تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     03-03-2015

ہورہا ہوں میں کس طرح برباد

جون ایلیا نے معلوم نہیں کس ترنگ میں آکر کہا تھا ؎
ہو رہا ہوں میں کس طرح برباد
دیکھنے والے ہاتھ ملتے ہیں
مگر ہماری حالت اس سے بدتر ہے۔ کوئی ہاتھ ملنے والا بھی نہیں، جون ایلیا ہی کے بقول ؎
میں بھی بہت عجیب ہوں‘ اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں
اپنے آپ کو برباد کرنے کا ایک واقعہ ہو تو کوئی اپنا، پرایا ہاتھ بھی ملے۔ قدرت ہمیں ترقی و خوشحالی، عروج و سربلندی کا باربار موقع فراہم کرتی ہے مگر ہماری ژولیدہ فکری اور پست ہمتی ہمیں پھر پاتال میں گرا دیتی ہے۔ ہم ازلی دشمنوں کو دوست بنانے کے جتن کرتے ہیں اور آزمودہ دوستوں کو حیلوں بہانوں سے پریشان و ناراض ۔ تازہ ترین مثال چین اور سعودی عرب کی ہے جو ان دنوں ہمارے سیاستدانوں ، مذہبی رہنمائوں اور دانشوروں بالخصوص الیکٹرانک میڈیا پر قابض سوڈو انٹلیکچوئلزکی تنقید و تعریض کا خصوصی ہدف ہیں۔
سعودی عرب نے پچھلے سال پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد دی تو یہاں منفی پروپیگنڈے کا طوفان آگیا۔ ایسے ایسے سوالات اٹھائے گئے کہ سعودی حکمران چکرا کر رہ گئے، کوئی قوم اور اس کی سیاسی قیادت اس قدر عاقبت نااندیش اور ناشکری بھی ہوسکتی ہے کہ وہ محض پوائنٹ سکورنگ کے لیے ایک دوست ملک کو الزامات کی سان پر رکھ لے۔ سعودیوں نے کبھی سوچا نہ ہوگا۔ پاکستان میں دہشت گردی، عسکریت پسندی اور فرقہ واریت کے ڈانڈے سعودی عرب سے جوڑنے والے دور کی کوڑیاں لائے اور ایسی ایسی سازشی کہانیاں گھڑی اور پیش کی گئیں کہ خدا کی پناہ۔ یوں لگا بھارت سے زیادہ سعودی عرب ہمارا دشمن ہے اور ڈیڑھ ارب ڈالر کی خطیر رقم شاہ عبداللہ نے نوازشریف کو نہیں ملا فضل اللہ کو ارسال کی ہے تاکہ وہ پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجادے۔ یہ پروپیگنڈا مہم اب تک جاری ہے۔
عوامی جمہوریہ چین ان دنوں پاکستان کی اقتصادی و معاشی مشکلات کے خاتمے اور خطے میں قیام امن کے لیے خصوصی طور پر سرگرم عمل ہے۔ افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی کا دورۂ چین ، پاکستان اور سعودی عرب اسی سلسلے کی کڑی تھا اور افغان حکومت کے ساتھ طالبان کے مذاکرات بھی چینی کوششوں سے ممکن ہیں ۔ چین طالبان کا افغان حکومت میں موثر کردار چاہتا ہے تاکہ وہ اس تباہ حال ملک میں اطمینان سے سرمایہ کاری کرسکے۔
گوادر کا شغر اقتصادی راہداری کا منصوبہ چین کی انہی کوششوں کا حصہ ہے تاکہ پچاس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے پاکستان، چین اور افغانستان تینوں ملک مستفید ہوسکیں۔ گوادر کا شغر راہداری منصوبہ صرف سنکیانگ کو براستہ درہ خنجراب گوادر سے نہیں ملائے گا بلکہ آگے چل کر یہ افغانستان کے راستے وسطی ایشیا تک چین ، پاکستان دونوں کی رسائی کا ذریعہ بھی بنے گا۔ امکان یہ ہے کہ یہی منصوبہ بالآخر افغانستان اور پاکستان میں قیام امن کی ضمانت فراہم کرے گا کیونکہ طاقتور سٹیک ہولڈر پراکسی وار ختم کرنے کے لیے ہر فریق پر دبائو ڈالنے اور بدامنی کے بنیادی اسباب ختم کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔
گوادر کا شغر منصوبہ سے کسی صوبے کے مفادات مجروح ہوتے ہیں نہ کالاباغ ڈیم کی طرح نوشہرہ کو '' خطرہ ‘‘ ہے جو کالاباغ ڈیم کے بغیر بھی 2010ء کے سیلاب میں ڈوب گیا۔ یہ جہالت ہے ،کم عقلی یا اندھا علاقائی و صوبائی تعصب کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں نے جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام کو ساتھ ملاکر گوادر کاشغر اقتصادی راہداری کے خلاف منفی مہم شروع کردی ہے اور مطالبہ یہ کیا جارہا ہے کہ سندھ و پنجاب کو اس منصوبے سے نکال کر روٹ وہ منتخب کیا جائے جو سات آٹھ ہزار فٹ بلند پہاڑیوں ، جنوبی وزیرستان اور بلوچستان کے شورش زدہ علاقوں اور دیگر دشوار گزار راستوں سے گزرتا ہوا گوادر تک پہنچے۔ اخراجات اور تکمیل کی مدت میں اضافے اور چینی انجینئروں کی زندگی کی کسی کو پروا، نہ اپنے آزمودہ دوست چین کی قابل عمل خواہش کا لحاظ کہ یہ منصوبہ پانچ دس سال میں نہیں دو اڑھائی سال کی محدود مدت میں مکمل ہونا چاہیے۔
حیرت انگیز مگر افسوس ناک پیش رفت بلوچستان اسمبلی کی قرار داد ہے جس میں اقتصادی کاریڈور پرانے روٹ پر تعمیر کرنے کا مطالبہ کیاگیا ہے۔ خیبرپختونخوا اسمبلی یہ کارخیر پہلے ہی انجام دے چکی ہے۔ یہ پرانا روٹ کیا ہے؟ گوادر سے تربت، پنجگور ، قلات، کوئٹہ ، قلعہ سیف اللہ ، ژوب ، ڈیرہ اسماعیل خان ، بنوں ، کرک، ایبٹ آباد، قراقرم ہائی وے بذریعہ درہ خنجراب ، کاشغر ۔ جبکہ حکومت پاکستان چین کے مشورے پر اسے آسان، محفوظ اور کم عرصہ میں مکمل ہونے والے منصوبے کے طور پر گوادر براستہ خضدار، رتو ڈیرو ، سکھر، ملتان، لاہور، اسلام آباد، قراقرم ہائی وے جلد مکمل اور فنکشنل کرکے این 85کے ذریعے دوسرے مرحلے میں کوئٹہ ، قلعہ سیف اللہ ، ژوب، ڈیرہ اسماعیل خان اور ایم 8کے ذریعے آواران اور رتو ڈیرو کو جوڑنے کا ارادہ رکھتی ہے ،اس سے اگلے مرحلے میں بابو سرپاس کے راستے چلاس، مانسہرہ ، مظفر آباد ،حویلیاں اور ایبٹ آباد کو بھی اسلام آباد سے جوڑنے کا منصوبہ ہے۔
کون نہیں جانتا کہ پاکستان میں کام کرنے والے چینی انجینئروں کے اغوا اور دہشت گردی کے واقعات میں ہلاکت کے بعد چین فی الحال راہداری ملک کے بڑے شہروں اور محفوظ علاقوں سے گزارنے کے حق میں ہے اور جلدازجلد تکمیل کا خواہش مند ۔یہ صرف ایک سڑک یا ریلوے لائن کا منصوبہ نہیں بلکہ 9ہزار میگا واٹ بجلی کی پیداوار، انٹرنیشنل ایئرپورٹ، اقتصادی زون اور مختلف ہائی ویز کی تعمیر کا منصوبہ ہے جس سے ترقی اور خوشحالی کا نیا دور شروع ہوگا۔ گزشتہ روز چینی سفارت کار نے اس حوالے سے جو بریفنگ دی وہ ہمارے عظیم دوست کی فکر مندی کی آئینہ دار تھی۔ چینی سفارت کار نے درست کہا کہ اقتصادی راہ داری پر مزید بحث اختلافات کو جنم دے گی، جو پاکستان کے حق میں نہیں، مگر بحث ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آرہی اور اب اس میں بلوچستان اسمبلی شامل ہوگئی ہے، جہاں مسلم لیگ کے حلیفوں اور وفاقی حکومت کے چہیتوں کی حکومت ہے اور چین کو قرار داد کے ذریعے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ مخالفین کے علاوہ میاں نوازشریف کے حلیف بھی اقتصادی راہداری کی جلد تکمیل نہیں چاہتے،لہٰذا مشتری ہوشیار باش۔
میاں نوازشریف اور ان کے دانا ساتھیوں نے بھی اقتصادی راہداری کا منصوبہ بناتے وقت اپنے حلیفوں کو اعتماد میں لیا ، نہ مخالفین اور رائے عامہ کو ہموار کرنا مناسب سمجھا۔ کالاباغ ڈیم کی طرح اس منصوبے کے حقیقی خدوخال پوشیدہ رکھے اور چینی سرمایہ کاری کو اپنی عظیم کامیابی قرار دے کر مخالفین کے سینے پر مونگ دلنے کی کوشش کی۔ یہ تک نہیں سوچا کہ پاکستان کے ازلی دشمن اس منصوبے کو مکمل ہونے سے پہلے سبوتاژ کرسکتے ہیں اور ہمارے کم فہم ،زود رنج اور نسلی ، لسانی، صوبائی، علاقائی تعصبات کے مارے سیاستدان اس کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں گے۔ خیبرپختونخوا اسمبلی نے اقتصادی راہداری منصوبے کے حوالے سے قرار داد منظور کی تو اسے تحریک انصاف کی طرف سے مخالفت برائے مخالفت کا شاہکار قرار دیاگیا مگر اب بلوچستان اسمبلی نے بھی اس روٹ کو برقرار رکھنے کی بات کی ہے جس کی تعمیر میں کئی برس درکار ہیں، لاگت میں کئی گنا اضافہ لازم، چینی انجینئروں اور کارکنوں کے لیے خطرات مستزاد اور معلوم نہیں اس وقت تک چین کی دلچسپی برقرار رہے گی بھی یا نہیں؟
اگر اقتصادی راہداری سے چاروں صوبے مستفید ہوں تو اس سے خیبرپختونخوا اور بلوچستان کو کیا نقصان ہے اور اگر سندھ ،بلوچستان کو اس منصوبے سے خارج کردیاجائے تو کس کو فائدہ ہے؟ بھارت نے اپنے دفاعی بجٹ میں چار ارب ڈالر اضافہ کیا ہے۔ جنوبی ایشیا کے دو امریکی ماہرین جارج پروکووچ اور ایشلے ٹیلیس نے کانگریس کو بتایا ہے کہ دہشت گردی کے کسی واقعہ پر بھارت پاکستان پر حملہ کرسکتا ہے جو بالآخر ایٹمی جنگ کو جنم دے گا مگر ہمارے حکمران، سیاستدان، قانون ساز ادارے اور دانشور آزمودہ دوستوں چین اور سعودی عرب کو ناراض کرنے پر تلے ہیں ،ان کی قوت برداشت اور دوستانہ وضع داری کا امتحان لے رہے ہیں اورانہیں وضاحتیں جاری کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔
کسی کو قطعی احساس نہیں کہ قوموں اور ریاستوں کی ناکامی کا سفر سفارتی تنہائی اور دوستوں کی دوری سے شروع ہوتا ہے اور کوئی قوم اپنے آزمودہ دوستوں کے بغیر کسی اندرونی و بیرونی دشمن کا مقابلہ نہیں کرسکتی ؎
مجھ سے چھڑوائے مرے سارے '' اصول‘‘ اس نے ظفرؔ
کتنا چالاک تھا‘ مارا مجھے تنہا کر کے
'' اصول‘‘ کی جگہ '' دوست‘‘ پڑھ لیجیے، دوست چھوڑنے پر کوئی مجبور کررہا ہے نہ اصول ، ہمیں خود ہی یہ شوق چرایا ہے ؎
کجھ اُنج وی راہواں اوکھیاں سن
کجھ گل وچ غماں دا طوق وی سی
کجھ شہر دے لوگ وی ظالم سن
کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved