آصف زرداری کے سیاسی اثاثے گنتی سے باہر تھے۔ اس لئے وہ معینہ مدت کے لئے وفاق اور سندھ کی حکومتیں چلاتے رہے۔ حالیہ انتخابات کے بعد‘ نوازشریف کو باری دینے کے شوق میں‘ انہوں نے اپنے آ پ کو پیپلزپارٹی اور سندھ تک محدود کر لیا۔ اب ان کی پوری سیاست نوازشریف کی خوشنودی اور مہربانیوں تک محدود ہے۔ بظاہر ان کے حامیوں نے‘ انہیں بہت چالاک اور ایک بڑے منصوبہ ساز کی حیثیت سے مشہور کر رکھا ہے۔ حقیقت میں انہوں نے ورثے میں پائی ہوئی سیاسی پارٹی کی بے پناہ عوامی طاقت کو‘برات میں پھینکے گئے روپوں کی طرح لٹایا ہے۔ مال مفت‘ دل بے رحم۔ سینٹ کے حالیہ انتخابات میں‘ ساری پارٹیاں اپنی اپنی بساط کے مطابق نشستیں حاصل کرنے میں مصروف تھیں، لیکن موجودہ پاکستانی سیاست کے سب سے زیادہ تیز‘ ذہین اور چالباز سیاستدان‘ مولانا فضل الرحمن کی نظریں کہیں اور تھیں۔ انہوں نے اپنی جماعت کی حیثیت سے بڑھ کر سینٹ کی نشستوں کی شست باندھ رکھی تھی۔ اپنے کھیل کا آغاز انہوں نے 21ویں آئینی ترمیم سے کیا، جس پر وہ اسلام کی آڑ میں اعتراض جمائے بیٹھے تھے اور فوج کی موجودگی میں کئے گئے یکجہتی کے وعدے سے مکرنے کے حق میں دلیلیں دے رہے تھے۔ مولانا کا سیاسی نشانہ یہ اعتراض ہرگز نہیں تھا۔ وہ کہیں پہ نگاہیں‘ کہیں پہ نشانہ کی مثل‘ ایک اور ہی دائو لگائے بیٹھے تھے۔ ان کی نظریں اقلیتوں اور ٹیکنوکریٹس کی ایک ایک نشست پر تھیں۔ وہ موقعے کے انتظار میں اپنا جال تیار کرنے میں مصروف تھے۔ کے پی کے میں عمران خان کی پارٹی‘ سینٹ کی چار یا پانچ نشستیں حاصل کرنے کے قابل تھی۔ مولانا نے سینٹ میں جانے کے امیدوارچند کھرب پتی سرمایہ داروں کو گھیر رکھا تھا اور دو دو چار چار کروڑ روپے میں اپنا ووٹ فروخت کرنے پر تیار‘تحریک انصاف کے ممبروں کو‘ اپنے دام الفت میں پھنسا لیا تھا۔ عمران خان نے اپنی پارٹی کے ممبروں کو بدکتے دیکھا‘ تو انہوں نے سیاسی اخلاقیات اور اصولوں کی بنا پر ایوان زیریںمیں سودے رکوانے کے لئے اخلاقی دبائو بڑھانے کی کوشش کی۔ نوازشریف سب سے زیادہ مسائل میں گھرے تھے۔ ان کے اصل سیاسی اثاثے پنجاب میں ہیں۔ انہیں بچانے اورسندھ‘ بلوچستان اور کے پی کے میں بازار کے بھائو لگا کرچند اور نشستیں خریدنے کے ارادے باندھ رہے تھے۔ جب عمران خان نے ضمیرفروشی کے خلاف آواز اٹھائی‘ تو یہ نوازشریف کو بھی اپنے فائدے میں نظر آئی۔ لہٰذا عمران اور نواز نے اتفاق کر لیا کہ اراکین اسمبلی کو ضمیرفروشی سے روکنے کے لئے‘ قانون کی دیواریں کھڑی کر دی جائیں۔ ان کا ایک آئینی ترمیم پر اتفاق ہو گیا۔ جس کے ذریعے ضمیرفروشی کو غیرقانونی قرار دے کر‘ اراکین اسمبلی کو فروخت ہونے سے روکا جائے۔ اخلاقی اعتبار سے یہ ایک درست فیصلہ تھا۔ بنیادی جمہوری حقوق کی سیاست کی آڑ میں ضمیرفروشی کے بازار کو کھلا رکھنا‘ مولانا کی ضرورت تھی۔ جب انہوں نے دیکھا کہ مجوزہ آئینی ترمیم کے حق میں بھرپور آوازیں آنے لگی ہیں‘ تو وہ فوراً اسلام کی املی ‘لے کر میدان میں کود پڑے اور نعرہ لگا دیا کہ 22ویں ترمیم اسلام اور جمہوریت کے منافی ہے۔ آصف زرداری کوجھانسہ دیا کہ ضمیرفروشی کا بازار بند کر کے‘ آپ اپنے راستے کیوں بند کر رہے ہیں؟ انہوں نے بہت سے بے چین مسلم لیگیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وقت آنے پر یہ سودا ‘ وہ اپنے لئے خرید سکتے ہیں۔ یہ راستہ بند نہ کریں۔ سندھ میں ایم کیو ایم کے بغیر‘ ایک مضبوط حکومت چلانے کے لئے پیپلزپارٹی کو آٹھ دس لوٹوں کی ہروقت ضرورت رہے گی۔ اس طرح زرداری صاحب نے بھی مولانا کی پڑیا پھانک لی۔ یوں ایک ایسے لیڈر نے‘ جس کی پارلیمانی سیاست میں‘ چند ممبروں سے زیادہ کی حیثیت نہیں‘ تمام لیڈروں کو اپنی بانسری کی دھن پر لگا لیا۔
وقت آ گیا تھا کہ وہ اندر ہی اندر بنے ہوئے جال کو‘ منظر عام پر لا کر دنیا کو دکھا دیتے کہ ساری پارلیمانی سیاست‘ ان کی جھولی میں آ چکی ہے۔ فتح کا جشن منانے کے لئے‘ انہوں نے آصف زرداری کو اپنے گھر کھانے پر مدعو کر لیا۔ صحافی حضرات تو مولویوں کی دعوتیں اڑاتے رہتے ہیں، لیکن سیاستدان یا معزز شہری‘ ہمیشہ مولویوں کو کھانے کھلاتے ہیں۔ جس دن مولوی نے‘ اپنے گھر دعوت دے کر‘ مہمانوں کو پرتعیش کھانے کھلا دیئے‘ تو سمجھ لیں کہ قیامت قریب ہے۔مولانا کا دعوتی سازوسامان ٹیلیویژن پر دیکھ کر میں تواسی وقت سے استغفار پڑھتے ہوئے‘ توبہ کر رہا ہوں۔قیامت کی بہت سی نشانیاں دیکھی ہیں، مگر اس سے زیادہ بڑی نشانی دیکھنے سے محفوظ رہا ہوں۔ جس جمہوری نظام نے ‘مولوی صاحب کو دوسروں کی دعوت کرنے پر مجبور کر دیا‘ سمجھ لیں کہ اس کے برے دن آ گئے۔ پرانے سیاستدان حیلے بہانوں سے بلاوجہ مولویوں کی دعوتوں سے بچ کر نہیں رہتے تھے۔ مجھے ایک بھی مثال یاد نہیں کہ بھٹو صاحب‘ بی بی‘ نوازشریف یا کسی دوسرے بڑے سیاستدان نے ‘ مولوی کا کھانا کھایا ہو اور وہ بھی اتنے بڑے اہتمام کے ساتھ۔کھانا تو زرداری صاحب نے کھالیا، بھگتنا پوری جمہوریت کو پڑے گا۔
جو لوگ‘ مولانا کا شاہی دسترخوان ٹی وی پر دیکھ کر ابھی تک حیرت زدہ ہیں‘ انہیں مشکل سے نکالنے کی خاطر بتا دیتا ہوں کہ اس وقت مولانا کی انتظارگاہوں میں‘ ایک درجن سے زیادہ کھرب پتی ‘ سینٹ میں جانے کی امید میں خزانوں کے منہ کھولے بیٹھے ہیں۔ وہ اپنی سیاسی طاقت کے بل بوتے پر سینٹ میں زیادہ سے زیادہ دو نشستیں حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن ان کی نظرآٹھ نشستوں پر ہے۔ دو سندھ سے‘ دو بلوچستان سے ‘ دو پختونخوا سے اور دومخصوص نشستیں۔ ایک اقلیتوں کی اور ایک ٹیکنوکریٹ کی۔اس وقت بکنگ آفس ملائشیا اور دبئی میں کھلے ہیں۔ لین دین بھی وہیں ہو گا۔ پاکستان میں کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہو گی۔ جب سے یہ تفصیلات میرے علم میں آئی ہیں‘ زورزور سے کف افسوس مل رہا ہوں کہ ہم نے مولانا کو ملک کا وزیراعظم بنا لیا ہوتا‘ تو آج اس حال کو نہ پہنچتے۔جس طرح سارے پاکستان کے سیاستدانوں کو انہوں نے اپنی دھن پر لگا رکھا ہے‘ وزیراعظم کی حیثیت میں وہ تمام بڑی طاقتوں کو اپنی انگلیوں پر نچاتے۔ جتنا سرمایہ‘ سیاستدان بطور قرض لے کر‘ ہمارا مستقبل گروی رکھتے چلے آ رہے ہیں، مولانا اس سے زیادہ نذرنیاز میں وصول کرتے۔ ان سے خوشامدیں بھی کراتے۔ انہیں ڈانٹ ڈپٹ بھی کرتے اور مال بھی بٹورتے۔ کاش! عوام کوآج بھی عقل آ جائے اور وہ مولانا فضل الرحمن کی حقیقی سیاسی اور بین الاقوامی پالیسیوں کو سمجھ کر‘ انہیں اپنا قائد تسلیم کر لیں۔
ملکی سیاست کی جو صورتحال ہمیں آج دکھائی دے رہی ہے‘ اس میں تو عمران خان اپنی سیاست کے اس موڑ پر آ چکے ہیں‘ جہاں ان کے لئے راوی‘ اب چین ہی چین لکھتا ہے۔ آصف زرداری کے مطابق ‘ وہ اب اسمبلیوں میں واپس آنے کو بے چین ہیں۔ ان سے زیادہ یہ بے چینی جہانگیرترین اور شاہ محمود قریشی میںہے اور اب جو نئے نئے لوگ تحریک انصاف میں شامل ہونے کے لئے ایک دوسرے کو دھکے دے کر آگے بڑھ رہے ہیں‘ یہ وہ ہیں جنہیں ''زرداری نواز‘‘دربار میں جگہ نہیں ملی۔ ان کا اندازہ ہے کہ موجودہ حکمران ٹیم‘ عمران کی عوامی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے‘ انہیں اپنی کلب میں شامل کرے گی اور جو جگہ براہ راست انہیں زرداری اور نوازکلب میں نہیں ملی‘ عمران کے ساتھ رہ کے مل جائے گی۔عمران خان چاہیں‘ تو دھرنوں کی تھکن اتار کے‘ باقی زندگی آرام سے گزار سکتے ہیں۔اگر انہوں نے ''زرداری نواز‘‘ کو ہٹا کر خود آنا چاہا‘ تووہ اپنے سفر کو مزید لمبا کر لیں گے۔ عوام سے چھینا گیا حق اقتدار‘ واپس دلانے کے لئے انہیںاپنے ساتھیوں کو درباروں کی طرف دھکیل کر خود واپس عوام کی طرف آنا پڑے گا۔یہ طویل اور تکلیف دہ سفر کئے بغیرکوئی لیڈر‘ پاکستان اور یہاں کے عوام کے حالات نہیں بدل سکتا۔ حکمران آج جس صورتحال سے دوچار ہیں‘ اس میں انہیں عمران خان نے دھکیلا ہے۔ وہ چاہیں گے کہ عمران کو بھی ساتھ ملا کر اپنے انجام میں شریک کر لیں۔ مگر کیا عمران ایسا چاہیں گے؟ یہ فیصلہ انہیں خود کرنا ہو گا۔