کا جواب تھا ، ''پھر ہمت کرو اور جمع کرادو کاغذات‘‘۔ اب لغاری صاحب خاموش ہوگئے تو چٹھہ صاحب ہنس پڑے۔ پوچھا ـ'بس اتنی ہی تھی تمہاری جدوجہد؟‘‘۔ ''چچا جان ، میرے پاس تو کاغذات نامزدگی پر دستخط کرنے کے لیے کوئی تجویز کنندہ اور تائید کنندہ بھی نہیں، میں نے الیکشن کیا لڑنا ہے‘‘، محسن نے سر جھکا کر کہا۔ اسمبلی کی سیڑھیوں پر کھڑے کھڑے حامد ناصر چٹھہ نے ان کے تجویز کنند ہ ہونے کی ہامی بھری اور کہا ، ''جاؤ اپنا تائید کنندہ تلاش کرو‘‘۔ وہ آزاد امیدوار کے طور پر سینیٹ کا الیکشن لڑنے پر تیار ہوگئے۔ 
محسن لغاری ڈیرہ غازی خان کے ایک متوسط درجے کے زمیندار ہیں۔ کھانا پینا ٹھیک ٹھاک لیکن اتنا پیسہ نہیں کہ اندھا دھند لٹایا جاسکے، ویسے بھی انہیں جاننے والے یہ گواہی دے سکتے ہیں کہ اگر ایک ووٹ کی قیمت ایک روپیہ بھی ہوتو وہ پھر بھی خریداری کے لیے نہیں مانیں گے۔ اس لیے یہ تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی شخص ان سے اپنے ووٹ کے عوض پیسے لے سکے۔ خیر محسن کی الیکشن مہم اس طرح چلی کہ ان سے چار افراد نے تائید کنندہ ہونے کاوعدہ کیا۔ جب وعدہ نبھانے کا وقت آیا تو چاروں معزز اراکین صوبائی اسمبلی نے ان کا فون اٹھانا چھوڑ دیااور گھر گئے تو اندر سے کہلوادیا کہ موجود نہیں۔ آخرکار اسمبلی کے ایک دوسرے رکن نے ان کے کاغذات پر تائید کنندہ کی حیثیت سے دستخط کیے اور امیدواروں کی فہرست میں ان کا باقاعدہ اندراج ہوگیا۔ الیکشن مہم کا دوسرا مرحلہ پہلے کی نسبت آسان ثابت ہوا۔ اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ممبرانِ صوبائی اسمبلی نے محسن سے ووٹ کا وعدہ کرلیا اور جب الیکشن کا دن آیا، ان سب نے اپنا کہا کرکے دکھایا۔ محسن لغاری سینیٹر بن گئے۔ ان کی جیت دراصل پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کے آمرانہ رویوں کی شکست تھی جو اپنی مقبولیت کے زعم میں معقول بات کہنے والے اور صائب رائے دینے والے کو راندہ ٔدرگاہ قرار دینے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگاتے۔تین سال پہلے محسن لغاری کاسینیٹ کا انتخاب جیت لینا زعمِ 
مقبولیت میں لت پت سیاسی قیادت کے خلاف پہلا با معنی احتجاج تھا، جس سے کسی نے کچھ نہیں سیکھا۔ حتٰی کہ پاکستان تحریک انصاف بھی جب مقبول ہوکر باقاعدہ سیاسی جماعت کی شکل اختیار کرگئی تو اس میں بھی وہی رجحانات در آئے جن کی وجہ سے مسلم لیگ ن بدنام ہے یعنی منتخب ہونے والوں کو اہمیت نہ دینا، مشورے سے گریز اور اختیارات کا ارتکاز۔محسن لغاری کی کامیابی کے بعد صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کو اگلا موقع اب ملا ہے۔ اب پھر سینیٹ کے انتخابات درپیش ہیں اورتحریک انصاف کو خیبر پختوا میں اپنے اراکین صوبائی اسمبلی کی بغاوت کا سامنا ہے جبکہ مسلم لیگ ن کو بلوچستان میں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ دونوں جماعتیں سینیٹ کے لیے ٹکٹ جاری کرنے سے پہلے اپنے منتخب لوگوں کو اعتماد میں لے لیتیں لیکن ان لیڈروں کا کیا کیا جائے جو مشاورت کے تقاضے کو اپنے خلاف بغاوت سمجھ بیٹھتے ہیں اور ٹکٹ دینے کے فیصلے میں مشاورت کو بھی اپنی توہین خیال کرتے ہیں۔
اپنی اپنی جماعتوں کے اندر ذرا سی مزاحمت پرہمارے ان دونوں قابل صد احترام رہنماؤں یعنی نواز شریف اور عمران خان کی فکری یکسانیت ملاحظہ فرمائیں کہ انہوں نے اپنے ہی منتخب نمائندوں پر ضمیر فروشی کی تہمت رکھ دی، یعنی اگر ایک ایم پی اے ان صاحبان کی مرضی سے اندھا دھند ووٹ دے تو وہ 'صاحب کردار‘ ہے اور دستور کے تحت اپنی صوابدید کے مطابق ووٹ دے تو وہ ایمان فروش ہے۔ رکنِ اسمبلی تو اپنا ووٹ ڈالنے کی توجیہات پیش کرے لیکن پارٹی کے سربراہ سے کوئی نہ پوچھے کہ اس نے کس معیار کے مطابق سینیٹ کے ٹکٹ دیے ہیں۔ خیبر پختونخوا سے ثمینہ عابد کو سینیٹر بنوانے کی کوشش پر عمران خان تو انصاف کی اعلیٰ مثال کہلائیں اور ان کی مزاحمت کرنے والے منفی سیاست کے رسیا ! نواز شریف کلثوم پروین کو بلوچستان سے منتخب کرانے کا حکم دیں تو انہیں داد دی جائے لیکن کوئی ان سے اس فیصلے کی وجہ پوچھے تو لعنت ملامت کا ہدف ٹھہرے۔ یہ پاکستان کی قوت برداشت کا امتحان نہیں تو اور کیا ہے کہ وہ خان صاحب جو حکومت کے خلاف آگ اگلنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ، اراکین اسمبلی کی مشکیں کسنے کے لیے آئینی ترمیم لانے کی کوششوں میں وزیراعظم نواز شریف اور متحدہ قومی موومنٹ کی بانہوں میں بانہیں ڈالے دوسری پارٹیوں کو قائل کرنے کی کوشش کریں ؟ بھلا ہو مولانا فضل الرحمن کا جنہوں نے آل پارٹیزکانفرنس میں اس ترمیم کو توہین آمیز قرار دے کرمسترد کیا اور پیپلزپارٹی نے بھی ان کا ساتھ دیا ورنہ یہ صاحبان تو پاکستان میں جمہوریت کے نام پر اپنی اپنی ذاتی حکومتیں قائم کرچلے تھے۔اس ملک کی بدقسمتی پر ماتم کیجیے کہ اپنی مرضی کو جمہوریت قرار دینے والے ان دونوں حضرات کو دستور میں من مانی ترمیم کرتے ہوئے یہ خیال تونہیں آیا کہ اس میں آرٹیکل ایک سو چالیس الف بھی ہے جس کے تحت بلدیاتی ادارے قائم ہونے ہیں اور اس میں آرٹیکل 251بھی ہے جس کے تحت اردو پاکستان کی واحد سرکاری زبان ہونی ہے ، مگر یہ یاد آگیا کہ دستور ان کے من چاہے لوگوں کو سینیٹ میں پہنچانے میں مدد نہیں کرتا اس لیے اس میں تبدیلی ناگزیر ہے۔ 
پاکستانی دستور میں سینیٹ کا کردار یہ ہے کہ اس ادارے میں بیٹھنے والے حلقوں کی سیاست سے بالا تر ہوکر وفاق کے نمائندے بن کر قانون سازی میں اپنا کردار ادا کریں گے لیکن بالواسطہ الیکشن کی وجہ سے یہ ادارہ عملاََ گروہی مفادات کے نرغے میں جا چکا ہے ۔ اگر ہماری سیاسی جماعتیں واقعی اس ادارے کو کوئی اہمیت دیتی ہیں تو پھر اس کے ارکان کا الیکشن متناسب نمائندگی کے نظام کے تحت براہ راست کردینا چاہیے۔ یعنی ہر پارٹی اپنے امیدواروں کی فہرست کے ساتھ میدان میں اترے اور حاصل کردہ ووٹوں کے تناسب سے اسے سینیٹ کی نشستیں مل جائیں۔ اس طرح سیاسی پارٹیوں کے پاس یہ موقع ہوگا کہ وہ ایسے دانشوروں کو سینیٹ میں لا سکیں جو حلقہ جاتی سیاست کے تانے بانے میں نہیں الجھنا چاہتے۔اس طریقۂ انتخاب سے سیاسی جماعتیں بھی اپنے لیڈروں کے اشارۂ ابرو پر رقص کرنے کی بجائے منظم صورت اختیار کرجائیں گی اور سینیٹ بھی قومی اسمبلی کی ٹکر کا ایک ادارہ بن کر ابھرے گا۔ وزیراعظم نواز شریف اور عمران خان کے پیشِ نظر واقعی ہارس ٹریڈنگ کا خاتمہ ہے تو پھر انہیں سینیٹ کے براہ راست الیکشن پر غور کرنا چاہیے ۔ اگر ان کا مقصد دستور میں ترمیم کرکے پارٹیوں میں اپنی آمریت کا قیام ہے تو اس کے لیے پیشگی معذرت۔ یہ دونوں پاکستان کے مقبول راہنما سہی لیکن انہیں کھل کھیلنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور ہاں صرف ان کے فرمان کے مطابق ہم اپنے منتخب نمائندوں کو چور اور ضمیر فروش بھی نہیں سمجھتے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved